بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف کی گزشتہ ایک ہفتے میں ہونے والی یہ دوسری ملاقات تھی۔ یہ ملاقاتیں آگے چل کر ایک نئے میثاقِ اقتدار کے سانچے میں ڈھالی جائیں گی‘ جس میں پہلی باری بلاول بھٹو زرداری اور دوسری دختر ِنواز شریف کے لیے رکھی جائے گی جبکہ سندھ میں پی پی پی اور خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یار ولی خان اور پی پی پی کا الائنس بن سکتا ہے‘ جبکہ پنجاب میں حسبِ سابق نواز لیگ اور پی پی پی کا اتحاد ہو گا۔ بلاول اور مریم کے اتحاد کی کامیابی کے لیے دو طریقے استعمال ہو سکتے ہیںجن میں سے پہلا بجٹ کی منظوری میں عمران خان حکومت کو شکست اور دوسرا جولائی میں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک ۔ان میں سے کسی ایک پر عمل در آمد کرنے کے لیے بھاری‘ بلکہ ڈھیروں کی صورت میں ملکی اور غیر ملکی سرمائے کی ضرورت ہو گی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کہاں سے آئے گا اوراگر کوئی مخیر شخصیت یا شخصیات اس کارِ خیر میں اپنا اپنا حصہ ڈالتی ہیں تو کیا یہ براہ راست ہو گا یا جس طرح '' ریا ست ہو گی ماں کے جیسی‘‘ بنانے کیلئے عدلیہ آزادی کا پرچم بلند کیا گیا تھا وہی طریقہ اور فنانسرز اس بار بھی حاصل کئے جائیں گے؟ ظاہر ہے اس کے لیے ان سب کو محفوظ گاڑیاں بھی مہیا کر دی گئی ہوں گی یا ہو سکتا ہے ان گاڑیوں کی تیاری شروع کر دی گئی ہو۔
پاکستان میں سیا سی اور مذہبی حوالوں سے کسی بھی طریقے سے اگر امن و امان میں ابتری پیدا کی جاتی ہے تو یہ بھارت ‘ اسرائیل اور امریکہ کے لیے سب سے آئیڈیل صورت حال ہو گی کیونکہ گوادر‘ سی پیک‘ بلوچستان میں علیحدگی ‘ فاٹا میں سندھ اور کراچی کی طرز پر مہاجر قومیت جیسی عصبیت اور ٹارگٹ کلنگ ‘ بلوچستان اور کے پی کے سمیت فاٹا اور سندھ میں فوج اور دوسرے سکیورٹی اداروں کے خلاف نفرت آمیز پراپیگنڈا اور سب سے بڑھ کر نواز لیگ کی جانب سے پنجاب جیسے صوبے میں قومی اداروں کے بارے جھوٹ اور مخالفانہ نعروں کی آوازیں‘ اس قسم کی صورت حال تو بھارت اور امریکہ کو اب تک مل ہی نہیں سکی‘ کیونکہ پنجاب سے فوج کے بارے نفرت آمیز آوازیں لگانے والے خال خال ہی دیکھنے اور سننے کو ملتے تھے اور جو چند ایک ترقی پسند تنظیموں سمیت کمیونسٹ اور سوشلسٹ گروپوں کی صورت میں فوج کے خلاف دبی دبی زبان میں تقریروں یا مبہم طریقوں سے کہانیاں لکھنے والے پائے جاتے تھے ان کی یہ باتیں اور قصے ان تک ہی محدود رہ جاتے تھے اور ایسے لوگوں کو چند ہم خیالوں کے سوا کوئی بھی منہ لگانے یا ان کی باتیں سننے کو تیار نہیں ہوتا تھا ۔
لیکن آج ایک جانب اگر کچھ بھاڑے کے لوگ دشمن کی آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹکنے والی خاکی وردی کے خلاف غلیظ نعرے لگانے کے لیے مل چکے ہیں تو دوسری جانب گزشتہ چالیس برسوں سے قائد اعظمؒ کے حاصل کر دہ اس وطن عزیز کو لوٹ مارکا ہدف بناتے ہوئے نوچنے کھسوٹنے والے سیا ستدانوں کی اولادیں ہیں‘ جنہیں پختہ یقین ہو چکا ہے کہ چاہے کچھ بھی کر لیں ان کے والدین اور بھائیوں کی مہربانیوں سے دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود کسی بھی نام سے لوٹی ہوئی دولت ان کے حلق سے نکالنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں ۔وہ کہتے سنے جا رہے ہیں کہ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔اب بے آواز لاٹھی برس کر رہے گی اور ایسے لوگ مکافات قدرت سے ٹکرانے کی کوشش کرتے ہوئے بھول رہے ہیں کہ ان کی پکڑ کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی یہ تو کوئی اور ہی طاقت ہے جو نظام ہستی چلا رہی ہے۔
جیسا کہ اوپر لکھا ہے کہ عوامی ریلیوں کے لیے لازمی محفوظ ترین گاڑیوں کی بھی ضرورت ہو گی اس سلسلے میں اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ سی آئی اے کی تیار کردہ ایک یا دو گاڑیاں کہیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں تو پھر اس نایاب گاڑی میں کون کون بیٹھے گا؟ اس گاڑی کا سٹیئرنگ کس کے ہاتھ میں ہو گا؟ اس گاڑی کی اگلی اور پچھلی نشستوں پر کون کون تشریف فرما ہو گا؟ دنیا کی یہ بہترین اور مکمل بم اور بلٹ پروف گاڑی کس کس کو بطورِ تحفہ دی جائے گی؟
فرض کر لیتے ہیں کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب خلیج کے کسی بہت ہی مشہور اور ترقی یافتہ لبرل قسم کے ملک میں بلٹ پروف اور بم پروف گاڑیاں تیار کرنے والی کسی بہت بڑی انٹر نیشنل کمپنی میں چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر کام کر رہے ہیں اور اس کمپنی کے کلائنٹس میں بڑے بڑے اہم ادارے اور شخصیات شامل ہیں ‘جن میں دنیا کی بہت بڑئی سپر پاور کا خفیہ ادارہ بھی شامل ہے۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ یہ ادارہ اس کمپنی کا سب سے بڑا خریدار ہے جو کبھی بھی ایک یا دو گاڑیوں کے نہیں بلکہ ایک وقت میں ہمیشہ دس سے بیس گاڑیوں کی بکنگ کراتا ہے۔ خطرناک اور دنیا میں حکومتی‘ معاشی اور سیا سی بحران پیدا کرنے والے کے نام سے مشہور اس ادارے کا گاڑیوں کی بکنگ اور معیار کے لیے اپنا ایک علیحدہ ہی SOP ہے اور تیار کرائی گئی ہر گاڑی کی جب تک وہ اپنے معیار کے مطا بق جانچ پڑتال نہ کرلے کسی بھی گاڑی کی حوالگی کے کاغذات پر وہ دستخط نہیں کرتا ۔ جب تک وہ اس گاڑی پر بم بلاسٹ اور ہر قسم کے خطرناک ترین ہتھیاروں کا عملی استعمال کرتے ہوئے اس کے مکمل بلٹ پروف ہونے کا عملی مظاہرہ نہ دیکھ لے اسے وصول نہیں کرتا۔ اس کمپنی کی ورکشاپ سے پوری طرح چھان بین کے بعد بھی وہ ادارہ کمپنی سے تحریری گارنٹی حاصل کرتا ہے کہ تیار کی گئی یہ گاڑی ان کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتی تو کسی بھی حادثے کی صورت میں کمپنی تمام نتائج کی ذمہ دار ہو گی‘لیکن یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ اس کمپنی نے بھی ایک مقررہ اصول اختیار کیا ہوا ہے جس کی وہ سختی سے پابندی کرتی ہے کہ گاڑی تیار کرتے ہوئے وہ اس خفیہ ادارے‘ جسے آپ ایک لمحے کے لیے کوئی حوالہ دینے کے لیے سی آئی اے کا نام دے لیں‘سے اس بات کی پابند ی کراتی ہے کہ وہ خلیجی ملک کی بم پروف گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنی کو اس شخصیت کے متعلق پوری تفصیلات مہیا کرے گی جس کے استعمال میں یہ گاڑی دی جائے گی۔
اگر کسی کو یاد رہ گیا ہو تو مارچ 2011ء میں یکے بعد دیگرے کے پی کے میں ایک مذہبی شخصیت پر دو خود کش حملے کئے گئے اور 22 اکتوبر2014ء کو کوئٹہ میں جلسے سے خطاب کے بعد وہاں سے روانہ ہونے والی مذہبی شخصیت کی گاڑی پر بھی خود کش حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ بالکل محفوظ رہے۔ کوئٹہ میں اس وقت کے آئی جی پولیس کے مطا بق خود کش حملہ آور ان کی گاڑی کے پائیدان پر چڑھ کر ٹکرا گیا تھا جس سے گاڑی کے باہر کھڑے دو افراد شہید ہو گئے لیکن وہ معزز رہنما اپنی لینڈ کروزر کے اندر موجود ہونے کی وجہ سے مکمل محفوظ رہے۔ تو سمجھ لیجئے کہ خلیج کی وہ کمپنی بھی شایداسی قسم کی ہی گاڑیاں تیار کرتی ہے جس قسم کی گاڑی ان مذہبی رہنما یا دوسرے بہت سے سیاسی رہنماؤں کے استعمال میں ہیں۔ سی آئی اے سے متعلقہ لوگوں نے خلیج کی اس مشہور کمپنی کو بم پروف گاڑیاں تیار کرنے کو کہا اور حسب ضابطہ کمپنی نے ان گاڑیوں کو استعمال کرنے والی شخصیات کے متعلق تفصیلات مانگیں تو جو نام اس کمپنی کو مہیا کئے گئے وہ میں یہاں درج کرنے سے قاصر ہوں ۔
پاکستان میں سیا سی اور مذہبی حوالوں سے کسی بھی طریقے سے اگر امن و امان میں ابتری پیدا کی جاتی ہے تو یہ بھارت ‘ اسرائیل اور امریکہ کے لیے سب سے آئیڈیل صورت حال ہو گی کیونکہ گوادر‘ سی پیک‘ بلوچستان میں علیحدگی ‘ ٹارگٹ کلنگ ‘ بلوچستان اور کے پی کے سمیت فاٹا اور سندھ میں فوج اور دوسرے سکیورٹی اداروں کیخلاف نفرت کی صورت حال تو بھارت اور امریکہ کو اب تک مل ہی نہیں سکی