ایک محبِ وطن نے باقی تمام محبِ وطن پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ ملک کے مسائل حل کرنے کے خواہش مندوں کو سب سے پہلے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا آغاز کرنا چاہیے‘ جس پر باقی تمام ڈیمز کے مقابلے میں کم لاگت آئے گی اور جس کی تعمیر دوسرے کسی ڈیم سے جلد مکمل ہو گی۔ کوئی بھی ڈیم یا بند انسان کی اس جہد ِمسلسل کا شاہکار ہوتا ہے جو وہ فطرت کے مظاہر کو اپنے ا ور بعد میں آنے والی نسلوں کے فائدے کے لیے صدیوں سے استعمال میں لاتا آ رہا ہے۔ یہ ایک دیوا ر ہوتی ہے جو دریا کے راستوں میں بنائی جاتی ہے اور پھر اس پانی کو روک کر بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے اس سے کئی فائدے لیے جاتے ہیں۔ ڈیم ایسی جگہوں پر بنائے جاتے ہیں جہاں پیچھے پہاڑوں کی اونچی اونچی دیواریں ہوں تاکہ پانی کا زیا دہ سے زیا دہ ذخیرہ کیا جا سکے۔
ڈاکٹر چراغ محمد خان جیسے محب وطن پاکستانیوں کو دکھ ہے کہ ہم بحیثیت قوم تماشائی بن چکے ہیں اور اس حال تک پہنچانے والے وہی اقتدار پرست اور مفاد پرست ہیں جنہوں نے ہمیں زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں میں پھنسا رکھا ہے۔ کالا باغ ڈیم کی جب فزیبلٹی مکمل ہونے پر اس کی سائٹ پر کام شروع ہوا تو نہ جانے کیا وجہ بنی کہ اس کے ڈیزائن کے مطا بق پوری قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا ہی نہیں گیا کہ جو بھی پانی کالا باغ ڈیم کی جھیل میں جمع ہو گا‘ وہ کہاں کہاں اور کس مقدار میں استعمال ہو گا۔ میرے خیال میں یہی وہ ٹیکنیکل غلطی تھی جس کی پاکستانی اب تک سز ابھگت رہے ہیں۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کے ذہن میں اس کے علاوہ بھی کچھ مثالیں یا وجوہات ہوں۔ منگلا ڈیم کی مثال سب کے سامنے ہے کہ جب اس کا آغاز ہوا تو اسی وقت طے کر دیا گیا تھا کہ اس کا پانی کہاں کہاں استعمال ہو گا اور یہی طریقہ کار چشمہ بیراج اور تربیلا ڈیم بناتے وقت اختیار کیا گیا۔ کالا باغ کے لیے بھی پوری قوم کے سامنے واضح کر دینا چاہیے تھا کہ اس کے پانی کی تقسیم کیسے کی جائے گی‘ یہ واضح کر دینے کی ضرورت تھی کہ کالا باغ کا سب سے زیادہ پانی سندھ کے حصے میں آئے گا ۔ اگر یہ واضح کر دیا جاتا تو میرے خیال میں وہ تنازعات کھڑے ہی نہیں ہونے تھے‘ جو سامنے آئے اور جن کی وجہ سے کالا باغ ڈیم جیسا قومی ترقی کے لیے اہم آبی ذخیرہ تنازعات کی زد میں آ گیا۔
17 برس سے زائد گزر چکے ہیں جب چینی قوم نے ایک نا ممکن کو ممکن بناتے ہوئے روئے ارض پر سب سے بڑا ڈیم بنانے کے لیے دنیا بھر سے لوہے کا ایک ایک ٹکڑا چن چن کر اکٹھا کیا تھا۔چونکہ چین میں علاقائی تقسیم نہیں ہے اور سب متحد ہیں؛ چنانچہ وہ یہ کارنامہ سرانجام دینے میں کامیاب ہو گئے۔ ہم متحد نہ ہو سکے‘ اس لیے بے حد افادیت کا حامل یہ ڈیم تعمیر کرنے سے قاصر رہے۔
سندھ کی کچھ قوم پرست جماعتیں اور کے پی کے سے کچھ حلقے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت میں سب سے آگے تھے‘ بلکہ ولی خان تو کالا باغ کو بم سے اڑانے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ان کا کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم اگر بن گیا تو دریائے کابل میں طغیانی کی صورت میں نوشہرہ کے زیر آب آنے کا خدشہ ہے ۔ذرا سوچئے کہ جب اور جہاں بھی سیلاب آتا ہے تو وہ زلزلے کی طرح سیکنڈوں میں نہیں آیا کرتا پہلے کہیں بارشوں کا طوفانی سلسلہ شروع ہوتا ہے پھر ان بارشوں کا پانی ندی نالوں سے گزرتا ہوا دریائوں تک پہنچتا ہے‘ اس کے بعد یہ پانی کہیں سیلاب کی شکل اختیار کرتا ہے۔ دریائے سندھ کے سیلاب کے لیے کم از کم48 گھنٹے پہلے نوٹس ہو جاتا ہے۔ پانی کی صورت حال کو کنٹرول کرنے والا ایک عام سب انجینئر بھی اندازہ کر سکتا ہے کہ کس علاقے میں کتنی بارش ریکارڈ ہوئی ہے اور وہاں سے کب اور کس وقت کتنے پانی کا بہائو گزرے گا اور یہ پانی کتنی دیر میں کالا باغ جھیل تک پہنچے گا۔ فرض کیجئے کہ کالا باغ ڈیم کی جھیل بھری ہوئی ہے تو اس کی سیلابی کیفیت سے پہلے ہی ہم اپنے بیراجوں اور ڈیموں سے اسی حساب سے پانی خارج کر دیں گے تاکہ جب یہ سیلاب وہاں تک پہنچے تو اسے دوبارہ بھر دے۔ آزما لیجئے اس طرح دریائے کابل کی وادی کے کسی بھی حصے کے زیر آب آنے کا ایک فیصد امکان بھی نہیں ہو گا۔ کے پی کے میں کون ہے جو نہیں جانتا کہ جب بھی سیلاب آتا ہے تو پانی دریائے کابل کے کناروں سے باہر نکل پڑتا ہے اور یہ ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی بار ہو چکا ہے ۔
سندھ میں پی پی اور سندھ کے قوم پرست کہتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم بننے سے دریائے سندھ کے سیلابی پانی میں کمی ہو جائے گی اور سمندری طوفانوں سے سندھ کا پانی نمکین ہو جائے گا۔ سندھ اور کے پی کے کی90 فیصد سے زائد آبادی کو تواس بات کا رتی برابر بھی علم نہیں کہ کالا باغ ڈیم کی لمبائی اور چوڑائی کتنی ہے۔یہ بالکل اسی طرح ہے کہ دنیا میں آنے والے ہر بچے کو پولیو کے قطرے پلانا ا زحد ضروری ہے جبکہ ان قطروں کے متعلق دانستہ یا نا دانستہ دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے والے وقفے وقفے سے افواہیں پھیلا دیتے ہیں کہ ان قطروں سے بچوں کی تولیدی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور یہ جھوٹ لوک کہانیوں کی طرز پر چھوٹے بڑے گوٹھوں تک پھیلا دیا گیا ہے۔ سندھ میں سیلاب آنے سے کچھ علا قے زیر آب آ جاتے ہیں اور سیلاب اترنے کے بعد جس زمین میں نمی رہ جائے اس کو سندھ میں کچے کا علا قہ کہا جاتا ہے۔ ایسی زمین میں جو بھی فصل بو دی جائے وہ بغیر کسی کھاد کے بہترین فصل دینے لگتی ہے اور ان فصلوں سے عام ہاری نہیں بلکہ بڑے زمیندار‘ وڈیرے اور ان کے کارِ خاص فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سندھ میں یہ تاثر پختہ کر دیا گیا ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم بن گیا تو برسات کا یہ پانی روک لیا جائے گا جس سے کچے کے علا قے میں سیلاب آنے بند ہو جائیں گے اور ہمیں مفت میں بھر پور فصلیں نہیں مل سکیں گی۔
سندھ کے اس گروپ کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ مون سون میں جب بحیرہ عرب میں تندو تیز اور شدید ہوائیں چلنے سے سمندری پانی دریائے سندھ میں داخل ہو جاتا ہے اگر دریائے سندھ میں سیلاب ہو تو وہ سمندر کے پانی کو واپس دھکیل دیتا ہے لیکن اگر کالا باغ ڈیم بن گیا تو دریائے سندھ میں سیلاب کا پانی آنا رک جائے گا کیونکہ ڈیم بننے کی صورت میں سیلاب کا خطرہ کم ہو جاتا ہے اور برسات کے موسم میں سمندر کا نمکین پانی اوپر آجانے سے دریائے سندھ کا پانی بھی کھارا ہو جائے گا جس کے بعد سندھ کی فصلیں تباہ ہو جائیں گی۔ سندھ کے کچھ حلقوں کا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ جب سمندر کا نمکین پانی ہمارے دریائوں اور جھیلوں میں جانے لگے گا تو مچھلیوں کے متاثر ہونے سے سندھ کی ماہی گیری کی بہت بڑی معیشت تباہ ہو نے کے علا وہ اس پانی سے قدرت کا نظام توازن بھی متاثر ہو گا اور پورے سندھ میں میٹھے پانی کے ذخیرے بالکل ختم ہو جائیں گے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو سندھ کے ان حلقوں کا یہ اعتراض بجا ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس اعتراض یا غلط فہمی کا حل یہ ہے کہ سب سے پہلے برسات کے موسم میں کالا باغ جھیل میں جو پانی موجود ہو گا اس کا متفقہ فارمولا طے کیا جائے کہ سردیوں میں کس کو کس حساب سے کتنا پانی دیا جایا کرے گا۔ اس تقسیم سے سندھ کو جو پانی ملے گا اتنا تو سردیوں میں بھی دریائے سندھ کا پانی دیکھنے کو نہیں ملتا اس طرح سیلابی اور کچے کے علا قے بھی متاثر نہیں ہوں گے کیونکہ اس طرح انہیں بارہ مہینے پانی وافر ملتا رہے گا اور سمندری طوفان سے نمکین اور کھارے پانی کی شکایت بھی ختم ہو جائے گی جس سے مچھلیوں کو نقصان پہنچنے کی بجائے ان کی افزائش اور پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ کراچی اور سندھ کے لوگ شائد نہیں جانتے کہ کالا باغ نہ بننے سے ان کا پانی کم ہوتا جا رہا ہے اور بجلی کی فراہمی میں تعطل کی وجہ سے کراچی والوں کو ایک کروڑ اسی لاکھ گیلن پانی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔