شمالی وزیرستان کے خر کمر پوسٹ کے قریب دشمن کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگ سے ٹکرا کر فوج کی گاڑی میں سوار ایک کرنل‘ میجر‘ کیپٹن اور حوالدار شہید جبکہ چار اہل کار زخمی ہو گئے۔ یہ اس وقت ہوا جب لورالائی میں شہید کئے گئے ایف سی کے دو جوانوں کے جنازے ابھی اٹھائے جانے تھے۔ ایک ماہ میں دشمن کے ہاتھوں وزیرستان میں دس جوان شہید اور 35زخمی ہو چکے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دشمن یہاں اپنے مستقل ٹھکانے اور سیف ہائوسز حاصل کر چکا ہے اور یہ مقتل اسی جگہ سجائے گئے جہاں محسن داوڑ اور علی وزیر نے فوجی چیک پوسٹ پر حملہ کرتے ہوئے ایک جوان کو شہید کیا۔جمعۃ المبارک کی رات جیسے ہی پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے شہید اور زخمی ہونے کی خبر ملی ایسا لگا کسی نے تیز دھار خنجر کمر میں گھونپ دیا ہے۔ ابھی اسی غم اور ماتم کی کیفیت میں تھا کہ ٹی وی پر خبر آنے لگی : وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا ہے جس میں ان سے ایک بار پھر مذاکرات کے لئے کہا گیا ہے۔ آپ نہ جانے کیوں اس شخص سے بھلے کی توقع لگائے بیٹھے ہیں‘ جس نے اجیت ڈوول کو اپنا قومی سلامتی کا مشیر بنا رکھا ہے‘ جس نے مودی کو حالیہ الیکشن میں آئی بی اور را کی مدد سے کامیاب کرایا۔ جناب وزیر اعظم آپ نے تو اپنی تقریروں میں ٹیپو سلطانؒ کے حوالے دیتے ہوئے کہا تھا '' شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ تو پھر آپ یہ حکم کیوں نہیں دیتے کہ اپنے ہر ایک جوان کی شہادت کا پورا پورا بدلہ لیا جائے گا‘ ہم ان کے خون کو کبھی بھو لنے والے نہیں۔ اب بہت ہو چکا‘ دنیا میں امن کے پجاری یا ایک بہت بڑے سٹیٹس مین کے طور پر پہچان بنانے کی کوششیں اب ترک کر دی جانی چاہئیں۔ دہشت گردوں اور ان کو سہولتیں فراہم کرنے والوں سے سختی سے پیش آنے کی ضرورت ہے اور اس حقیقت سے کون ناواقف ہو گا کہ اس خطے میں دہشت گردی کو سب سے زیادہ بھارت نے پروموٹ کیا۔ یہی تو ٹیپو سلطانؒ کا فلسفہ ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ بھارتی را جس طرح بڑھ بڑھ کر ہمارے اندر گھس کر حملے کرا رہی ہے‘ وہ سب کو نظر آ رہا ہے۔ بھارت اس پورے خطے میں اور خصوصی طور پر پاکستان میں دہشت گردی کراتا ہے‘ اس کا سب سے بڑا ثبوت کلبھوشن یادو ہے‘ جو اب بھی پاکستان کی قید میں ہے اور یہ تسلیم کر چکا ہے کہ وہ دہشت گردی کی غرض سے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ ٹیپو سلطانؒ ہی کا یہ قول بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس قوم میں غدار پیدا ہو جائیں اس کے مضبوط قلعے بھی ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ بیماری کا خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب اسے جڑ سے ختم کر دیا جائے۔ غداری بھی ایک بیماری ہے ‘ جو قومی ڈھانچے اور ملکی استحکام کو کھوکھلا کرتی ہے‘ اس دیمک کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس حوالے سے کوئی رعایت یا تاخیر بیماری کو طول دینے کے مترادف ہے۔ را جب چاہتی ہے‘ جہاں چاہتی ہے ہم پروار کر جاتی ہے ‘ کیا ہم میںکوئی بھی اسے پوچھنے والا یا ٹوکنے والا نہیں؟ مقبوضہ کشمیر میں اب تک بھارت ایک لاکھ کے قریب کشمیریوں کو شہید کر چکا ہے‘ کئی ہزار خواتین کی جبری آبرو ریزی کر چکا ہے اور ابھی پلوامہ اور اس کے نواح میں تین دنوں میں 8 کشمیریوں کو بے دردی سے گھروں میں گھس کر شہید کیا گیا ہے‘ مجال ہے کہ دنیا میں کسی نے اس کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی ہو یا اس بات پر مذمت کی ہو کہ اس کی فوج نے سکولوں اور کالجوں کے پندرہ سو کے قریب بچوں کو پیلٹ گنوں سے زندگی بھر کے لیے اندھا کیوں کیا؟ کیا ہمارے حکمرانوں کے کسی نے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں یا ہم امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی یونین سے خوف زدہ ہیں ؟کیا ہم کو اپنے عہدوں کا لالچ ہے یا خوف ہے کہ ہمارے بچوں کو مارنے والوں کو کچھ کہا تو ہماری عزت پر حرف آ جائے گا؟ بہت ہو چکا۔ ہم اپنے شیر جوانوں کے جنازے اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں‘ ہمارے قبرستانوں میں جگہ کم پڑتی جا رہی ہے اور دشمن بیٹھا زہریلے قہقہے لگا رہا ہے ۔
را اپنے ایجنٹوں کو 'ویل ڈن‘ کہہ رہی ہے اور یہاں جمہوریت کے الگ ہی راگ الاپے جا رہے ہیں‘ ہم قبریں کھود رہے ہیں اور پارلیمان میں بیٹھے کچھ لوگوں کوملک دشمنوں کے پروڈکشن آرڈرز کی فکر ستا رہی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہم اپنے خلاف دشمن کی ہر سازش کا تر کی بہ ترکی جواب دے سکتے ہیں‘ کیا 27 فروری کو ہم نے یہ صلاحیت ثابت نہیں کی؟ کیا بھارتی فضائیہ اور پیدل دستے اس کو بھول رہے ہیں؟ اصل مسئلہ یہی ہے کہ اس ملک کو باہر سے نہ کبھی کوئی نقصان پہنچا سکا نہ کوئی پہنچا سکے گا‘ اس کو گھاؤ اندر کے غداروں سے پہنچے‘ کیونکہ ان سے نمٹنے میں ہم نے یکسوئی سے کام کبھی نہ کیا۔ ہر بار شک کے فائدے دے کر غداروں کو نئی زندگیاں بخش دی گئیں۔ نقصان اپنا ہی کیا۔ یاد رکھئے گا جب تک بھارت کو اور بھارت کے پالے ہوؤں کو انہی کی زبان میں جواب نہیں دیا جائے گا ان کی ہمت بڑھتی رہے گی۔ نقصان ہمارا ہی ہو گا۔ معاملہ اب مذمت سے نہیں بلکہ اسی طریقے سے کی جانے والی مرمت سے درست ہو گا۔ مت گھبرایئے کہ امریکہ یا برطانیہ کیا کہتا ہے ‘اقوام متحدہ یا یورپی یونین کیا کہتی ہے؟جب انہوں نے کبھی بھارت سے جواب طلبی نہیں کی تو ہم کیوں کانپیں؟ ہمارے کرنل‘ میجر ‘کیپٹن اور جوانوں کے شہید ہونے پر امریکہ یا برطانیہ نے اس کی مذمت کی ہے‘ کیا کسی نے اس دہشت گردی پر بھارت سے جواب طلبی کی ہے؟ ہم شیرکی طرح ایک دن کی زندگی جینا چاہتے ہیں نہ کہ گیدڑوں کی طرح سو سال کی بے غیرتی کی زندگی۔ وقت آ گیا ہے کہ دہشت گردوں اور ملک کے غداروں کے خلاف پوری قوت کے ساتھ سرگرم ہوا جائے ۔ یہ ہماری آزادی‘ بقا‘ سالمیت اور استحکام کا معاملہ ہے۔ بوڑھے والدین کے بیٹے چھن جانے سے دنیا اندھیر ہو چکی ہے۔ ان کو سکون تب ہی ملے گا جب اپنے جوانوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ بھارت‘ اسرائیل اور ان کے مغربی اتحادی پاکستان جیسی ایٹمی قوت کو ہر حالت میں منتشر کرنے کے عزائم لئے ہوئے ہماری جڑیں کاٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔بھارت میں جیسے ہی کوئی دہشت گردی کی کارروائی ہوتی ہے‘ چاہے وہ اس کے اندر کے کسی گروہ نے کی ہو‘ امریکہ اور برطانیہ ہمارے گریبان کو آ جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں آئے روز ہماری سکیورٹی فورسز کے جوان اور افسر دشمن کی دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں ۔کیا ہم سوائے مذمت کے کچھ اور نہیںکر سکتے؟ اس حوالے سے کوئی جامع اور ٹھوس لائحۂ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ کیسے توڑے جائیں کہ وہ پھر اٹھنے کے قابل ہی نہ رہیں۔
وزارت خارجہ اور داخلہ سمیت مقتدرہ کوامریکہ کے ایک درجن سے زائد تھنک ٹینک کی رپورٹس کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں سلیگ ہیریسن کی رپورٹ کئی مرتبہ پڑھ چکا ہوں‘ ہو سکتا ہے کہ یہ رپورٹ اس وقت کسی دیوانے کا خواب لگے لیکن یاد رکھنا ہو گا کہ 1964ء میں اسی امریکن سنٹر برائے انٹر نیشنل سٹڈیز کے ڈائریکٹر سلیگ ایس ہیریسن نے 1965 ء کی پاک بھارت جنگ کی پیش گوئی کی تھی‘ جو حقیقت بن کر سامنے آ گئی اور فارن پالیسی میگزین میں افغانستان میںروسی فوجوں کے قبضے کی خبر بھی اسی سلیگ ہیریسن نے ایک سال قبل 1978ء میں دے دی تھی۔ اس لئے امریکہ کے اس قسم کے اداروں کی کسی بھی ملک کے متعلق جاری کی جانے والی رپورٹس اپنے اندر بہت سے منصوبوں کی گہرائیاں لئے ہوئے ہوتی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز میں سلیگ ایس ہیریسن کے کئی برس پہلے لکھے الفاظ:
Likely break up of Pakistan along ethnic lines as result of ethnic difference must be viewed in the wider context of geopolitical ambitions.