سری لنکا میں تعینات امریکی سفیر پیٹریشیا بیونس کو بیٹھے بٹھائے نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر کولمبو کی پانی سپلائی کرنے والی کمپنی کی مین پائپ لائن سے منظوری کے بغیر‘ اپنے '' نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے تحت پائپ لائن کا کنکشن اپنی رہائش گاہ سے منسلک کر لیا۔ انہوں نے سوچ رکھا تھا کہ بش کے ورلڈ آرڈر اور اوبامہ اور ٹرمپ کی خوفناک دھمکیوں سے اس زمین کا ذرہ ذرہ لرز رہا ہے تو سری لنکا کی کیا مجال کہ وہ کوئی حرکت کر سکے‘ لیکن وہ بھول گئے کہ ان کا یہ عمل سری لنکن قانون کے مطا بق ناجائز تھا ۔ جب کولمبو کے پانی سپلائی کرنے والے ادارے کو امریکی سفارت کار کی اس حرکت کا علم ہوا تو اس نے امریکی سفیر کو نوٹس بھیجا کہ آپ کی رہائش گاہ پر لگایا جانے والا پانی کا یہ کنکشن ہمارے ادارے کی رپورٹ کے مطابق غیر قانونی ہے اور اس کی جو ویڈیو ہمارے ا دارے نے تیار کی ہے وہ آپ کو اس نوٹس کے ساتھ بھیجی جا رہی ہے‘ چونکہ آپ کا یہ اقدام سرا سر غیر قانونی ہے اس لیے براہ کرم نوٹس موصول ہونے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر پانی کے لگائے گئے اس کنکشن کو منقطع کر لیں ورنہ حکومتی ادارہ اسے خود کاٹ دے گا۔ امریکی سفیر نے یہ نوٹس پڑھ تو لیا لیکن اسے ایسے پھینک دیا جیسے اس کی اہمیت ان کے نزدیک ردی کے ایک ٹکڑے کے سوا کچھ بھی نہ ہو۔ کولمبو واٹر سپلائی ادارے نے دو دن انتظار کیا اور تیسرے دن انجینئرز نے اطلاع دی کہ امریکی سفارت خانے نے ابھی تک کمپنی کے احکامات پر عمل نہیں کیا ۔شاید امریکیوں نے وہی سوچ رکھا ہو کہ کہاں امریکہ اور کہاں چھوٹا سا تامل ٹائیگرز کے ہاتھوں یر غمال بنا ہوا‘ گھبرایا ہوا سری لنکا۔ کولمبو واٹر سپلائی کمپنی کی جانب سے سفارت خانے کو چوبیس گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے آخری نوٹس بھیجا گیا۔ چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جب واٹر کمپنی کے اس نوٹس پر سفارت خانے نے عمل نہ کیا تو کولمبو کے واٹر سپلائی ادارے کے اہل کاروں نے اگلے دن امریکی سفیر کی رہائش گاہ میں نصب پانی کے دونوں کنکشن کاٹ دیئے۔ سری لنکن حکومت کی اس گستاخی پر چند منٹوں میں ہی شور مچ گیا کہ اس کی یہ جرأت‘لیکن سری لنکن قانون پر سپر پاور امریکہ کی کسی دھمکی کا ذراسا بھی اثر نہ ہوا بلکہ امریکہ بہادر کے سفیر کی رہائش گاہ میں نصب اس پائپ لائن کا کنکشن فوری طور پر کاٹنے کے بعدامریکی سفیر کو3000ڈالر جرمانہ بھی کر دیا گیا۔
اب سری لنکا کے مقابلے میں دنیا کی ایک مضبوط ایٹمی قوت کی جانب دیکھیں‘ جہاں آئین کی عظمت اور بحالی کے ہر دم چرچے رہتے ہیں‘ جہاں آئین کی پامالی پر غداری کے سر ٹیفکیٹ نہیں بلکہ فردِ جرم عائد کر دی جاتی ہے‘ وہاں وائسرائے کی مرضی سے ‘ میثاق جمہوریت کی مہربانی سے سونپے جانے والے باری باری اقتدار کی مسند پر بٹھائے گئے اور کسی نے صوفیہ‘ بلغاریہ سے 30PKMمشین گنیں اور barrel grenades پاکستان منگوائے تو کسی نے انہیں چیک کرنے کی ہمت ہی نہیں کی۔ اس وقت کے وائسرائے حسین حقانی کی سفارش پر کسی بھی وزیر اور مشیر نے چیک کرنا تو بہت دور کی بات‘ کسی قسم کا اجا زت نامہ دیکھنا بھی ضروری نہ سمجھا‘ بلکہ یہاں تک ہوا کہ کسی نے اس پر کوئی ڈیوٹی یا ٹیکس بھی وصول نہ کیا۔ جنرل پرویز مشرف کو ٹیکنیکل طریقے سے کونے سے لگانے والے امریکہ اور برطانیہ کی مشاورت سے میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مابین طے کرائے گئے میثاق جمہوریت کی نگہبانی کرنے کے لیے اندرون خانہ ایک صاحب کو امپائر مقرر کیا گیا ۔ان تینوں پر کئے گئے احسانات کے بدلے میںامریکہ نے خلیج میں امریکی آرمی کی کور آف انجینئرنگ کی زیر نگرانی ٹیکٹیکل کمانڈ اینڈ آپریشنز سنٹر (TCOC) کے نام سے ایک ایئر پورٹ پر اپنا ایک اڈہ بنانا شروع کر دیا ۔ اس کے لیے امریکہ نے ایک رپورٹ بھیجی جس میں کراچی ایئر پورٹ پر سات ہزار مربع فٹ کا ایک کمپائونڈ اور900 مربع فٹ عمارت کی تعمیر شروع کرا دی گئی‘ لیکن مجال ہے کہ سری لنکا کے واٹر سپلائی ادارے جیسی ہمت دکھاتے ہوئے کسی نے بھی اسے روکنے کی کوشش کی ہو۔ میاںنواز شریف اور آصف زرداری کا کارٹل جب امریکی کور آف انجینئرنگ کو یہ ٹیکٹیکل کمانڈ اینڈ آپریشنز سنٹر بنانے کا اجا زت نامہ دے رہا تھا تو حساس اداروں کی جانب سے انہیں بتایا گیاکہ امریکہ نے 2006ء کے آخر میں بھی انسداد ِمنشیات آپریشن کے نام سے مکران کے ساحلی حصے میںMarine Amphibians Divn اتارنے کی کوشش کی تھی‘ جسے عسکری اداروں کی پر زور مخالفت نے ناکام بنا دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایسی کسی بھی کوشش سے بلوچستان میں گوادر جیسے مستقبل کے منصوبوں کو نقصان پہنچے گا۔
اب آتے ہیں پاکستان میں ٹیکسوں کے نام پر ''ہتھوڑا گروپ‘‘ کی حالیہ کارروائیوں کی جانب۔ سب سے پہلے بات کریں گے ایمنسٹی سکیم کی جس کی ایک شق کے مطا بق اندرون یا بیرون ملک اپنی جائیداد اور سرمائے کو ڈکلیئر کرنے والے کو ہر گز اجا زت نہیں ہو گی کہ وہ چھپائے ہوئے اثاثے سے کسی کمزور یا بند ہونے والے صنعتی یونٹ کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے پاکستان کے اندر کسی دوست یا تیسرے شخص کو نہیں دے سکے گا‘ بلکہ صرف اپنے کسی خونی رشتے دار کے حوالے کر سکے گا۔ انکم ٹیکس کا جو ایک نیا نظام آرہا ہے اس کی تفصیلات نے سب کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس سلسلے کی ایک مثال ہی کافی ہے کہ نجی ادارے میں کام کرنے والا ایک اہلکار ہر ماہ 27 ہزار روپے انکم ٹیکس ادا کرتا تھا۔ 2019ء میں اس کی تنخواہ میں بیس ہزار روپے ماہانہ اضافے سے انکم ٹیکس کی شرح57 ہزار ہو چکی ہے‘ اب سوچئے کہ ان کی سالانہ ترقی بھی گئی اور انکم ٹیکس پہلے سے بھی دس ہزار روپے زیادہ کر دیا گیا۔ حکمرانوں اور ایف بی آر کو کس طرح یقین آئے گا کہ پاکستانی دل وجان سے پانی‘ بجلی‘ گیس اور ٹیلیفون اور موبائل فونز پر بے تحاشا ٹیکس ادا کرتے ہیں‘ تمام اشیائے ضروریہ کی خریداری پر بھی روزانہ ٹیکس اد ا کرتے ہیں لیکن اپنی ماہانہ آمدنیوں پر ٹیکس اد اکرنے کا رواج دنیا بھر میں بہت ہی کم ہے۔صرف لاہور اور گوجرانوالہ ڈویژن کی مثال سامنے رکھ لیجئے ‘ چھوٹے چھوٹے دیہات کو چھوڑ دیجئے صرف قصبوں اور بڑے شہروں ‘ تحصیلوں اور ضلعی مقامات سے انکم ٹیکس کی شرح ساٹھ فیصد سے بھی کم ہے۔ اگر ایف بی آر تھوڑی سی سختی اور تھوڑے سے پیار سے عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے ا س ساٹھ فیصد کی وصولی کر نے کی ٹھان لے تو ہرکوئی حکومت کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا۔
جرمنی کے شہر میونخ میں اس کی سینٹرل بزنس اینڈ انڈسٹریل فیڈریشن کے منعقدہ ایک ہنگامی اجلاس میں جرمنی کے تاجروں اور صنعت کاروں نے ایک متفقہ قرارداد حکومتِ جرمنی کو لکھ کر بھیجی جس میں کہا گیا کہ ان کے خیال میں جرمنی کے تاجر جو ٹیکس ادا کرتے ہیں اس کی شرح کم ہے‘ اس لیے ہماری جرمنی کی وزارت خزانہ اور ٹیکس وصول کرنے والے ادارے سے درخواست ہے کہ ٹیکس کے پرانے سلیب ختم کر کے نئے سلیب تیار کرکے ہم پر زیا دہ ٹیکس عائد کریں۔ جرمنی کے ان تمام سرمایہ داروں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر جرمنی کا کوئی شہری بیرون ملک کوئی رہائش یا کسی قسم کی بھی کوئی جائیداد خریدتا ہے تو اسے اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ جتنی مالیت کی جائیداد بیرون ملک خریدے اسے اتنی ہی رقم جرمنی کے خزانے میں جمع کرانی ہو گی...کاش ہم اور ہمارے حکومتی ادارے بھی جرمنی کی طرح بن کر سوچنا اور عمل کرنا شروع کر دیں۔
جرمنی کے سرمایہ داروں نے حکومت سے مطالبہ کیا تھاکہ اگر جرمنی کا کوئی شہری بیرون ملک کوئی رہائش یا کسی قسم کی بھی کوئی جائیداد خریدتا ہے تو اسے اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ جتنی مالیت کی جائیداد بیرون ملک خریدے اتنی ہی رقم جرمنی کے خزانے میں جمع کرائے۔ کاش ہم اور ہمارے حکومتی ادارے بھی جرمنی کی طرح سوچنا شروع کر دیں۔