"MABC" (space) message & send to 7575

مشترکہ درد

انسدادِ منشیات فورس کے ہاتھوں نواز لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کی خبر جس کسی نے بھی سنی‘ وہ حیران ہو کر رہ گیا کہ یہ کیا ہو گیا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ یعنی اس خبر کے نشر ہونے کے فوری بعد ہمیشہ کی طرح اپنے اپنے مطلب اور نظریات کے حوالے سے قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔ کچھ سیاسی رہنماؤںنے اسے سیاسی انتقام کہنا شروع کر دیا تو کچھ لوگوں نے اسے کوئی اور ہی رنگ دے دیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔
رانا ثنااللہ‘ اس وقت کیمپ جیل میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں‘ اور ان کے معاملات اب چونکہ قانون کے حوالے ہیں‘ اس لئے اس پر کسی قسم کی قیاس آرائی میرے اس کالم کا حصہ نہیں؛ تاہم یہ خبر سنتے ہی نواز شریف کی مسلم لیگ نون سے کہیں زیادہ جناب آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی اور کچھ سیاسی رہنمائوں نے وزیر اعظم عمران خان کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے جس طرح شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور تقریباً دھمکیاں دینا شروع کر دیں‘ اس سے یوں لگتا ہے کہ رانا ثناء اللہ‘ مسلم لیگ نون کے رہنما نہیں‘ بلکہ پیپلز پارٹی کے جیالے ہیں۔ رانا ثناء اللہ کی گرفتاری پر کچھ لوگوں نے تو باقاعدہ ماتم برپا کر رکھا ہے۔ وہ اس طرح واویلا کر رہے ہیں جیسے اے این ایف کے ہاتھوں پکڑے گئے مال میں ان کی بھی کوئی حصے داری تھی۔ 
پاکستان کی سیاست میں جناب قمر زمان کائرہ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں پی پی پی سے جنون کی حد تک وفاداری نبھانے کا اعزاز حاصل ہے‘ جو ایک اچھی اور قابل ستائش بات ہے۔ ان کا ٹی وی کے مختلف پروگراموں میں اکثر یہ کہنا ہوتا ہے کہ وہ ایک نظریاتی سیاست دان ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل اور مستقل پیپلز پارٹی میں ہیں اور یہ کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات کے حامی ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ جناب کائرہ صاحب جو کچھ کہتے ہیں‘ بالکل درست ہے‘ لیکن جب میں ان کی باتیں سنتا ہوں تو مجھے ایک واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ یہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت کا ذکر ہے‘ جب جناب اعجازالحق وفاقی وزیر تھے۔ مجھے ایک دن احمد رضا قصوری کے ساتھ اسلام آباد میں ان کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔ ابھی ہمیں وہاں بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ان کے دفتر کا دروازہ کھلا اور کائرہ صاحب اپنے دو ساتھیوں سمیت اندر داخل ہوئے۔ اعجازالحق نے کھڑے ہو کر بڑی گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا اور کائرہ صاحب نے 'مائی لیڈر‘ کہہ کر انہیں گلے لگایا اور ان کے سامنے والی کرسی پر براجمان ہو گئے‘ جبکہ ان کے ساتھی دیوار سے لگے صوفوں پر بیٹھ گئے۔ جیسے ہی کائرہ صاحب کی نظر احمد رضا قصوری پر پڑی تو یہ کہہ کر کہ ''معاف کرنا قصوری صاحب! آپ کو دیکھا ہی نہیں‘‘ اٹھ کر ان سے بغل گیر ہوئے اور پنجابی میں بولے: تسیں دونوں ساڈے محسن او‘ تواڈی وجہ توں اج وی ساڈی لیڈری چل رہی اے۔ اس پر پورا دفتر ایک زبردست قہقہے سے گونج اٹھا۔
انسداد منشیات فورس کی جانب سے موٹر وے پر رانا ثناء اﷲ کے خلاف کارروائی پر جناب کائرہ سمیت پی پی پی کے لیڈروں نے بھی احتجاج کیا۔ دریں اثنا رانا ثناء اللہ کی تعریف کرتے ہوئے اور چوہدری پرویز الٰہی کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم کو مخاطب کیا کہ ''جن کو آپ ڈاکو کہتے تھے‘ انہیں ساتھ ملا رکھا ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ انہی چوہدری پرویز الٰہی صاحب کو ان کی پارٹی نے اپنے دورِ حکومت میں ڈپٹی وزیر اعظم مقرر کیا تھا اور پھر یہ وہی رانا ثناء اﷲ ہیں‘ جن پر پی پی پی والے ماڈل ٹائون میں چودہ افراد کے قتل سمیت کئی طرح کے الزامات عائد کرتے رہے اور ان کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ رابطوں کے حوالے بھی دئیے جاتے رہے۔ ایسے ہی کسی موقع پر میاں شہباز شریف نے وہ مشہور زمانہ تقریر کرتے ہوئے دو تین کالعدم تنظیموں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ پنجاب میں دہشت گردی نہ کریں۔ یہ تقریر کسی حجرے یا کمرے میں چھپ کر نہیں‘ بلکہ لاہور میں کھلے عام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کی گئی تھی‘ جسے پاکستان بھر کے ٹی وی چینلز پر لائیو دکھایا گیا تھا۔ 
اس وقت میرے سامنے انسداد منشیات فورس کے ریجنل ڈائریکٹوریٹ میں رانا ثناء اﷲ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف درج کی جانے والی ایف آئی آر نمبر 47/19 کی فوٹو کاپی موجود ہے‘ جس کے تحت رانا ثناء اللہ کے خلاف 15 کلو پانچ سو گرام ہیروئین برآمدگی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اب‘ اس ایف آئی آر کو‘ اگر کوئی سیاست کی نذر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس ملک اور قوم کے مستقبل سے کھیلنے کی کوشش کرے گا۔ اب‘ سچ اور جھوٹ سامنے لانا ہو گا۔ اس بھاری تعداد میں پکڑی جانے والی ہیروئین کا ابھی لیبارٹری ٹیسٹ ہونا ہے‘ جس سے ثابت ہو سکے گا کہ یہ واقعی ہیروئین ہے یا کچھ اور؟ اگر لیبارٹری ٹیسٹ میں یہ ثابت ہو جائے کہ یہ واقعی ہیروئین ہے تو پھر اسے کسی سیاست یا مصلحت کا شکار ہونے دینا قوم و ملک اور اس کے بچوں کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہو گا۔
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کیلئے جناب وزیر اعظم عمران خان یا چیف جسٹس آف پاکستان کوئی ایسا غیر جانبدار تفتیشی سلسلہ شروع کرائیں‘ جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ دونوں معززین میں سے کوئی آگے بڑھ کر اس معاملے کی انکوائری کروا دیتا ہے تو ان کا یہ حکم اس ملک پر ایک بہت بڑا احسان ہو گا۔ اس سے سیاست اور منشیات کے طویل سلسلے بے نقاب ہو جائیں گے‘ اور اگر اس تفتیش میں ثابت ہو جائے کہ رانا ثناء اﷲ کی گاڑی سے برآمد کی گئی ہیروئین انہیں قابو کرنے یا سیاسی سزا دینے کے لئے رکھی گئی تھی تو پھر اس حرکت کے ذمہ داروں کو‘ چاہے وہ کسی بھی عہدے پر ہوں‘ نشانِ عبرت بنانا چاہیے۔ پھر کسی کو کوئی رعایت نہیں دینی چاہیے۔ اگر رانا ثناء اﷲ کے خلاف یہ سازشی ڈرامہ رچایا گیا ہے تو اس مبینہ ڈرامے میں جتنے افراد بھی ملوث پائے جائیں‘ ان سب پر پندرہ کلو منشیات برابر برابر ڈال کر انہیں 9/C کے تحت گرفتار کرتے ہوئے سزا دی جانی چاہیے۔ لیکن اگر یہ سب سچ ہے اور غیر جانبدار تحقیقاتی کمیشن ثابت کر دیتا ہے کہ واقعی ہیروئین ہے تو پھر اس مقدمے کا دائرہ وسیع کرنا ہو گا۔ پھر دیکھنا ہو گا کہ اس سے پہلے کتنی منشیات اندرون اور بیرون ملک بھیجی گئیں اور کن کن کو بھیجی گئیں؟ بیرونی ممالک میں ان کا نیٹ ورک کہاں کہاں تھا؟ اس سلسلے میں ان ممالک کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان گروہوں کے چینل کو پکڑنا ہو گا تاکہ لاہور موٹر وے سے شروع ہونے والے اس سفر کے تمام روٹس کی نشاندہی ہو سکے۔
یاد رکھئے کہ اگر یہ معاملہ بھی ایان علی کے پانچ لاکھ ڈالروں کی طرح کسی بیرونی یا اندرونی تسلط اور مفاد کی نذر کرنا ہے تو پھر رانا صاحب کو ابھی چھوڑ دیجئے۔ کاش! ایان علی کو میڈیا کے سامنے کھڑا کر کے بتایا جاتا کہ اب تک ان جیسی کتنی عورتوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی ہے اور اس میں کون کون ملوث ہے۔ اس ملک سے کتنے ملین ڈالر باہر بھیجے گئے۔ اس جرم کے مرتکب اصل مجرموں کو ماڈل کورٹس کے کٹہروں میں لا کر قرار واقعی سزائیں دے دی جاتیں تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔ یعنی اگر سیاست دانوں پر پڑنے والی کسی بھی چوٹ پر ان کا درد مشترک ہو جاتا ہے تو پھر اس ملک پر اور آنے والی نسلوں پر تمام مجرموں کے ہاتھوں لگائے گئے زخموں کا درد مشترک کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہ درد انتظامیہ کو بھی محسوس ہونا چاہیے اور یہ درد اس ملک کے نظام کو بھی محسوس ہونا چاہیے۔
اگر سیاست دانوں پر پڑنے والی کسی بھی چوٹ پر ان کا درد مشترک ہو جاتا ہے تو پھر اس ملک پر اور آنے والی نسلوں پر تمام مجرموں کے ہاتھوں لگائے گئے زخموں کا درد مشترک کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہ درد انتظامیہ کو بھی محسوس ہونا چاہیے اور یہ درد اس ملک کے نظام کو بھی محسوس ہونا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں