"MABC" (space) message & send to 7575

پریس کانفرنس اور انٹرویو

نہ جانے وہ کون ہے‘ جس نے مشورہ دیا کہ قومی اسمبلی میں یا کسی بھی دوسرے فورم پر وزیر اعظم عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کے نام سے پکارنے پر پابندی عائد کی جائے۔ اس سے زیا دہ نادانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس طرح آپ نے اپوزیشن کو موقعہ دے دیا کہ وہ آپ کا مذاق اڑانے کیلئے بار بار سلیکٹڈ کا لفظ استعمال کرے اور اس نے پہلے سے بھی زیا دہ شدت سے اس لفظ کا استعمال شروع کر دیا ہے ۔اس لفظ کے استعمال پر کوئی بھی ضابطہ نافذ کرنے کی قطعی ضرورت نہیں تھی؛ اگر تحریک انصاف کا کوئی میڈیا سیل ہوتا اور اس میڈیا سیل میں ریسرچ کرنے والے ہوتے تو وہ اپنے وزراء اور پارٹی کے متحرک لوگوں کو سابق صدر آصف علی زرداری کی 14 مئی2013 ء کولاہور بلاول ہائوس میں سینئر صحافیوں اور اخبارات کے ایڈیٹروں سے کی جانے والی اس خصوصی میڈیا ٹاک کے یہ الفاظ بار بار سناتے ''2013ء کا یہ الیکشن عوام کے ووٹوں کا نہیں‘ بلکہ آر اوز کا الیکشن ہے‘‘۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی یہ گفتگو آج بھی ہر ٹی وی چینل اور اخبارات کے آر کائیو میں موجود ہے‘ تو پھر تحریک انصاف کے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوان میں بیٹھے ہوئے وزراء اور اراکین کو اپوزیشن پر جوابی حملہ کرتے ہوئے سابق صدر کے یہ الفاظ بتاتے ہوئے کیوں ہچکچاہٹ ہورہی ہے کہ سلیکٹڈ وزیر اعظم عمران خان نہیں‘ بلکہ نواز شریف تھے۔ سلیکٹڈ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نہیں‘ بلکہ شہباز شریف تھے۔سلیکٹڈ صدر عارف علوی نہیں‘ بلکہ آصف علی زرداری تھے۔
کیا تحریک انصاف کے کسی ریسرچ سیل نے چوہدری شجاعت حسین کی کتاب نہیں دیکھی ؟جس میں2008ء کے انتخابات کی قلعی کھول کر رکھ دی گئی ہے۔ اپنی کتاب '' سچ تو یہ ہے ‘‘ میں چوہدری شجاعت حسین لکھتے ہیں ''2008ء کے انتخابات سے دو دن پیشتر انہیں امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن کا پیغام پہنچایا گیا کہ وہ جان کیری وزیر خارجہ ‘ چک ہیگل وزیر دفاع کے ہمراہ آپ سے اور چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کیلئے آنا چاہتے ہیں‘‘۔ چوہدری شجاعت مزید لکھتے ہیں کہ '' یہ تینوں امریکی سینیٹرز لاہور میں ان کی رہائش گاہ تشریف لائے ‘جہاں ان کی چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات ہوئی ۔جان کیری اور جو بائیڈن نے چوہدری پرویز الٰہی کی بے حد تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی بطورِ وزیر اعلیٰ پنجاب تعلیم اور صحت کے میدان میں تعمیری کاموں اور دلچسپی سے بہت متا ثر ہیں‘ لیکن ہم بڑے افسوس سے کہہ رہے ہیں کہ دو دنوں بعد 11 مئی کوہونے والے انتخابات میں آپ کی ق لیگ جیت بھی گئی تو امریکہ اسے قبول نہیں کرے گا ‘اس لئے کہ ہم ان انتخابات میں میاں نواز شریف کو کامیاب کرانا چاہتے ہیں‘‘ جناب بلاول بھٹو اور مریم بی بی کچھ سمجھے آپ؟ یہ تھا؛ آپ کا سلیکٹڈ وزیر اعظم اور وہ بھی کس کا ‘امریکہ کا...!!
چوہدری شجاعت مزید رقمطراز ہیں کہ '' پرویز الٰہی نے سینیٹر جان کیری سے کہا ؛آپ لوگ تو جمہوریت کی باتیں کرتے نہیں تھکتے‘ آپ کی ساتھی اور اتحادی قومیں‘جن میں یورپی یونین اور دولت مشترکہ شامل ہے ‘پاکستان میں منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کیلئے درجنوں کے حساب سے اپنے مبصر بھیجتے ہیں تو کیا سمجھ لیا جائے کہ یہ سب ڈراما ہوتا ہے؟ آپ تینوں سینیٹرز‘ اگر انتخابات میں کامیاب ہو جائو اور وائٹ ہائوس یا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یہ کہے کہ وہ آپ کی کامیابی کو تسلیم نہیں کرتا تو آپ کا ردعمل کیا ہو گا؟ چوہدری پرویز الٰہی کے اس سوال پر تینوں امریکی سینیٹرز سوائے ایک زرو دار قہقہہ لگا نے کے خاموش رہے‘‘۔الغرض قومی اسمبلی کا ایوان ہو یا سینیٹ ‘کسی ٹی وی چینل کا ٹاک شو ہو یا جلسہ یا کوئی پریس کانفرنس ‘آصف علی زرادری اور شہباز شریف‘ بلاول بھٹو اور مریم صفدر اور خورشید شاہ کو قومی اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہو کر کیوں نہیں بتایا جاتا کہ امریکی سینیٹرز جان کیری‘ جو بائیڈن اور چک ہیگل نے 2008ء کے عام انتخابات سے ایک روز قبل اسلام آباد سے واشنگٹن واپس جاتے ہوئے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا '' امریکہ کسی بھی صورت میں پاکستان کے ان انتخابات میں مسلم لیگ ق کی کامیابی کو تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔یہ انٹرویو آج بھی سی این این کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ یہ انٹرویو پاکستان کے اخبارات میں شائع ہو چکا ہے ۔
عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کہنے والوں کو سی این این کا یہ انٹرویو کیوں نہیں دکھایا جاتا‘ جس میں امریکہ نے پاکستان کی ہر طاقت‘ جس میں تمام نوکر شاہی اور الیکشن کمیشن شامل تھا‘ سب کو واضح حکم جاری کر دیا تھا کہ کس کو کامیاب کرانا ہے‘ کسے شکست دینی ہے اور اس کیلئے بطورِ وزیر اعلیٰ اپنا سب سے بڑا مہرہ پنجاب میں لا کر بٹھا دیا۔ اپوزیشن کے فریب اور چالبازی سے کس قدر لا علم اور بے خبر ہیں؛ تحریک انصاف والے! افسوس تو یہ ہوتا ہے کہ وزارت اطلاعات یا پی ٹی آئی کا میڈیا سیل‘ اگر کوئی ہے تو اس میں بیٹھے ہوئے لوگ وزیر اعظم کی میٹنگ میں تو فوٹو شوٹ کرانے کیلئے اکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں‘ لیکن انہیں رتی برا بر بھی احساس نہیںہوتا کہ جس کی وجہ سے وہ اس منصب پر بیٹھ کر اکڑ رہے ہیں‘ اس شخص کے خلاف پھیلائے گئے جھوٹ اور پراپیگنڈے کا جواب دینا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ امریکی سینیٹر زکی چوہدری پرویز الٰہی کو کھلم کھلا دھمکی اور اسلام آباد سے واشنگٹن جاتے ہوئے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے ''اعلیٰ حکام ‘‘ کو وارننگ جاری کرنا کہ ان انتخابات کے نتائج ان کی مرضی کے ہوں گے‘ نہ کے عوام کے ووٹوں کی مرضی کے‘‘۔کیا دھاندلی نہیں؟کیا پری پول رگنگ نہیں؟کیا کسی کی سلیکشن نہیں تھی؟
میں جانتا ہوں کہ میڈیا ایڈوائزر نے میرے آرٹیکل وزیر اعظم ہائوس میں رکھے جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے‘ لیکن ؛اگر تحریک انصاف کا کوئی رکن اسمبلی‘ جو عمران خان سے مخلص ہے تو اسے امریکہ کے ان تین طاقتور ترین سینیٹرز جان کیری‘ جو بائیڈن اور چک ہیگل کے سی این این کو دیئے جانے والے انٹرویو اور لاہور میں چوہدری برادران کے گھر پر دی جانے والی دھمکی اور سی این این کو دیئے جانے والے اس انٹرویو کو پی ٹی وی سمیت دوسرے چینلز پر سناتے ہوئے قوم کو سناتے ہوئے پوچھنا چاہیے کہ کہ دیکھو‘ سنو اور فیصلہ کرو کہ کون ہے ؛سلیکٹڈ صدر اور وزیر اعظم؟مگر‘ جس سیا سی جماعت کا میڈیا سیل سوائے خوش گپیاں یا کارروائیاں ڈالنے کا ماہر ہو‘ اس سیا سی جماعت کا اﷲ ہی حافظہ ہوتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اقتدار کے مزے لینے والا تحریک انصاف کا میڈیا سیل یا اس کے قریبی لوگ اس قدر بے خبر ہیں کہ انہیں اپوزیشن کو جواب دینا ہی نہیں آتا ۔مراد سعید جیسے چند ایک ہیں ‘جبکہ مقابلے میں اپوزیشن کے تیس سے زیا دہ متحرک حملہ آور ہیں۔ جب بلاول بھٹو اور خورشید شاہ ‘ رانا تنویر اور شہبازشریف یا شاہد خاقان عبا سی اسمبلی فلور پر عمران خان پر اچھل اچھل کر ووٹ چرانے کے الزامات لگا رہے ہوتے ہیں‘ تو کم از کم قومی اسمبلی کے ایوان میں تو کسی کو اٹھ کر امریکی سینیٹرز کے انٹرویو اور آصف علی زرداری کی بحیثیت ِصدر ِپاکستان ‘بلاول ہائوس میں میڈیا ٹاک ''یہ عوام کے ووٹوں کا نہیں آر اوز کا الیکشن تھا ‘‘ قوم کو بتانا چاہیے۔
قومی اسمبلی کے ایوان میں بیٹھے ہوئے ق لیگ کے وزراء اور سب سے بڑھ کر چوہدری مونس الہٰی موجود ہیں‘ جنہیں امریکی سینیٹرز کے ان کے والد کو کہے گئے الفاظ یاد ہیں‘ لیکن وہ نہ جانے کیوں چپ رہتے ہیں ۔انہوں نے آج تک وزیر اعظم عمران خان کا دفاع نہیں کیا۔ شاید‘ ابھی تک اس احسان کا بدلہ چکانے کیلئے آصف علی زرداری کے سامنے زبان نہیں کھولتے‘ جو این آئی سی ایل کیس میں انہیں کینٹ کے ریسٹ ہائوس میں رکھ کر ان پراحسان کیا گیا تھا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں