"MABC" (space) message & send to 7575

T INFAMY DAY OF CRICKE

زعفرانی ر نگ میں ملبوس بھارتی کھلاڑیوں کو دیکھتے ہوئے کچھ عجیب سا لگا‘ لیکن جب پتا چلا کہ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان فیصل آباد میں پانچ روزہ ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا تھا‘ اس وقت کے تیز ترین اور مایہ ناز آسٹریلیوی بائولر ڈینس َللی بیس سے زائد اوور کرانے کے بعد جب سوائے رنز دینے کے ڈیڈ وکٹ پر کسی بھی پاکستانی کھلاڑی کو آئوٹ کرنے میں نا کام ہو گئے‘ تو انہوں نے اس گرائونڈ میں کھڑے ہو کر ایک فقرہ بولا تھا: '' مجھے اور میری گیند کو اس وکٹ میں دفن کر دیا جائے‘‘۔ ان کا فیصل آباد کی ڈیڈ وکٹ بنائے جانے پر طنزیہ اور دکھ بھرے لہجے میں بولا گیا یہ فقرہ‘ کرکٹ کی تاریخ میں کئی برس تک گونجتا رہا۔ مشہور زمانہ آسٹریلوی بائولر صرف اس وجہ سے احتجاج کرتے ہوئے چیخ اٹھا کہ ٹیسٹ میچ کیلئے اس قدر ڈیڈ وکٹ کیوں بنائی گئی تھی؟ لیکن آج تقریباًچار دہائیوں بعد برطانیہ کے شہر بر منگھم میں انگلینڈ اور بھارت کے ورلڈ کپ کا میچ کھیلتے ہوئے کرکٹ کی جو قبر کھودی گئی ہے ‘وہ سیاہ دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ 
لارڈز کرکٹ گرائونڈ میں گیند لگنے سے ماری جانے والی چڑیا کو ابھی تک حنوط کر کے رکھا گیا ہے‘ اسی طرح بھارت اور انگلینڈ ٹیموں کے درمیان اس میچ میں استعمال کئی گئی وکٹوں‘ بلے اور گیندوں کو برمنگھم کرکٹ سٹیڈیم میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ کر لیا جائے ۔ یہ تو ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ مختلف تعلیمی بورڈز کے سیکرٹری حضرات کے تعاون سے بڑے لوگوں اور لاکھوں روپے خرچ کرنے والوں کے جعلی امتحانی سینٹرز بنائے جاتے رہے‘ جس سے فیضیاب ہونے والوں کو فرسٹ ڈویژن نہیں‘ بلکہ وظیفہ ملتا رہا اور پھر ان لڑکوں کو شہباز شریف کے دورمیں کبھی جرمنی اور تو کبھی فرانس اور دنیا کے دوسرے ملکوں کی مفت میں سیر کرائی جاتی ‘لیکن واہ رے تاج برطانیہ کی شان کے ‘جس گھر سے کرکٹ نے جنم لیا ‘ اسی گھر میں تعلیمی بورڈز کے سیکرٹریوں کی طرح من چاہے نتائج حاصل کئے جا رہے ہیں۔ جس طرح30 جون2019 ء کرکٹ کی تاریخ میں ہمیشہ ایک ایسے دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا‘ جب برمنگھم کے کرکٹ سٹیڈیم میں ہزاروں کی تعداد میں دور دراز سے آئے ہوئے کر کٹ شائقین کو ملی بھگت سے چھ گھنٹوں تک گھوسٹ کرکٹ دکھائی جاتی رہی ۔دنیا بھر میں ریڈیو‘ ٹی وی اور گوگل پر کروڑوں لوگوں کو کرکٹ کے نام سے چھ گھنٹے اس طرح فریب دیا جاتا رہا کہ سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ آج بھارتی بلے بازوں کے ہاتھوں گیند بائونڈری سے باہر کیوں نہیں پھینکی جا رہی؟وہ تو بھلا ہو دھونی کا کہ جب اس نے دیکھا کہ اس کے لگائے جانے والے دو تین چھکوں کے با وجود'' مک مکا‘‘ پر کوئی حرف نہیں آئے گا تو اس نے نہ جانے کس طرح ہمت کرتے ہوئے میچ کا پہلا اور آخری چھکا بھی اس وقت لگایا جب اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہ گئی تھی؛ اگر‘ اس میچ میں پھینکی جانے والی ایک ایک گیند کو دیکھا جائے‘ تو انگلش بائولرز کی بہت سی گیندیں ایسی تھیں ‘جنہیں آسانی سے سٹیڈیم سے باہر پھینکا جا سکتا تھا‘ لیکن دھونی سمیت چند دوسرے کھلاڑیوں نے اپنے بلوں کا رخ نیچے کی جانب کرتے ہوئے سٹروک کھیلے اور یہ منا ظر بتائیں گے کہ کس طرح چھکے والی گیندوں کو جان بوجھ کر پلیسنگ شاٹس سے کھیلا گیا ‘تاکہ بائونڈری ہونے سے پہلے ہی اسے بھاگ کر روک لیا جائے ۔ بنگلہ دیش کے ریٹائرڈ ائر کمو ڈور راشد الحق نے یہ میچ دیکھتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں 30 جون کو کرکٹ کی تاریخ کا ایک بد نما داغ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے '' یہ دن صرف برائون رنگت کے حامل کم فہم اور غیر مہذب سمجھے جانے والوں کی جانب سے ہی نہیں ‘بلکہ سفید رنگت کے سب سے زیا دہ مہذب اور ایماندار سمجھے جانے والوں کی مشترکہ بے ایمانی کی وجہ سےINFAMY ڈے آف کرکٹ کے طور پر ہمیشہ کیلئے یاد رکھا جائے گا‘‘۔ کرکٹ کے نام سے پہچانے جانے والے شرفا کے اس کھیل کی عزت و وقار کی اس بری طرح دھجیاں اڑائی گئیں کہ اس کے ٹکڑے جگہ جگہ پائوں تلے روندے جا رہے ہیں۔ پاکستان ریلوے سروس سے تعلق رکھنے والے ایک محنتی اور لائق اعلیٰ افسر حنیف گل کی بھارت اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے گئے کرکٹ میچ کو دیکھتے ہوئے فیس بک پر لکھی ہوئی پوسٹ کے یہ الفاظ کسی ایک با شعور کے الفاظ مت سمجھئے‘ بلکہ یہ کرکٹ سے پیار کرنے والے ہر ایک کے دل کی آواز ہے کرکٹ کو شرفاء کا کھیل سمجھنے والوں کیلئے یہ کس قدر تکلیف دہ ہے ‘اس کا شاید بھارت اور برطانیہ ضمیر کی آواز سننے کے با وجود احساس نہ کر سکیں۔ حنیف گل لکھتے ہیں:
A lackluster and unspirited chase raised many question marks about the intention of Indian players.
عظیم کھلاڑی‘ مایہ ناز ہیروز آف کرکٹ جو مستقبل کے کھلاڑیوں کیلئے مشعل راہ بنتے ہیں‘ بڑے بڑے کوچز اور کرکٹ کو ہر میدان میں پروان چڑھانے والے تھوڑے اور وقتی فائدے کیلئے اس کھیل کو مذاق بنانے والوں کے ہاتھوں لگائے گئے زخموں سے نہ جانے کب تک بلبلاتے رہیں گے ۔کوئی بھی کھیل ‘جس کیلئے سپورٹس مین سپرٹ کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں ‘برمنگھم میں بھارت اور انگلینڈ کے درمیان ورلڈ کپ کیلئے کھیلے گئے میچ سے تماشا بن کر رہ گیا۔سنیل گواسکر اور سارو گنگولی جیسے کرکٹ کے مایہ ناز کھلاڑی اور کمنٹیٹر میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ٹیم کی تعریف میں یا کھیلے جانے والے کسی ہلکے سے سٹروک پر کچھ کہنے کی بجائے شرمندہ سے ہو رہے تھے کہ یہ وہی بھارتی کرکٹ ٹیم ہے ‘جو اپنے پہلے نہیں تو دوسرے اوور سے ہی چھکے چوکے لگا نا شروع کر دیتی ہے ۔
گلف نیوز نے اپنی یکم جولائی کی ا شاعت میں Who will solve these lingering mysteries? کے عنوان سے بھارت اور برطانیہ کے اس میچ پر سپورٹس رائٹر Chiranjib Sengupta نے سب سے سوال کیا ہے کہ بھارت کے سابق کپتان اور انتہائی تجربہ کار کھلاڑی دھونی کے کھیل کو دیکھتے ہوئے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ ورلڈ کپ کھیل رہا ہے یا یا کوئی پریکٹس میچ اور دھونی کے کھیلے جانے والے اس کھیل کے پس پردہ کھیل سے بے خبر بھارتی تماشائی بھی دھونی کے سست کھیل کو شکست کی جانب جاتا ہوا دیکھ کر اسے بری طرح کوستے سنائی دے رہے تھے ۔انگلینڈ کی بھارت پر اس فتح میں کسی کو وی وی لکشمن کا ہاتھ شاید نظر نہیں آ رہا تھا۔
کرکٹ کو پسند کرنے والے اس وجہ سے پریشان اور غصے میں نہیں کہ بھارت کو شکست کیوں ہوئی‘ بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ منافقانہ طریقہ کیوں اختیار کیا گیا؟ اس شکست کے بدلے آئی سی سی سے بھارت نے کیا حاصل کیا؟ چند مفادات کیلئے اپنے آپ کو ایک جسم بیچنے والی طوائف کی طرح انگلینڈ کے سامنے کیوں رسوا کیا؟ پاکستان کو ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے سے روکنے کیلئے کوہلی لکشمن اور دھونی ٹولے نے رسوا ہوتے ہوئے اپنی قیمت تو وصول کر لی ہو گی‘ لیکن ان کے پرستار اس پر کس قدر اپ سیٹ ہیں۔اس کا انہیں اندازہ ہی نہیں دنیا کرکٹ میں ایسا لگ رہا ہے کہ جوے کو قانونی شکل دے دی گئی ہے؟ عامر‘ سلمان بٹ اورمحمد آصف کو تو کرائون کورٹ نے میچ فکسنگ پر سزائے قید دے دی ان پر پابندیاں بھی لگا دی گئیں‘ لیکن برطانوی اور بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں کو میچ نہیں ‘بلکہ ورلڈ کپ فکس کرنے پر کون سزا سنائے گا؟ کون ان کھلاڑیوں پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کھیلنے پر پابندی لگائے گا؟
انگلینڈ ٹیم جیت تو گئی ‘لیکن اسے day of infamy کے طور پر ہی یاد رکھا جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں