پنوں عاقل جیسی فوجی چھائونی کی سٹریٹیجک اہمیت سے بے خبر ایک خاتون تجزیہ کار‘ جو آج کل لندن اور جنیوا میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی ترجمانی کے فرائض نبھا رہی ہیں‘ نے 'را‘ کے زیر اہتمام ''دی پرنٹ‘‘ ویب سائٹ پر نئے ڈی جی آئی ایس آئی سمیت پاکستانی فوج میں ہونے والی چند انتظامی تبدیلیوں پر ایک طویل مضمون میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اوسط درجے کے افسر تھے‘ اس لئے انہیں کسی اہم ڈویژن کی کمانڈ دینے کی بجائے جی او سی پنوں عاقل تعینات کیا گیا۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ موصوفہ فوج کی الف ب سے بھی واقف نہیں کیونکہ وہ کچھ عرصہ پاکستان نیوی سے وابستہ رہ چکی ہیں۔ اس لئے یہ جانتے ہوئے کہ کراچی اور اندرون سندھ جب علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیمیں‘ لسانی اور مذہبی گروہ ایک دوسرے کو قتل کر رہے تھے‘ جب بلوچستان اور سندھ کی سرحدوں سے منسلک گزرگاہیں دشمن کے ایجنٹوں کو سندھ سے کراچی اور بلوچستان میں داخل کرانے کیلئے استعمال ہو رہی تھیں‘ تو ایسے وقت میں پنوں عاقل جیسی سٹریٹیجک کمانڈ کے لئے کسی بے حد قابل افسر کی ضرورت تھی اور اسی لئے فیض حمید صاحب کا انتخاب کیا گیا تھا۔ موصوفہ شاید یہ بھی نہیں جانتیں کہ پاکستانی فوج میں اوسط سطح کے افسر کبھی بھی میجر اور کرنل کے رینک تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہمیشہ ہر نوعیت کی اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد نے ہی ترقی کے مدارج طے کیے ہیں۔
انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو 8 ماہ بعد ہی آئی ایس آئی سے تبدیل کر کے گوجرانولہ جیسی کور کا کمانڈر تعینات کر دیا گیا‘ لیکن یہ نام نہاد دفاعی تجزیہ کار اتنا بھی نہیں جانتیں کہ گوجرانوالہ کور‘ جسے Heart Of The Land کہا جاتا ہے‘ کے ذمے وسطی پنجاب جیسے وسیع اور اہم ترین حصے کی حفاظت ہے‘ جو عام ٹاسک نہیں‘ کیونکہ 1965ء اور 1971ء میں دشمن کی سب سے بڑی کوشش یہی رہی ہے کہ وہ چونڈہ ظفروال سے آگے بڑھ کر جی ٹی روڈ کو کاٹ دے۔ اگر موصوفہ کی نظر اور عقل کام کرتی تو وہ یہ بھی سوچ لیتیں کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی بطور کمانڈر گوجرانوالہ فیلڈ پوسٹنگ انہیں مستقبل میں ہونے والی کسی پروموشن کیلئے Consideration List میں بھی لا سکتی ہے۔
مذکورہ مضمون میں مصنفہ کی جانب سے دوسرا اور سب سے بڑا دکھ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں ممکنہ توسیع اور وزیر اعظم عمران خان کی زیرِ نگرانی تشکیل دی جانے والی ''نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل‘‘ میں بطور ممبر نامزدگی ہے۔ اگر جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاتی ہے‘ تو اس سے سوائے ایک آدھ کے کوئی بھی متاثر نہیں ہو گا اور مصنفہ سمیت ان کے سرپرستوں کو پاکستان کے اس قطعی اندرونی معاملے سے قطعی پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ ہاں اس پریشانی کی وجہ کوئی ڈر اور خوف ہے تو الگ بات ہے۔
پاکستان میں فو ج سمیت کسی بھی ادارے میں کی جانے والی انتظامی تبدیلیاں پاکستان کا طعی اندرونی معاملہ ہے۔ اس پر اگر بھارت یا اس سے محبت کرنے والا کوئی تیسرا فریق بھڑک اٹھے یا تڑپنا شروع کر دے تو یہی سمجھا جائے گا کہ اس پوسٹنگ‘ ٹرانسفر یا تعیناتی نے انہیں پریشان کر دیا ہے یا وہ اس تعیناتی سے خوف زدہ ہو گئے ہیں۔ اور خوف کی یہ صورت حال گزشتہ چند دنوں سے بھارت کے سوشل میڈیا سمیت الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں مسلسل مشاہدے میں آ رہی ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی پوسٹنگ مودی سرکار اور ان کے دوستوں کیلئے سوہان روح کیوں بن گئی ہے؟ اس پوسٹنگ سے اٹھنے والی درد کی لہریں روشنی سے بھی تیز سفر کرتی ہوئی نئی دہلی سے ہوتی ہوئی لندن اور امریکہ کے قلب تک جا پہنچی ہیں‘ اور ان کی تکلیف اور پریشانی کو دیکھتے ہوئے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کے میڈیا سیل کی نگران اپنے مہربانوں کو تکلیف میں دیکھ کر اپنے آرٹیکل کے ذریعے پاکستان پر پل پڑی ہیں۔ موصوفہ نے اپنے مضمون کے ذریعے پاکستان کا ایک غلط تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دشمن اور اس کے ساتھیوں کی جانب سے کی جانے والی اس قسم کی دانستہ شرارتوں کو ففتھ جنریشن وار کا سب سے خطرناک حملہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی سلسلے کا ایک حملہ یہ ہے کہ بھارت نے ایک غیر ملکی انگریزی اخبار کے ذریعے یہ تاثر پھیلانے کی بھی کوشش کی کہ ''عمران خان اور آرمی چیف میں ایف اے ٹی ایف کے معاملات کو ڈیل کرنے پر اختلافات پیدا ہو چکے ہیں‘‘۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ حکومت اور فوج تمام ایشوز پر ایک پیج پر ہیں۔ انگریزی زبان کے اخبار کے شاید اسی ایڈیٹوریل نوٹ کو لے کر بلاول اور مریم صفدر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ لیکن ان سب کو اس وقت منہ کی کھانا پڑ گئی‘ جب ترکی‘ چین اور ملائیشیا نے پاکستان کے آگے ڈھال بن کر بھارتی سازشوں کو ناکام بنا دیا اور ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو مزید مہلت دے دی ہے۔ دشمنوں کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حسین حقانی اور مصنفہ موصوفہ پر مشتمل ٹولہ درد اور تکلیف سے کلبلاتا ہوا اس دن سے آنسو بہا رہا ہے جب فیض آباد کا دھرنا فریقین میں ایک اطمینان بخش معاہدے کے بعد پرامن طریقے سے ختم ہو گیا تھا‘ اور اس کے شرکا دشمنانِ پاکستان کے غلیظ ارادوں کو روندتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو واپس پلٹ گئے تھے۔ 'را‘ کی زیرِ ادارت مصروف عمل ویب سائٹ ''دی پرنٹ‘‘ میں موصوفہ مصنفہ نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی بطور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تقرری پر اپنا اور بھارت کا مشترکہ رد عمل دیتے ہوئے جو مضمون لوڈ کیا ہے‘ وہ 'را‘ کے میڈیا اور پروپیگنڈا سیل کو پاکستان کے اس سپاہی کے تقرر سے پہنچنے والے دکھ اور تکلیف کا وہ اظہار ہے جو پاکستان کے بد خواہوں کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ اپنے اس مضمون میں بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے متعلق موصوفہ نے یہ تاثر بنانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ایک عام درجے کے افسر تھے۔ اگر یہی حقیقت ہے‘ جو کہ یقیناً حقیقت نہیں ہے‘ تو 'را‘ اور اس کی حامی اس خاتون کو تو بجائے رونے دھونے کے خوش ہونا چاہئے کہ 'را‘ اور آئی بی کا مقابلہ کرنے کے لیے آئی ایس آئی کا چیف عام سطح کا افسر ہے‘ لیکن بھارت کے دکھ اور کرب سے لگتا ہے کہ معاملہ اس سے بالکل الٹ ہے اور نئے ڈی جی آئی ایس آئی وہ افسر ہیں‘جنہوں نے آئی ایس آئی میں بطور ڈائریکٹر کائونٹر انٹیلی جنس کلبھوشن یادو سمیت بھارت کے پچاس سے زائد جاسوسی اور دہشت گردی کے نیٹ ورک کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے تھے۔ بھارت اپنے میڈیا سیل کے ذریعے اس سے پہلے بھی آئی ایس آئی کے کئی چیفس کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کرتا رہا ہے کیونکہ وہ بھارت کی چالوں کو پیشگی سمجھ کر اس کا سدباب کر دیتے تھے۔ بھارت ابھی پاکستان میں آگ لگانے کا سوچ ہی رہا ہوتا تھا کہ وہ آگ اسے خود ہی بھسم کرتے ہوئے راکھ کا ڈھیر بنا دیتی تھے۔
یہ ساری تفصیلات بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن اس کو ناکام بنانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دے رہے۔ اس لئے ہمیں مزید چوکس ہو کر رہنا پڑے گا تاکہ دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے اور وطن عزیز کے تحفظ‘ استحکام‘ سالمیت اور ترقی کو ہر لحاظ سے یقینی بنایا جا سکے۔
پاکستان کے دشمن اس کو ناکام بنانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دے رہے۔ اس لئے ہمیں مزید چوکس ہو کر رہنا پڑے گا تاکہ دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے اور وطن عزیز کے تحفظ‘ استحکام‘ سالمیت اور ترقی کو ہر لحاظ سے یقینی بنایا جا سکے۔