ڈونلڈ ٹرمپ اور اس سے پہلے کی امریکی حکومتیں مذہبی تعصب کا شکار نہیں ؟ امریکہ‘ برطانیہ سمیت یورپی یونین مذہبی تعصب کی بنیاد پر مسلم ممالک کے خلاف اسرائیل کے ہم قدم نہیں؟فلسطین پر اسرائیل کا جبری قبضہ یہود و نصاریٰ کا اسلام کے خلاف تعصب کا اظہار نہیں؟ٹرمپ کے سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک کے خلاف تضحیک آمیز ریمارکس اور رویے تعصب سے دور کسی مہذب انسان کے شایان شان کہے جا سکتے ہیں؟ مذہبی رواداری اور تعصب کے نام سے قائم امریکی ادارے نے پاکستان کے متعلق منفی رپورٹ جاری کرتے ہوئے اپنا ریکارڈدیکھتے ہوئے کبھی گریبان میں جھانکنے کی کوشش کی ہے؟پاکستان میں ہندوئوں کے پرانے مندروں کو جس طرح بحال کیا جا رہا ہے وہ امریکیوں کی نظروں سے اوجھل ہے؟ سکھوں کیلئے کرتار پور اور لاہور کے شاہی قلعہ میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے کی تنصیب امریکیوں کو دکھائی نہیں دے رہی؟
پاکستان بھر میں بسنے والی وہ تمام قومیں جنہیں اقلیت کا نام دیا جاتا ہے( ذاتی طور پر کسی کیلئے بھی اقلیت کے لفظ کا حامی نہیں ہوں کیونکہ سب کو برا برکاپاکستانی شہری سمجھتا ہوں) انہیں مذہب یا ان کے عقیدے کی بنا پر وہی احترام مل رہا ہے جو ایک شہری کیلئے پاکستان کے آئین میں موجود ہے۔ رہی بات مذہبی انتہا پسندی کی تو دنیا کا وہ کون سا خطہ ہے جہاں ایسے اکا دکا واقعات نہیں ہو رہے؟ اگر کسی جگہ مذہبی انتہا پسندی ہے تو کہیں نسلی انتہا پسندی دیکھنے کو مل رہی ہے اور پاکستان کو مکمل طور پر اس سے مبرا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہاں اس قسم کے واقعات دیکھنے کو ملتے رہے ہیں لیکن گذشتہ ایک برس سے اقلیتوں کے معاملے میں پاکستان کی صورت حال اس ضمن میں اطمینان بخش ہے۔ نہ جانے امریکہ کو کس نے سرگوشیوں میں بتا دیا کہ پاکستان میں اقلیتوں سے برا سلوک ہو رہاہے؟ ابھی پانچ روز قبل لندن کی ایک ایسی مسجد جہاں افغان نژاد شخص امام تھا‘ وہاں نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے جانے والے پاکستانیوں کو مسجد کے اندر داخل ہونے سے روک دیا گیا اور یہ ویڈیو اس وقت سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے لیکن اس کے با وجود لندن میں مقیم چند لوگوں کے اس فعل کو برطانوی حکومت سے تو منسوب نہیں کیاجا سکتا کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کرا رہی ہے۔
بھارتی ریاست گجرات میں گزشتہ ماہ ایک دلت لڑکے کو صرف اس جرم میں آر ایس ایس کے غنڈوں نے ڈنڈوں سے مار مار کر ہڈیاں پسلیاں توڑ کر رکھ دیں کہ ایم ایل اے جب کھڑا ہوا تھا تو اسے چمکتی دمکتی گاڑی میں بیٹھنے کی ہمت کیسے ہوئی؟ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطا بق بھارت میں اس وقت صورت حال اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ بھارت کے ہر قسم کے سرکاری اداروں کے ایک تہائی اہلکار وہاں بسنے والی اقلیتوں کو زبردستی ہندو بنانے میں بڑھ چڑھ کا حصہ لے رہے ہیں اور خاص طور پر گوشت اور چمڑے کا کاروبار کرنے والے مسلمان اور دلت‘ انتہا پسند ہندوئوں کے ظلم و جبر کا شدت سے شکار ہو رہے ہیں۔ اتر پردیش‘ آندھرا پردیش‘بہار‘چھتیس گڑھ‘گجرات‘ اڑیسہ‘ کرناٹک‘ مدھیہ پردیش‘ مہاراشٹر اور راجستھان وہاں بسنے والی اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ سے بھارت کی مذہبی تخریب کاری کا گڑھ بن چکے ہیں‘ جس پر بھارتی سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑ گئی۔
مغربی بنگال کولکتہ کے ایک چرچ پر ہندو بلوائیوں کی جانب سے کئے جانے والے حملے کے دوران یہ بلوائی جب وہاں رکھی ہوئی انجیل مقدس کی بے حرمتی کر رہے تھے تو وہاں موجود 62سالہ نن نے آگے بڑھ کر انہیں روکنے کی کوشش کی تو ان انتہا پسند ہندو بلوائیوں نے اس بوڑھی نن کے ساتھ شرمناک سلوک کیا۔ بوڑھی نن کے ساتھ ہندو انتہا پسندوںکے گروہ کی اجتماعی زیا دتی پر جہاں دنیا بھر کا مہذب معاشرہ چیخ اٹھا وہاں کیتھولک بشپ کانفرنس کے صدر کارڈینل بیسلیوز کلیمزنے نریندر مودی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:گائے کی حفاظت کے ساتھ انسانوں کی حفاظت کوبھی اپنے دھرم کا حصہ بنائو ۔ یہ خبر اس قدر شرمناک تھی کہ بھارت سمیت خواتین کی تمام عالمی تنظیمیں 62 سالہ بوڑھی نن کی بے حرمتی کے خلاف سراپا احتجاج بن اٹھیں اور دوران احتجاج عالمی رائے عامہ اس شرمناک واقعہ پر بھارت کے مکروہ چہرے سے پردہ اٹھا تے ہوئے اس کے جعلی سیکولر نعروںکے پرخچے اڑا تا رہا۔
ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا ‘دیکھئے کہ بھارت میں انتہا پسند تنظیموں کو کام کرنے کی پہلے ہی چھٹی تھی لیکن جیسے ہی نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا تو راشٹریہ سیوک سنگھ سے قریبی رشتہ ہونے کی وجہ سے یہ چھٹی اب کھلی چھٹی میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب خاکی نیکروں والے نیم فوجی راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کے دستے مسلمانوں اور عیسائیوں کی تذلیل نہ کرتے ہوں بلکہ مودی کے پہلے اقتدار سے بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتیں بھارت کی مذہبی انتہا پسند تنظیموں کی شدید نفرت کا شکار ہو کر رہ گئی ہیں اور اس انتہا پسندی پر کسی بھی قسم کی شرمندگی محسوس کرنے کی بجائے اس پر ہندوتا کے نعروں سے فخر کیا جا رہا ہے۔ بوڑھی نن کے ساتھ کی جانے والے شرمناک دہشت گردی پر عالمی رائے عامہ اور مذہبی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پکار اٹھیں کہ یہ دنیا کی کونسی بڑی جمہوریت ہے اور سیکولر کے راگ الاپنے والایہ کونسا ملک ہے اور یہ کیسا روشن ہندوستان ہے جہاں کانوینٹ میں کام کرنے والی ایک 62 سا لہ نن کے ساتھ مذہبی انتہا پسنداجتماعی زیا دتی کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں ۔ کولکتہ کے اس شرمناک سانحے کے خلاف 19 مارچ کو دہلی کے جنتر منتر کے ارد گرد بڑے بڑے بینرز اور پلے کارڈ اٹھائے احتجاج کرتے رہے۔ سول سوسائٹی اور بھارت کی شہری آزادیوں سے متعلق تنظیموںکی جانب سے نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے سے اب تک اقلیتوں سے نفرت‘ انتہا پسندی اور متشددانہ کارروائیوں کی ایک ڈاکومنٹری رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ اب تک اقلیتوں اور نچلی ذات کے ہندوئوں کے خلاف تشدد کے600 واقعات میں432 افراد کو ٹارگٹ کرتے ہوئے قتل کیا گیا‘ جن میں آسام کے چائے کے با غات میں کام کرنے والے مسلمان مرد وںاور عورتوں کے ساتھ ان کی گود میں اٹھائے ہوئے بچے بھی شامل ہیں۔
نریندرمودی کے اقتدار کے پہلے تین سو دنوں کی جاری کی جانے والی عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ راشٹریہ سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ تو ایک طرف اب تو نہ صرف مودی سرکار کے مرکزی اور صوبائی وزرا بلکہ بھارت کی ریاستی اسمبلیوں کے اراکین کے علا وہ انتہا پسند سرکاری اہلکار بھی Saffronٹوپیاں پہننے بے خوفی سے مذہبی نفرت کو ہوا دیتے ہوئے دلت‘ مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنا نا شروع ہو گئے ہیں اور انہوں نے کھلے عام یہ اعلانات کرنے شروع کر دیئے ہیں کہ بھارت میں رہنے والے کو صرف ہندو بن کر ہی رہنا ہو گا۔چرچ کو آگ لگانا‘پادریوں پر حملے ‘ مسلمانوں کو نماز سے روکنا‘ انہیں گائے کے نام پر درختوں سے باندھ کر پیٹنے اور راہ چلتے ہوئے ان کی تضحیک کرنا اور بعد میں پولیس سے مل کر ان کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات کرانا اب عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے ‘بلکہ اب بھارت میں اقلیتوں کیلئے تم اور ہندوئوںنے اپنے لئے ہم کی ایک نئی لغت شروع کر دی ہے۔امریکیوں کی بصارت اور سماعت اس قدر تو خراب نہیں ہوئی کہ انہیں یہ نظر ہی نہ آتا ہو؟تو کیا وہ کسی مذہبی تعصب کی بنا پر اپنا تمام نزلہ پاکستان پر گرا رہے ہیں؟
راشٹریہ سیوک سنگھ کی نیم فوجی تنظیم وشوا ہند و پریشد کے سربراہ موہن بھگوت نے اپنی انتہا پسند تنظیم کے پچاس سال مکمل ہونے کی تقریب سے خطاب میںکرتے ہوئے کہا تھا: بھارت کی پہچان ہی ہندوتا ہے اور اس میں اتنی طاقت ہے کہ بھارت کی ہر اقلیت کو اپنے اندر نگل سکتی ہے۔اس لیے ہندوستان میں رہنے کیلئے سب کو ہندو کہلوانا ہو گا‘‘ ۔