"MABC" (space) message & send to 7575

بلٹ پروف جیکٹ

26/11 ممبئی حملوں میں زندہ بچ جانے والے واحد کردار اجمل قصاب کو جج مدن تہلیانی کی دی گئی سزا پر عمل کرتے ہوئے پھانسی دی جا چکی‘ کیونکہ بھارتی حکومت اور ایف بی آئی کی مشترکہ کوششوں سے ممبئی حملوں میں شیواجی ٹرمینس سمیت ہیمنت کرکرے اور اس کے دو ساتھی پولیس افسران کا قتل بھی اجمل قصاب کی فردِ جرم میں شامل کیا گیا تھا۔ میری کتاب'' 26/11 ہمینت کر کرے اور اجمل قصاب‘‘ میں سب سے اہم نکتہ انسدادِ دہشت گردی سکواڈ کے انسپکٹر جنرل ہیمنت کر کرے اور اس کے دو انتہائی قریبی اور راز دان ساتھیوں کا اجمل قصاب کے ہاتھوں ثابت کیا جانے والا مبینہ قتل ہے‘ جو اجمل قصاب کی مبینہ طو رپر چلائی گئی تین گولیوں سے ہلاک ہو گئے‘ جبکہ انہوں نے اپنی گردن سے ناف کے نچلے حصے تک بلٹ پروف جیکٹس پہن رکھی تھیں۔ ممبئی پولیس ریکارڈ کے مطا بق؛ انسپکٹر جنرل پولیس ہیمنت کر کرے اور ان کے ساتھی ایڈیشنل آئی جی پولیس اشوک کامتے اور وجے سالسکر شیواجی سے روانہ ہوتے وقت باقاعدہ بلٹ پروف جیکٹس پہنے ہوئے تھے‘پھر کیا وجہ ہوئی کہ ا ن تینوں پولیس افسران کے جسموں پر پہنی ہوئی بلٹ پروف جیکٹس کا اجمل قصاب کے خلاف پیش کی گئی فردِ جرم میں کہیں بھی ذکر نہیں ؟ان تینوںپولیس افسران کی خون آلود جیکٹس جج مدن تہلیانی کی عدالت میںکیوں پیش نہیں کی گئیں؟ ان بلٹ پروف جیکٹس پر لگے ہوئے خون کا ڈاکٹروں نے معائنہ کیوں نہیں کیا؟ جب ڈاکٹر کہتے رہے کہ ان کے سامنے یہ تینوں افسران بغیر جیکٹس کے ہسپتال اور پھر آپریشن تھیٹر میں لائے گئے تو یہ بتایا جائے کی ان جیکٹس کو بھارت کی زمین کھا گئی یا آسمان؟
یہ سوال امریکہ اور برطانیہ ‘جو ممبئی حملوں کے دن سے بھارت سے بھی زیا دہ آنسو بہاتے دیکھے جا رہے ہیں‘ بھارت کی مدن تہلیانی کی ماتحت عدالت سے سپریم کورٹ تک جہاں اجمل قصاب کا مقدمہ سنا گیا‘ ہر فورم سے اس وقت تک پوچھا جاتا رہے گا‘ جب تک یہ تسلیم نہیں کر لیا جاتا کہ ممبئی کرائمز برانچ کی عائد کردہ چارج شیٹ کے مطا بق؛ ہیمنت کر کرے اور ان کے ساتھی پولیس افسران اجمل قصاب کی فائر کی جانے والی گولیوں سے نہیں‘ بلکہ ہیمنت کر کرے کو اس کے قتل سے صرف چوبیس گھنٹے پہلے دیش دروہی کا خطاب دینے والوں نے اپنے راستے سے ہٹانے کیلئے26/11 کو قتل کرایا۔یہ قتل اجمل قصاب نے نہیںکیے ‘بلکہ نریندر مودی کی ملی بھگت سے کیا گیا‘ جس نے ہیمنت کر کرے کے خلاف اپنی تقریر میں دیش دروہی کا فتویٰ جاری کیا تھا۔واضح رہے کہ بلٹ پروف جیکٹ کی تعریف یہ ہے :
A bulletproof vest, ballistic vest or bullet-resistant vest is an item of personal armor that helps absorb the impact from firearm-fired projectiles and shrapnel from explosions, and is worn on the torso.
یہ کیسی بلٹ پروف جیکٹس تھیں‘ جو اجمل قصاب کی مبینہ طور پر فائر کی گئی صرف تین گولیوں کو ہیمنت کر کرے کے سینے کے اندر جانے سے روکنے کی بجائے اس کے دل تک جا گھسیں؟ یہ بلٹ پروف جیکٹ تھی یا موم ؟ کاما ہسپتال کے ڈاکٹروں نے پولیس اور دیگر تفتیشی ایجنسیوں سمیت میڈیا کو بتایا کہ جب ہیمنت کر کرے کو ان کے دو ساتھیوں سمیت ہسپتال لایا گیا تو ان کے جسم کسی قسم کی بلٹ پروف جیکٹ کے بغیر تھے۔ڈاکٹرز کے انہی بیانات کی ویڈیوز کے ساتھ ہیمنت کر کرے کی بیوہ نے عدالت میں پٹیشن دائر کرتے ہوئے استدعا کی کہ اس کے آنجہانی شوہر کے جسم پر پہنی ہوئی بلٹ پروف جیکٹ عدالت میں پیش کی جائے ‘کیونکہ بھارت کے چند ایک نہیں‘ بلکہ لاتعداد میڈیا چینلز نے ان کے شوہر کی شیواجی سے کاما ہسپتال کی جانب نکلتے وقت جو براہ راست ویڈٖیوز دکھائیں‘ ان میں وہ بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہوئے تھے ۔کویتا کرکرے کی دائر پٹیشن کی ڈیڑھ برس تک سماعت ہونے کے بعد ایک دن ممبئی پولیس اور ہوم ڈیپارٹمنٹ نے عدالت کو بتایا کہ انہیں افسوس ہے کہ وہ جیکٹ عدالت میں پیش نہیں کی جا سکتی ‘کیونکہ لگتا ہے کہ یہ پولیس مال خانے سے کہیں گم ہو گئی ہے۔
جیسے ہی یہ بیان عدالت اور میڈیا کے سامنے آیا تو اس پر الزامات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بھارت کی سول سوسائٹی اور وکلاء تنظیموں کے ساتھ ساتھ پولیس اور فوج کے ریٹائر کچھ پولیس افسران نے شدید احتجاج شروع کر دیااور ممبئی کے سابق آئی جی پولیس ایس ایم مشرف نے ''WHO KILLED KURKRAY'' کتاب لکھی دی ‘جس میں بلٹ پروف جیکٹ کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھا دیئے۔نومبر2009 ء ممبئی حملوں کے ایک برس بعد اجمل قصاب نے ممبئی ہائیکورٹ میں اپنے وکیل کے ذریعے درخواست دائر کرتے ہوئے کہا کہ اس کا ہیمنت کر کرے اور اس کے دو ساتھی پولیس افسران کے قتل سمیت کسی بھی دہشت گردی میں اس کاکوئی ہاتھ نہیں‘ اجمل قصاب بار بار عدالت سے یہ بھی کہتا رہا کہ اسے‘ جس خوفناک شکل میں بھارتی میڈیا میں پیش کیا جا رہا ہے ‘وہ اتنی قوت ِارادی کا مالک ہی نہیں ہے۔
جیسے ہی اجمل قصاب کی ممبئی ہائیکورٹ کے سامنے یہ درخواست اور کویتا کر کرے کی بلٹ پروف جیکٹس والی پٹیشن سامنے آئی تو ہرطرف ایک ہلچل سی مچ گئی اور بہت سے لوگ کہنا شروع ہو گئے کہ کویتا کر کرے کی اپنے شوہر کے قتل بارے شکوک و شبہات بے معنی نہیں ہو سکتے۔بھارت کی سول سوسائٹی کی جانب سے سنجے وندکر نے اپنے وکیل یوگندر پرتاپ سنگھ ایڈووکیٹ‘ جو ایک سابق پولیس افسر تھے‘ ممبئی ہائیکورٹ میں PIL کے ذریعے مطالبہ کیا کہ ان کے موکل سنجے وندکر کو شک ہے کہ یہ تینوں جیکٹس اس لئے گم کی گئی ہیں‘ تاکہ ان کی خریداری میں کی جانے والی کرپشن سامنے نہ آ سکے اور یہ جیکٹس ہیمنت کر کرے کے قتل کے بعد ان کی جگہ تعینات کئے جانے والے آئی جی راگھو ونش کی سفارش پرخریدی گئی تھیں ‘کیونکہ اسی راگھو ونش نے سمجھوتہ ایکسپریس‘ مالیگائوں‘ اجمیر شریف‘ پونا بیکری میں کرنل پروہت سمیت انتہا ہندو تنظیموں کے لوگوں کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کروا دیا ہے۔ ایڈووکیٹ یوگندر پرتاپ سنگھ نے عدالت سے استدعا کی عوامی مفاد میں وہ فائل عدالت میں پیش کی جائے ‘جس میں ان بلٹ پروف جیکٹس کے معیار ‘ کوالٹی کا عملی مظاہرہ اور خریداری کی اجا زت دی گئی تھی۔اگر‘ ہیمنت کر کرے کی پہنی ہوئی بلٹ پروف جیکٹس گم ہو گئی ہے تو سٹاک میں موجود جیکٹس کو عدالت میں پیش کیا جائے۔اگر ‘یہ جیکٹس بقول ہوم ڈیپارٹمنٹ گم یا چوری ہو چکیں‘ تو ان کی گمشدگی یا چوری ہونے کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔یہ سنتے ہی مہاراشٹر حکومت کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور ایڈووکیٹ جنرل مہاراشٹر نے عدالت کے سامنے حکومتی موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کچھ مہلت دی جائے ‘تاکہ ہم یہ سب ریکارڈ آپ کے سامنے پیش کر سکیں۔
ممبئی ہائیکورٹ نے راگھو ونش سمیت 8 پولیس افسران کو سنجے وندکر کی دائر کی گئی PIL کا جواب دینے کیلئے نوٹسز جاری کر دیئے‘ لیکن وہ دن اور آج کادن‘ ان میں سے کوئی ایک بھی نہ تو وہ گم شدہ بلٹ پروف جیکٹس عدالت میں پیش کر سکے‘ نہ ہی ان کی گمشدگی کی کوئی ایف آئی آر اور نہ ہی اس فائل کا کوئی سراغ مل سکا‘ جس میں ان جیکٹس کی خریداری اور معیار کا ریکارڈ مل سکتا تھا۔دریں اثنا ایک مضحکہ خیز‘ تحریری جواب مہاراشٹر حکومت نے عدالت کے سامنے پیش کیا‘ جس میں کہا گیا کہ جب ان بلٹ پروف جیکٹس کی خریداری کی جا رہی تھی‘ تو اس کے سامنے یہ تصور ہی نہیں تھا کہ ممبئی میں اس قسم کا حملہ بھی ہو سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں