تیسری دنیا میں غربت اور افلاس کے ہاتھوں اجتماعی خود کشیوں کا بڑھتا ہوا رجحان 35 سال قبل اس وقت شروع ہوا‘ جب ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے ترقی پذیر دنیا کے غریب اور کرپٹ حکمرانوں کو بیرونِ ملک کروڑوں روپوں کی رشوت اور کمیشن دیتے ہوئے ان کی حکمرانی میں چلنے والے ممالک کے مالیاتی وسائل پر قبضے کرنے کا آغاز کیا تھا۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر جب ارجنٹائن کے ضعیف العمر ریٹائرڈ لوگوں کی پنشن میں کمی کی گئی تو سب سے پہلے وہاں کی دو ریٹائرڈ بوڑھی عورتوں نے بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر سر عام اپنی گردنوں میں پھندے ڈال کر خود کشیاں کر لی تھیں۔ قرضوں کی وصولی کے لئے زمبابوے حکومت کے صحت کے بجٹ میں 30 فیصد کمی کرا کے بچوں کی اموات کی شرح پانچ گنا بڑھا دی گئی۔ کینیا میں‘ جہاں پرائمری تعلیم مفت تھی‘ اس سہولت کو ختم کروا کے وہاں تعلیم کے شعبے کو تباہ کر دیا گیا۔ آئی ایم ایف نے فلپائن کو مجبور کیا کہ وہ اپنی زرعی زمینوں کو صنعتی مقاصد کے لئے استعمال کرے۔ اس سے فلپائن کی زرعی معیشت تباہ ہو گئی۔ پاکستان کے بجٹ میں بچوں کی فیس پر سات سال قبل ٹیکس لگا دیا گیا۔ کیا اس کا یہ مقصد ہے کہ ہمارے ملک کے بچوں کی اچھی اور اعلیٰ تعلیم تک رسائی ناممکن بنا دی جائے؟ غریب ممالک کو امداد اور قرضوں کے نام پر بے بس کرکے اپنے شکنجے میں جکڑنے والے عالمی مالیاتی اداروں‘ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف‘ کی بنیاد جولائی 1944ء میں رکھی گئی تھی۔ تب دوسری جنگ عظیم اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی اور ایسے وقت میں امریکہ اور برطانیہ سمیت دوسرے مغربی ملکوں نے فیصلہ کیا کہ یورپی ممالک کی تباہ حال معیشت سنوارنے کے لئے بڑے مالیاتی ادارے قائم کئے جانے چاہئیں۔ اس طرح انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ عالمی مالیاتی بینک، گیٹ اور آئی ایم ایف کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان عالمی مالیاتی اداروں کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ جنگ سے متاثرہ مغربی اقتصادیات کو دوبارہ منظم اور مستحکم کریں۔ اس حوالے سے منعقد کی گئی کانفرنس کے فیصلے کے مطابق امریکی ڈالر کو بین الاقوامی کرنسی کی حیثیت دے دی گئی‘ جس کی بنیاد سرمائے اور اشیا کی آزادانہ نقل و حرکت پر رکھی گئی۔ اس طرح اس کانفرنس کے نتیجے میں پوری بین الاقوامی تجارت امریکی ڈالر سے منسلک ہو گئی۔ ان مالیاتی اداروں نے بہت جلد یورپی ممالک کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا کیونکہ وہاں کرپشن نہیں تھی اور ان کا کوئی ترقیاتی منصوبہ بھی بے مقصد نہیں تھا۔
یورپی ممالک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے بعد ان مالیاتی اداروں نے تیسری دنیا کا رخ کیا تاکہ ترقی پذیر ملکوںکی اقتصادی حالت کو مضبوط کیا اور بہتر بنایا جائے۔ بظاہر ان کا یہ نعرہ خوش کن اور غریب ممالک کیلئے حوصلہ افزا تھا‘ لیکن اس کے پیچھے نیت ان ممالک کے تمام وسائل پر قبضہ کرنے کی تھی اور یہ سوچ اس طرح ظاہر ہوئی کہ سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کے منہ سے ایک دن اچانک یہ جملہ نکل گیا تھا ''غریب ملکوں کی امداد کا اصل مفہوم ان ملکوں کی مدد کرنا نہیں ہوتا بلکہ خود اپنی مدد کرنا ہے‘‘۔ لوگ دیکھتے ہی ہوں گے کہ ان اداروں نے تیسری دنیا کے ملکوں کی مدد کے نام پر غریب ممالک کو فنڈ ضائع کرنے والے اور تباہ کن منصوبوں کے لئے قرضوں کی بھرمار کر دی۔ یہ قرضے ان ملکوں کے حکمرانوں نے اپنے اللوں تللوں پر خرچ کر دیئے۔ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ جب بھی کوئی ملک ان عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لیتا ہے تو وہ اپنی معاشی خود مختاری سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے بہت سے معاملات پر وہاں کے حکمرانوں کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے۔ بڑا مشہور واقعہ ہے کہ کئی سال پہلے جمیکا کے صدر نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی تقریبِ دستخط کے بعد دستاویز آئی ایم ایف کے نمائندے حوالے کرتے ہوئے کہا تھا ''اب ارجنٹائن میں ہماری حکومت نہیں رہی‘ ہماری حکومت تو آپ کی نگران حکومت ہے اور آج سے میں جمیکا کا نگران صدر ہوں‘‘۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا کے غریب ملکوں پر حکومت کرنے والے اور ان کی معاشی‘ داخلی اور دوسری پالیسیاں بنانے والے یہ عالمی مالیاتی ادارے تیسری دنیا کی مدد کے نام پر اپنے سرپرست بڑے بڑے ملکوں کی جیبوں کو کم اور دوسرے ممالک کی جیبوں کو زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اگر آپ ان عالمی مالیاتی اداروں کے وسائل کی طرف دیکھیں تو یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ان کا اپنا تو کچھ بھی نہیں ہے۔
پاکستان کے مالی معاملات کی جانب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے متوجہ ہونے کا باقاعدہ آغاز 1972-77ء کے دوران اس وقت ہوا جب اوپیک کے تیل پیدا کرنے والے ملکوں نے خطیر منافع حاصل کرنا شروع کیا۔ اگر عمیق مشاہدہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ تیل کے اس خطیر منافع کی گردش نے دنیا بھر میں بہت سے نئے بحرانوں کو اس طرح جنم دیا کہ تیل پیدا کرنے والے چھوٹے چھوٹے ممالک اور ریاستوں نے تیل سے حاصل ہونے والی ان رقوم کو اپنے پاس رکھنے کی بجائے امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے بینکوں میں جمع کرا دیا۔ یہ اس قدر بھاری رقوم تھیں کہ ان ممالک کے بینک سوچ میں پڑ گئے کہ اتنی بڑی رقوم کا کیا کریں۔ ایسے وقت میں امریکی سرکاری ادارے اپنے منصوبے کے تحت آگے بڑھے اور ان بینکوں کو استعمال کرتے ہوئے تیل کی یہ ساری دولت تیسری دنیا کے تیل نہ پیدا کرنے والے ان ملکوںکو مختلف قسم کے قرضوںکے نام پر دینا شروع کر دیں‘ جو آئے روز تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافوں‘ اپنے غیر ضروری ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور ان کی آڑ میں لوٹ مار کے لئے مزید قرضوں کے شدید ضرورت مند تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1973ء سے 1982ء کے دوران تیسری دنیا کے تیل پیدا نہ کرنے والے ممالک نے ڈالر کے مقابلے میں اپنی کرنسی کی قدر کم کرنا شروع کر دی اور یوں ہم جیسے ممالک پر قرضوں کا بوجھ پہلے سے پانچ گنا زیادہ ہو گیا۔ پھر 1980ء کے عشرے کے وسط میں اور بعد ازاں گاہے بگاہے سود کی جو بلند شرح مقرر کی جانے لگی اس نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا۔ دوسری طرف قرض کے طور پر ملنے والی ان رقوم کا بڑا حصہ تیسری دنیا کے ان ممالک نے یا تو ضروری غور و خوض کے بغیر تیار کئے گئے منصوبوں پر ضائع کر دیا یا ان ممالک کے حکمرانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کے ذاتی کھاتوں میں منتقل ہو کر ترقی یافتہ ممالک کے انہی بینکوں میں دوبارہ واپس جا پہنچا‘ جنہوں نے یہ رقوم ان غریب ملکوں کو قرض کے طور پر جاری کی تھیں۔ پانامہ نے یہ راز کھول کر سب کو ننگا کر دیا ہے۔ کیا یہ بد قسمتی نہیں کہ ان بینکوں میں پیسہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کا‘ قرض لینے والے ممالک کا ہے‘ اور یہی پیسہ دوبارہ پاکستان جیسے ان ترقی پذیر اور غریب ممالک کو سخت شرائط پر بطور قرضہ دے کر ان کو پابند کیا جاتا ہے کہ بجلی سستی نہیں کرنی، پانی کے بل کم نہیں کرنے‘ گیس سستی نہیں کرنی‘ آٹے، گھی اور دوسری اشیائے خوردنی پر عوام کو سبسڈی نہیں دینی‘ تیل کو سستا نہیں کرنا بلکہ ایک نیا ٹیکس لگا کر اسے مہنگا کرنا ہے‘ جنرل سیلز ٹیکس‘ اور پراپرٹی ٹیکس کا دائرہ پانچ مرلے تک کے گھروں پر بڑھانا ہے‘ جو ہم کہیں کوئی چون و چرا کئے بغیر وہی کرنا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان جیسے غریب ممالک کے حکمرانوں، سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے ہاتھوں ہوتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے ملنے والی ہر نئی قسط کے ساتھ یہ شرط عائد ہوتی ہے کہ یہ رقم ہمارے بنائے گئے منصوبوں کی تکمیل اور حاصل کئے گئے قرضوں اور ان پر واجب الادا سود کی ادائیگی کیلئے ہے‘ اور خبردار یہ اپنے ملک کے انتہائی ضرورت مند اور مفلوک الحال لوگوں کی فلاح و بہبود، تعلیم، اچھی اور سستی خوراک اور صحت عامہ جیسے منصوبوں پر خرچ نہیں کرنی۔ پاکستان جیسے ملکوں کو آئی ایم ایف سے جو قرضے اب ملنے ہیں وہ ''گمبھیر مسائل کا شکار مریض کو آکسیجن دے کر زندہ رکھنے کے لئے ہیں کیونکہ اگر ''مریض‘‘ مر گیا تو پھر وصولیاں اور من مانیاں کیسے ہوں گی؟