"MABC" (space) message & send to 7575

چوبیس ہزار ارب اور دھنیا چور

چوبیس ہزارارب کب لئے‘ کیوں لئے‘ کس نے لئے اور کہاں کہاں خرچ کئے گئے؟ پاکستان کی تاریخ کے اس پہلے کمیشن کی سربراہی کیلئے وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے مایہ ناز اور جرم سے نفرت کرنے والے پولیس افسر حسین اصغر کو اس کا سربراہ مقرر کرنے کا انقلابی فیصلہ کیا ہے‘ جو چھ ماہ کے اندر اندر حاصل کئے جانے والے ان قرضوں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے حقائق سامنے لائے گا۔ چوبیس ہزار ارب‘ جس نے میرے ملک کو گھٹنوں کے بل گرا رکھا ہے اوراگر ‘ یہ پیسہ میرے ملک کے ہسپتالوں‘ سکولوں‘ تفریح گاہوں اور ریلوے سمیت پی آئی اے اور سٹیل مل پر لگا دیا جاتا تو آج ہر پاکستانی دنیا میں سر اٹھا کر کھڑا ہوتا‘ تاہم اب‘ وقت آ گیا کہ چوبیس ہزار ارب لوٹنے والوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے‘ جو دھنیا چورافضل خرم کے ساتھ ہوا۔
افضل خرم‘ جس پر مبینہ طور پر الزام لگایا گیا کہ اس نے350 روپے کا دھنیا چرانے کی کوشش کی ۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ افضل خرم دنیا کا وہ واحد چور ہے‘ جسے دھنیا چرانے کے جرم میں گرفتاری کا ایسا ''اعزاز‘‘ عطا ہوا کہ اس کی درخواست ضمانت سول جج سے چلتی ہوئی کئی سال بعد اعلیٰ عدالت کے ڈویژن بنچ تک جا پہنچی۔ دھنیا چرانے کے جرم میں گرفتار افضل خرم کوجیل کے استاد اور ڈاکو دیکھ کر شرم سے آنکھیں نیچی کر لیتے تھے کہ افضل خرم ‘ہم سب سے بازی لے گیا۔ اس بد بخت دھنیا چور نے ہمارے کھانوں کی سب سے پسندیدہ چیزچراکر اس کا اصل ذائقہ اور اس سے اٹھنے والی بھینی بھینی خوشبو چھیننے کی گستاخی کی۔ ایسے شخص کو تو کسی صورت بھی نہیں چھوڑنا چاہیے‘ لیکن وہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کا کہ وہ آڑے آ گئی‘ جس نے اس ''میگا دھنیا کرپشن‘‘ کا جرم قابل ِضمانت قرار دے دیا‘ ورنہ یہ دھنیاچور ہمیشہ پاکستان کی جیلوں میں بند گلتا سڑتا رہتا۔افضل خرم سے تو جیل حکام بھی تنگ تھے کہ نہ اس کے ملاقاتیوں کی بارات آتی تھی اور نہ ہی اس سے کوئی ماہانہ ملتا تھا ۔
افضل خرم کے نام کی طرف دیکھیں تو یقین ہی نہیں آتا کہ اس نام کا شخص دھنیا چرانے کی قبیح حرکت بھی کر سکتا ہے۔ دھنیا چور کے مقدمے کے جو سب سے اہم اور حیران کن حقائق سامنے آئے ہیں‘ انہوں نے اسلام آباد کے سکندر کی یاد تازہ کر دی‘ جس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں کلاشنکوفیں اٹھاکر اسلام آباد کے بلیو ایریا میں دس گھنٹے تک انتظامیہ کو اپاہج بنائے رکھا ۔یہ دھنیا چور بھی ایک ہاتھ میں پستول اور دوسرے ہاتھ میں رائفل لئے دھنیا چراتا رہا ۔ اب یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ جب اس کے ایک ہاتھ میں بھاری رائفل اور دوسرے میں پستول تھا‘ تو اس نے دھنیا کیسے چرایا ہو گا؟ اس کے پاس کوئی سائیکل یا موٹر سائیکل تھی یا کوئی اور سواری تھی‘ جس پر اس نے دھنیا لے جانے کی کوشش کی ؟ کراچی سے لاہور تک جعلی اکائونٹس کی ایسی ایسی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں کہ سن کر انسان تھر تھرا کررہ جاتا ہے‘ لیکن یہ سب لوگ موج مستی کر رہے ہیں ‘کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔ 
ڈالر گرل ایان علی اپنے ساتھ پانچ لاکھ ڈالر لئے دُبئی شاپنگ کیلئے جا رہی تھی کہ سب کو خبر ہو گئی‘ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایون فیلڈ‘ العزیزیہ‘ الفریڈ ‘ سرے محل اور سوئس اکائونٹس کے علاوہ منی لانڈرنگ جیسے '' معمولی جرائم‘‘ میں ملوث شرفاء کی چند ماہ بعد ہی ضمانت ہو جانے کی خبریں سامنے آ جاتی ہیں‘ لیکن یہ تو کسی کو پتا ہی نہ چل سکا کہ ان کے ملک میں دھنیا چور جیسے خطرناک ملزم بھی جیلوں میں بند پڑے ہوئے ہیں۔استاد گوگا دانشور اس بے مثال کارنامے پر پنجاب پولیس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ اسے کہتے ہیں؛ پولیس ‘جس نے دھنیا چوری جیسے نا قابل ِ معافی جرم کے مقدمے کا چالان اس مضبوطی سے تیار کیا کہ ملک کی کسی بھی عدالت کو اس گھنائونے جرم میں ملوث ملزم کی ضمانت لینے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ وہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کے جسٹس گلزار احمد پر مشتمل بنچ کا‘ جس نے اس مبینہ دھنیا چور افضل خرم کی ضمانت لے کر پنجاب پولیس ‘ ٹرائل کورٹ اور عدالتی نظام پر تو انگلیاں اٹھائیںہی ‘ ساتھ ہی اس دھنیا چور افضل خرم کو بھی بائیس کروڑ آبادی والے ملک سمیت دنیا بھر میں مشہور کر دیا۔ افضل خرم کیلئے‘ اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ لوگ اس کی دھنیا چوری کو بھول چکے تھے‘ لیکن جب تک وہ رہا ہو کر جیل سے باہر نکلے گا‘ تو اس سے قبل ہی ہر کوئی ‘اس کے چرائے گئے دھنیا کی خوشبو اور شہرت سے واقف ہو چکا ہو گا۔
ہمارے استاد محترم گوگا دانشور تو اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس ملزم کا دماغی معائنہ بھی ہو نا چاہیے کہ بجائے ا س کے وہ ڈالر گرل ایان علی کی طرح منی لانڈرنگ کرتا‘ کوئی بینک لوٹتا‘ دوگنا تخمینہ لگا کر ناقص میٹریل سے کوئی پل اور سڑک بناتا‘ کسی طاقتور کی انتخابی مہم چلا کر ملک کے کمزور سے شخص کی زمین پر قبضہ کرتا‘ کسی پولیس افسر کی ٹائوٹی کرتا‘ لاہور یا پنجاب کی کسی بھی گلی ‘سڑک یا مارکیٹ میں ڈکیتی کی کھلے عام وارداتیں کرتا‘ اس نے مبینہ طور پر دھنیا چراکر ان بڑے بڑے مجرموں کی ناک ہی کٹوا کر رکھ دی ۔اس کے برعکس افضل خرم کو کم از کم کسی لانچ کی '' کپتانی‘‘ کرتے ہوئے ملک سے روزانہ کروڑوں روپے دبئی منتقل کرنا چاہیے تھے اور اگر یہ بھی نہیں تو کراچی کے ان ڈاکوئوں سے ہی کچھ سبق سیکھ لیتا‘ جو آئے روز دُکانوں سے بے خوف اپنی اپنی پسند کا گوشت چرا کر لے جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے معزز جسٹس گلزار احمد نے مقدمے کی سماعت کے دوران حیرت سے پوچھا کہ صرف تین چار سو روپے کا دھنیا چھیننے والا ملزم کئی سال سے جیل میں بند ہے اور بڑے بڑے مجرموں پر کوئی ہاتھ ہی نہیں ڈالتا ‘جو سب کے سامنے آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ دھنیا چور افضل خرم کے وکیل سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ایڈووکیٹ صدیق بلوچ تو شاید حیران نہ ہوئے ہوں گے‘ لیکن کہتے ہیں کہ عدالت میں اس وقت موجود تمام وکلااور سائلین نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی کہ جب یہ دلچسپ مقدمہ ضمانت کیلئے پیش ہوا۔ بات پھر میرے استاد محترم گوگا دانشور کے اندازوں اور تجزیوں کی جانب چلی آتی ہے‘ جو دبے دبے لفظوں سے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ افضل خرم کا جرم تو کچھ بھی نہیں تھا اور نہ ہی اس واردات میں کسی قسم کی سنگینی نظر آتی ہے‘ہو سکتا ہے کہ اس کی نیت میں کوئی سنگینی یا خطرناک بات ہو‘ جس نے پولیس کو ہتھے سے اکھاڑ دیا اور وہ اس قدر مضبوط مقدمہ بنانے میں جت گئے کہ ا س کی ضمانت ہی نہ ہو سکے۔
اگر ہمارادوست وکیل اپنے سائل کو اعتماد میں لیتے ہوئے اس سے اصل سچ کریدنے کی کوشش کریں تو بغیر کسی شک کے کہا جا سکتا ہے کہ ملزم افضل خرم کی نیت صحیح نہیں تھی اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے کسی رقیب پولیس افسر کو یا اس کے کسی کارِ خاص کو چند سو روپے مالیت کا یہ دھنیا کسی مبینہ مقصد کیلئے پلانا چاہتا ہو اور اس پولیس افسر کو اس دھنیا کے پیچھے چھپی سازش کا پہلے ہی پتا چل گیا ہو۔افضل خرم؛ اگر اس قسم کے گھنائونے مقاصد کیلئے دھنیا چوری کر رہا تھا‘ تو اسے اپنی ضمانت کیلئے ماڈل اور ڈالر گرل ایان علی سے ہی کچھ سبق سیکھ لینا چاہیے ‘ جس نے بہترین اور قابل وکلا کی مدد سے اپنی ضمانت کروا لی اور اپنا مقدمہ بھی جیت ہی جائے گی۔
افضل خرم نے دھنیا چوری کرنے پر نہیں‘ بلکہ اچھا اور بڑا نامور وکیل نہ کرنے کے جرم میں اپنی زندگی کے جو سال جیل میں گزارے ہیں‘ اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اسے آئندہ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اگر دھنیا چوری جیسا کوئی بڑا جرم کرنا ہے‘ تو پھر ضمانت کرانے کیلئے وکیل بھی بڑا اور زبردست قسم کا ہو نا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں