جج ارشد ملک صاحب اور نا صر بٹ کی ویڈیو کو ایک دھما کے کی صورت میں پیش کرنے والے اپنے اس کارنامے پر بغلیں تو بجا رہے ہیں‘ لیکن اسے ریلیز کرنے سے پہلے اتنا تو دیکھ لیتے کہ ویڈیو میں دکھائے جانے والے دونوں افراد کے منہ سے نکلنے والی آواز اور الفاظ کیا۔ ان کے چہرے کے تاثرات اور حرکات سے مطا بقت رکھتے ہیں؟
مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم صفدر کی جاری کی گئی ویڈیو کا ذکر کرنے سے پہلے کیا وہ صرف اتنا بتانا پسند فرمائیںگی کہ خود کشی کرنے کی کوشش کس نے کی تھی؟بس ابھی یہی کہوں گا اس سے زیا دہ ابھی کچھ کہنا منا سب نہیں ہو گا‘ کیونکہ کہاں ویڈیو اور کہاں خود کشی‘ بات بنتی نہیں‘ لیکن جس طرح نا صر بٹ اور ارشد ملک کی ویڈیو ایک راز ہے‘ اسی طرح خود کشی والی بات بھی ایک راز ہے ؟ بس ابھی اتنا ہی کافی ہے کہ اس سے زیا دہ مناسب نہیں۔
رانا ثنا اﷲ کی گرفتاری اور یہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد کچھ لوگ منہ سے خوشی یا غصے سے جو اچھل کود کر رہے ہیں‘ انہیں شاید اندازہ نہیں کہ ان کی یہ کھوکھلی کہانی بہت جلد حقائق کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنے والی ہے۔ایسے ہی ایک صاحب‘ جو اس ویڈیو کہانی کے سامنے آنے کے بعد سے بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بنے پھرتے ہیں۔ میں نے انہیں پیغام بھیجوایا ہے کہ ان صاحب کو اور مجھے ون ٹو ون بٹھایا جائے اور اگر ان کے بارے وہ حقائق سامنے نہ لا سکا‘ جسے وہ خود بھی بھول چکے ہوں گے اور اگر ‘میری کہی ہوئی یا دکھائی گئی ایک بات بھی غلط نکلی تو موقع پر ہی ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔
اس پیغام کے بعد سے بیرونی ہاتھوں سے نوازے جانے والوں نے مجھے دھمکی آمیز پیغام بھجوا ئے ہیں‘ مگران کی ان دھمکیوں پر اتنا ہی کہہ سکوں گا: مجھے کیا ڈرا سکے گا یہ ظلمتوںکا پالا ۔
محترمہ مریم صفدر کی دکھائی جانے والی اس ویڈیو کے متعلق سب سے پہلے یہ جاننا ہو گا کہ یہ کب ریکارڈ ہوئی ؟اس کی تاریخ اور دن سامنے لانا ہو گا۔
حیران کن طور پر ابھی تک کسی صحافتی حلقے ان اس حوالے سے سوال نہیں اٹھایا‘ کسی جانب سے بھی اس کا ذکر ابھی تک نہیں کیا گیا‘ نہ جج ارشد ملک صاحب کے وضاحتی بیان میں او رنہ ہی نواز لیگ کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنس اور نہ ہی ان کے کسی ذرائع یا ترجمان کی جانب سے؛اگرچہ جج صاحب کے بیان میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ویڈیو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے‘ تاہم ویڈیو کی تاریخ دن کے حوالے سے سچ چند دنوں کے اندر ہی ایک بریکنگ نیوز کی صورت میں سامنے لایا جائے گا‘ بس اس سے زیا دہ ابھی نواز لیگ کی جانب سے جاری کی جانے والی ویڈیو کے متعلق کچھ کہنا یا بتا نا پسند نہیں کروں گا۔ویڈیو کیسے بنائی گئی؟ کب بنائی گئی؟اس میں کون کون شامل ہیں؟ کیا جج ارشد ملک صاحب کو علم تھا کہ کوئی ان کی ویڈیوریکارڈ کر رہا ہے ؟بظاہرایسا نہیں ‘ تاہم یہ سب کچھ اس وقت تک زیر بحث یا سامنے نہیں لایا جا سکتا ‘جب تک اس ویڈیو پر چاروں صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان یا سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج صاحبان پر مشتمل کمیشن تشکیل نہیں دیا جاتا ۔
جس کے ذریعے دو سچ سامنے نہیں آجاتے؛ ایک رانا ثنا اﷲ کی گاڑی سے برآمد کی جانے والی ہیروئین اور دوسرا مریم صفدر کی اپنی پریس کانفرنس میں دکھائی جانے والی ویڈیو کے حوالے سے ہے ۔ یہ دو سچ جاننا‘ اس ملک اور اس کے عوام کے لیے انتہائی ضروری ہیں اور یہ سچ وہ آئینہ ہو نا چاہیے‘ جس میں ہر مجرم کو ہی نہیں‘ بلکہ دیکھنے والوں کو بھی ہر چیز صاف اور واضح دکھائی دے ۔اگر‘ اس سچ کی تلاش تک جانے میں دیر کی گئی تو آنے والے میگا کرپشن کے تمام مقدمات کے فیصلے ہی نہیں ‘بلکہ عام جرائم کے مرتکب مجرم اور ان کے باہر بیٹھے ہوئے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی جانب سے قابل قبول نہیں ہوسکیں گے۔
یہ ویڈیو نواز لیگ کا بچھایا گیا وہ جال تھا‘جس میں کچھ اہم شخصیات اور کچھ حکومتی عہدیداروں نے بھی جھانسے میں آ کر ایسے بیانات جاری کئے‘ جو اندھیرے میں ہاتھ پائوں چلانے کے علا وہ اور کچھ نہیں تھے۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آ سکا کہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا۔ان حالات نے موثر وزارت اطلاعات کے کردار اور اہمیت کو مزید نمایاں کیا ہے ‘ نیز یہ بھی کہ اس عہدے پر انتہائی منجھے ہوئے کھلاڑی ہی کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔
شایدیہ وزیر اعظم صاحب کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ چالیس سے زائد ترجمان تو صرف پنجاب میں بنا دیئے گئے ہیں ‘ گویا ریوڑیاں بانٹی جا رہی ہیں۔ مگر وزیر اعظم صاحب جب تک کسی زود فہم اور ہوشیار قسم کے لوگوں کو بروئے کار نہیں لاتے ‘ وہ پی پی پی‘مولانا فضل الرحمان اور نواز لیگ کی گھاگ میڈیا ٹیموں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
بات چل نکلی ہے‘ تو ویڈیو کے حوالے سے یہ سوال بھی اٹھے گا کہ جج ارشد ملک صاحب کی ناصر بٹ سے لاکھ تو پرانی جان پہچان ہو سکتی ہے ‘کیونکہ احتساب عدالت کا جج بننے سے پہلے ارشد ملک صاحب ایک وکیل تھے اور ناصر بٹ اور ان کا بھائی شاید ان کے موکل رہے ہوں یا کسی اور تعلق کی بنا پر ان سے راہ و رسم بن گئی ہو۔ارشد ملک صاحب نے اپنے بیان میں اس تعلق کا برملا اظہار کر دیا ہے‘ مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ناصر بٹ جیسے شخص کسی طرح میاں نواز شریف کے انتہائی ذاتی دوستوں میں شامل ہوئے‘ اور من پسند پوسٹنگ حاصل کرنے کے لیے سرکاری عہدیدار اس کے گرد چکر کاٹتے دیکھے جاتے رہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے کندھوں پر اس وقت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے اور اسے گزشتہ سات دنوں میں ہونے والے ان دو واقعات کا سچ یا جھوٹ جاننے کے لیے‘ حقائق کی تہہ تک پہنچنے کے لیے بغیر کوئی وقت ضائع کئے‘ براہ راست یا ان کیمرہ سماعت کرتے ہوئے ویڈیو کے پس پردہ کرداروں کو اورملکی سالمیت کو نقصان پہچانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کر نا ہو گا‘ کیونکہ اس کے بغیر نہ تو ملک کی عدلیہ کا وقار بحال ہو سکے گا اور نہ ہی ملک کے سیا سی اور دفاعی معاملات بہتر ماحول میں چل سکیں گے۔
دوسری جانب رانا ثنا اﷲ کے خلاف انسدا دِ منشیات فورس کی کارروائی بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں ۔اس سے دنیا بھر میں یہ تاثر پھیل سکتاہے کہ پاکستانی حکومت کے انتہائی طاقتور سیا ستدان جو بہت بڑے حکومتی عہدوں پر فائز رہنے کی وجہ سے ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہیں‘ دنیا بھر میں داخل ہونے کے لیے اپنے ائر پورٹس سے بغیر کسی قسم کی چیکنگ یا پوچھ گچھ کے بورڈنگ کارڈ حاصل کر لیتے ہیں‘ اگر ان کی نگرانی میں ہیروئین سمیت دوسری منشیات کی سمگلنگ کی جاتی رہی تو اس کا سلسلہ کہاں تک جا کر رکتا ہو گا؟ اے این ایف جو دنیاکے79 سے زائد ممالک سے براہ ِراست رابطہ رکھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیتی ہے اور نہایت قابل اور ذمہ دار افسران اس کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس کی عزت اور وقار پر بھاڑے کے ٹٹوئوںکا پھینکا جانے والا گند ان کے منہ پر مارنا ہو گا‘ تاکہ جھوٹ مکاری اور ملک دشمنی کی بد بو ان کی پہچان بن جائے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے کندھوں پر اس وقت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے اور اسے گزشتہ سات دنوں میں ہونے والے ان دو واقعات کا سچ یا جھوٹ جاننے کے لیے‘ حقائق کی تہہ تک پہنچنے کے لیے بغیر کوئی وقت ضائع کئے‘ براہ راست یا ان کیمرہ سماعت کرتے ہوئے ویڈیو کے پس پردہ کرداروں کو اورملکی سالمیت کو نقصان پہچانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کر نا ہو گا‘ ورنہ ملک کی عدلیہ کا وقار بحال نہ ہو سکے گا ۔
اور نہ ہی ملک کے سیا سی اور دفاعی معاملات بہتر ماحول میں چل سکیں گے۔