26 مئی کی صبح میران شاہ میں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر پختون زلمے کے سابق لیڈر اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کے غیر سرکاری پولیٹکل ایڈوائزر علی وزیر کی اپنے ساتھیوں سمیت حملے کی خبر نے سب کو چونکا دیااور یہ سب چین اور ازبکستان کے نائب صدور کی پاکستان آمد سے ایک دن پہلے کرایا گیا‘ تا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والوں کو پیغام دیا جا سکے اورامریکی ‘ برطانوی اور افغان میڈیا سمیت بھارت کے تمام ٹی وی چینلز‘ اس جعلی حملے کے تنا ظر میں پاکستان کو بد نام کرنے کیلئے ایک سال پرانی تصویریں دکھاتے ہوئے ‘پشتونوں میں جو زہر بھرنے کی کوشش رہے ہیں اور ان کے جو مذموم مقاصد ہیں‘ وہ کسی سے بھی اب ڈھکے چھپے نہیں۔
روس کی مدد سے ستمبر1960ء میں افغان فوج اور ملیشیا نے باجوڑ ایجنسی پر حملہ کیا تھا‘ جس کو باجوڑکے محب وطن پاکستانی قبائلیوں اور چراٹ سے بھیجے گئے ‘ایس ایس جی کمانڈوز نے مل کر ناکام بنا دیا تھا۔ مارچ1961ء میں اطلاع آئی کہ افغانستان نے روس کا بھیجا ہوا بھاری اسلحہ اور گولہ بارود جمرود میں اپنے ایجنٹ پاچا گل کے ذریعے بٹ ملائی ایریا میں ڈمپ کر رکھا ہے‘ تاکہ دو دن بعد اس حصے پر قبضہ کرنے کے بعد افغان ملیشیا کے کام آ سکے ۔اس اطلاع کے ملنے پر پاکستان ائیر فورس کے بم بار جہازوں نے یہ بھاری اور تباہ کن ذخیرہ اڑا دیا تھا ۔ مئی1961ء میں ملیشیا کے روپ میں افغان فوجیوں نے باجوڑ ایجنسی‘ خیبر ایجنسی اور جندل پر ایک بار پھر حملہ کر دیا‘ جسے فرنٹیئر کور نے اپنے قبائلی بھائیوںکی مدد سے ناکام بنا دیا تھا۔یہ افغانستان کا حملہ اس قدر خوفناک تھا کہ اسے ناکام بنانے کیلئے پاکستان ائیر فورس کی مدد بھی لی گئی تھی۔
6 ستمبر1961 ء کو پاکستان نے افغانستان کی فوجی جارحیت اور پختونستان کے نام سے مداخلت کرنے پر جواب میں جب افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بند کر دی‘ تو دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات بھی منقطع ہو گئے اور یہ سفارتی تعلقات دو سال بعد ستمبر1964 ء میں سردار دائود کے استعفیٰ کے بعد دوبارہ بحال ہو ئے ۔18 ستمبر1964 ء کو ایک مرتبہ‘ پھر شاہ ظاہر شاہ نے لوئی جرگہ منعقد کرواتے ہوئے پختونستان کیلئے تمام افغانی سرداروں کو اپنے اپنے لشکر تیار کرنے پر راضی کیا اور پھر جولائی1973 ء میں نیشنل عوامی پارٹی کی مدد کرتے ہوئے پشاور اور پاکستان کے دوسرے حصوں میں بم دھماکے اور دہشت گردی شروع کروا تے ہوئے ریڈیو کابل کے ذریعے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ تیز کر دیا۔جولائی میں شاہ ظاہر شاہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد پختونستان کیلئے فوجی مدد کا اعلان کیا گیا اور یہ سب کچھ بھارت اور روس کی مدد سے کیا جا رہا تھا‘ جس پر اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آئی جی ایف سی نصیر اﷲ بابر کو بلا کر حکم دیا کہ بہت ہو چکا‘ اب افغانستان کو سبق سکھانے کیلئے آپ بھی قبائلیوں کی فورس تیار کریں اور یہ پہلا حکم تھا‘ جو افغانستان کی جارحانہ پیش قدمی اور بم دھماکوں کا جواب دینے کیلئے د یا گیا تھا۔
افغانستان نے وہ کردار جو شاہ ظاہر شاہ کی بادشاہی میں اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرتے وقت پاکستان کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے ادا کیا ‘وہی کردار ایک مرتبہ پھر فروری1974ء میں لاہور میں ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے بلائی جانے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں اس طرح ادا کیا کہ افغانستان کے وزیر اعظم سردار دائو دنے اس میں ہیڈ آف دی سٹیٹ کی حیثیت سے شرکت کرنے سے انکار کر تے ہوئے دنیا کو بتانے کی کوشش کی کہ افغانستان ابھی بھی پاکستان کو ایک ملک کے طور پر تسلیم نہیں کرتا‘ اس نے اپنے ایک ترجمان عبد الرحمان پشواک کو افغان نمائندے کی حیثیت سے اس کانفرنس کی سنجیدگی اور مقاصد کو نقصان پہچانے کی نیت سے بھیج دیا ۔ عبد الرحمان پشواک نے انتہائی گھٹیا قسم کی حرکت کرتے ہوئے اس کانفرنس میں اٹھ کر انٹر نیشنل ڈیورنڈ لائن اور پختونستان کا شور مچا یا‘ لیکن اسلامی سربراہی کانفرنس کے شرکاء نے سردار دائود کے بھیجے گئے‘ اس نمائندے کے شور شرابے پر کان نہ دھر تے ہوئے اس کے مذموم منصوبے کو نا کام بنا دیا۔
1973ء سے1979ء کی تاریخ دیکھیں تو اس دوران شاہ ظاہر شاہ اور سردار دائود سے ببرک کارمل تک سب نے بلوچستان کے مری سرداروں کے لشکروں کے ذریعے بغاوت کرائی اور ان مری‘ مینگل اوربگٹی سرداروں کے بھیجے ہوئے لشکروں کو اپنے پاس بلا کر پاکستان کے اندر جنگ و دہشت گردی کیلئے ہر قسم کا اسلحہ اور گولہ بارود مہیا کرتے رہے اور یہ سب کچھ روس اور بھارت کی فوجی اور مالی مدد سے کیا جاتا رہا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ روس کی خفیہ ایجنسی ''کے جی بی‘‘ نے جیسے ہی محسوس کیا کہ 32 برس تک کروڑوں ڈالر کی بھر مار اور بے تحاشہ اسلحہ اور گولہ بارود کے با وجود افغانستان اس کیلئے گوادر کے گرم پانیوں تک آزادانہ موومنٹ کی سہولیات کی راہ ہموار نہ کر سکا‘تو اس نے خود میدان عمل میں اترنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپریل1978ء میں کے جی بی کے ذریعے افغانستان کے صدر سردار دائود خان کا اس کے خاندان سمیت صفایا کروا دیا۔
دسمبر1979ء میں روسی کے جی بی نے حفیظ اﷲ امین کو قتل کروانے کے بعد اپنی ایک لاکھ سے زائد فوج‘ افغانستان میں داخل کرتے ہوئے ببرک کارمل کو صدر ات کی مسند پر بٹھا دیا‘ جس نے آتے ہی پختونستان کا جھنڈا اٹھاتے ہوئے اس کی آزادی کیلئے جدو جہد کا اعلان کر دیا۔ اب نام نہاد لبرل‘ ترقی پسند دانشور اور خود ساختہ سنیئر اینکر صاحبان‘ سے ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ جب امریکا نے پاکستان کی مغربی سرحدوں کے ایک ایک انچ کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی اور طاقت ور روسی افواج کو بلوچستان کا مقابلہ کرنے کی پیش کش کی تو پاکستان ‘روس کے نام کی اس عفریت‘ جس کی ائیر فورس کے جہازوں اور پائلٹس اور پانی سمیت دلدل میں دوڑنے والے ٹینکوں کے ذریعے 1971ء کی جنگ میں بھارت کے قدم سے قدم ملا کر ساتھ دیا اور روس نے اپنی تمام جدید فوجی ٹیکنالوجی سمیت بھارت کی مدد کی اور اپنے ماہرین سمیت بھر پور حصہ لیتے ہوئے پاکستان کو دو لخت کیا۔ اس لئے ذہن نشین رہے کہ یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے امریکہ کی روس کے خلاف جنگ میں جہاد کو فروغ دیا اور صرف امریکا نہیں‘ بلکہ بھارت اور دو عرب ممالک کے‘ تمام دنیا نے پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے اپنے تمام دروازے کھول دیئے اور امریکہ کی پرائی جنگ میں کودتے ہوئے ‘ اپنی جانب تمام نظروں کو جھکاتے ہوئے پاکستان کوناقابل ِشکست ایٹمی طاقت بنا دیا‘ جس کی وجہ سے بھارت اپنے دیو ہیکل وجود کے باوجود اس ایٹمی طاقت کے میزائلوں اور بھر پور نیو کلیئر طاقت کے سامنے بے بس کھڑا ہے۔
آخر میںتحریک انصاف کی مرکزی اور کے پی کے کی حکومت سے کہنا چاہوں گا کہ آپ کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ آپ منظور پشتین‘ علی وزیر اور محسن داوڑ کی پی ٹی ایم کے ساتھ ہے یا نہیں؟ (ختم)