بھارت نے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ اندرونی طور پر مشرقی پاکستان کے بنگالی مسلمانوں اور وہاں موجود ایک کروڑ کے قریب ہندوئوں کی مدد سے لیا اور پاکستانی فورسز کو ان کے اپنوں ہی کے ہاتھوں شکست دینے کے بعد اب‘ براہمن نے دو قومی نظریے کو بحیرہ عرب میں غرق کرنے کی فتح کا جشن ڈھاکہ کی سر زمین پر منا نے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔
48 برس گزرنے کے با وجود ہر سال '' عظیم الشان فتح ‘‘ کے چسکے لینے کیلئے کئی ارب روپے خرچ کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی آزادی کے نام پر بین الاقوامی تقریبات منعقد کرواتا چلا آ رہا ہے ۔گزشتہ دنوںاسی سلسلے کی ایک تقریب میں بھارت اور حسینہ واجد نے اپنے ایسے دوستوں ‘ہمدرد دانشوروں اور قلم کاروں کو اعزازات سے نواز ا‘جنہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں بھارت کی جارحیت کو درست اور پاکستانی فورسز کو غاصب اور جارح ثابت کرنے کیلئے مضامین اور تجزیئے لکھے ۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد اور بھارتی حکومت کے زیر انتظام وزارت برائے جنگ ِآزادی نے150 کے قریب اپنے ایسے تمام غیر ملکی ہمدردوں اور دوستوں کو بنگلہ دیش مدعو کیا‘ جنہوں نے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے میں ان کی مدد کی ۔ بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں منعقد کی جانے والی اس خصوصی تقریب کے مہمان ِ خصوصی سابق بھارتی صدر پرناب مکر جی تھے۔
25 جولائی 2011ء کو حسینہ واجد اور''را‘‘کی ہدایات پر بنگلہ دیش کی آزادی کی جو پہلی خصوصی تقریب منعقد کروائی گئی‘ اس میں اندرا گاندھی کو بنگلہ دیش کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرنے پر بعد از مرگ آزادی کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ دوسری تقریب27 مارچ2012ء کو منعقد کروائی گئی ‘جس میں83 کے قریب بین الاقوامی تنظیموں اور شخصیات کو مدعو کیا گیا ۔تیسری تقریب20 اکتوبر2012ء کو منعقدکروائی گئی‘ جس میں61 بین الاقوامی اداروں اور شخصیات کو مدعو کیا گیا‘ جن میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے 15 کے قریب ایسے لکھاریوں‘ اینکروں اور ہیومن رائٹس سے متعلق خواتین کو مدعو کیا گیا‘ جنہوں نے پاکستانی اداروں کے خلاف پروگرام کئے اور آرٹیکل لکھتے ہوئے بھارت کی مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی سازش میں اپنی خدمات کو پیش کیا۔جن نام نہاد پاکستانیوں نے بنگلہ دیش جا کر بھارت کی بنگلہ دیش کو عطا کی ہوئی آزادی کے نام پر ایوارڈ وصول کئے ‘وہ گمنام نہیں‘ بلکہ ان میں سے کچھ ملک کے بڑے بڑے ٹی وی چینلز اور اخبارات کے کرتا دھرتا اور کچھ انسانی حقوق کے نام پر پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کے ٹھیکیدار اور کارندے ہیں ۔
دنیا بھر سے پاکستان اور مسلم دشمن عنا صر‘ میڈیا اور دوسری تنظیموں کو بنگلہ دیش بلا کر دو قومی نظریے کو دفن کرنے کے جشن میں کی جانے والی تقاریر اور وہاں پڑھے جانے والے مقالوں کی بات کریں‘ تو یہ مضمون طویل ہو جائے گا‘کیونکہ پاکستان کے لوگوں اور اداروں کے بارے میں جو گھٹیا زبان استعمال ہوئی‘ اسے لکھنے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی‘ تاہم پاکستان اور اس کے قومی اداروںکیخلاف استعمال ہونے والی گھٹیا زبان پر اس لئے بھی افسوس نہیں کیا جا سکتا‘کیونکہ بھارت جیسے دشمن اور اس کے نمک خواروں سے اس سے زیا دہ اور امید ہی کیا کی جا سکتی ہے۔ افسوس ہے تو صرف ان بے ضمیر پاکستانیوں پر ہے ‘جنہوں نے چند ڈالرز کے عوض اپنے ملک کے خلاف من گھڑت الزامات پر مبنی مضامین لکھے اور پھر اپنے ہی وطن کو بیچ کر بھارتی لیڈروں کے ہاتھوں ایوارڈز وصول کئے۔ مشرقی پاکستان کے محب وطن بنگالیوں کو بہیمانہ طریقوں سے قتل کرنے والوں اور پاکستانی فورسز کے گھیرے میں آئے ہوئے افسروں اور جوانوں کے جسموں کو ٹکڑے کرنے والے بھارتی فوج کے افسروں کے سینوں پر سابق بھارتی صدر نے اس تقریب میں ویر چکر جیسے اعزاز سجائے اور ماں جیسی دھرتی کو بیچنے والوں چند قلم فروشوں نے اس کے ہاتھوں اپنے گلے میں یہ بدنامی کے میڈلز سجائے ‘ اسے پاکستانیوں کیخلاف لڑنے والی بھارت کی سفارتی اور غیر سفارتی جنگ کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔
چند ضمیر اورقلم فروش شخصیات کواب‘ بھی پاکستان میں دن رات ایک ہی کام سونپا دیاگیا ہے کہ وہ پاکستان کے قومی اداروں کو برا بھلا کہتے رہیں اور ان کے خلاف من گھڑت قصے سناتے رہیں‘ تاکہ '' رائ‘‘کو خوش کیا جا سکے ۔ بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں وزارت ِبرائے آزادی کی ترتیب دی جانے والی ان تقریبات میں صرف اس بات کی سب سے زیا دہ تکرار کی جاتی رہی کہ '' پاکستان کا وجود کیوں‘ یہ ملک کیوں بنایا گیا؟ اور اس کی اب خطے میں کیا ضرورت ہے؟ ‘‘یعنی پاکستانی قوم کو ایک بار پھر اپنے قومی داروں کے مقابل کھڑا کرنے‘ ان کے خلاف جمہوریت کے نام سے چند مخصوص افراد کے ذریعے میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہوئے دلکش کہانیاں اور افسانے پھیلائے جا رہے ہیں۔ یہ وہی زخم ہیں‘ جو 48 سال قبل دشمن نے اپنے جھوٹ اور پراپیگنڈہ کے ذریعے تیز دھار آلے کی صورت میں ہمارے دلوں میں لگائے تھے ۔
بد قسمتی کہہ لیجئے کہ ان افراد کی چکنی چپڑی باتوں اور آج کے سوشل میڈیا کے ذریعے پرانے لگے ہوئے زخموں کوبھول کر پاکستانی قوم دشمن اور اس کے ایسے ہی زر خرید افرادکے ہاتھوں کل کو ہونے والی اپنی بے حرمتی بھول کر پھر سے اسی دشمن کے نئے جال میں پھنستی جا رہی ہے ۔ پاکستانی قوم کونہ جانے کب ہوش آئے گا کہ ان کے خلاف ایک بار پھر سقوط ِڈھاکہ طرز کی ایک بہت بڑی سازش کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ ہماری سیا سی قیا دت جلسے کرتی ہے‘ جن میں عوام کو کوئی پروگرام دینے کی بجائے اپنے قومی اداروں کو ہی برا بھلا کہا جاتا ہے‘ تاکہ ان کے دلوں میں ان اداروں کی عزت و احترام ختم ہو جائے۔ اب ‘پاکستانی عوام کی حفاظت سے متعلق ان ہی اداروں کو سوچنا پڑے گا۔ انہیں قوم کو غفلت کی نیند سے جگانا ہو گا اور اپنے عوام کو بتانا ہو گا کہ آخر گزشتہ دس بارہ برس سے بھارت کی باسی کڑی میں اُبال کیوں آیاہوا ہے؟
ادھر پاکستان گزشتہ تیرہ برس سے امریکہ سمیت دنیا بھر سے بی ایل اے کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی اپیلیں کرتا رہا‘ لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی ۔آج امریکہ نے بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر پاکستان سے اپنی دوستی کا ثبوت نہیں دیا‘ بلکہ برا ہو اُس بھارتی پلان کا ‘جس نے بی ایل اے کو کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کیلئے تیار کیا ‘ورنہ امریکہ تو بلوچستان میں کی جانے والی دہشت گردی کے ایک ایک لمحے اور سازش کوجانتا تھا۔ یہ تو بھارت میں بیٹھے ہوئے اسلم عر ف ا چھو گروپ کی چینی قونصل خانے پر حملہ کرنے کی وہ فاش غلطی تھی ‘جس سے بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے اور چین کے بھر پوردبائو کی وجہ سے بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا ممکن ہوا ۔ورنہ تو جس دن بنگلہ دیش میں بھارتی حکومت دنیا بھر سے اپنے ہمدردوں اور بنگلہ دیش کو آزاد کرنے میں مدد دینے والوں کو اعزازات دینے کا ڈرامہ رچا رہی تھی ‘تو اسی دن واشنگٹن میں امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ اوروزیر دفاع لیون پنیٹا خود کو نام نہاد بلوچ سوسائٹی آف نارتھ امریکہ کا صدر کہلوانے والے سے ملاقات کر رہا تھااور اس ملاقات کا اہتمام'' سینٹر آف نیو امریکن سکیورٹی آف ڈیفنس ‘‘کی طرف سے کیا گیا‘ جس کا وائٹ ہائوس سے مطالبہ تھا کہ بلوچستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی مداخلت بند کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کی جانب سے پاکستان کے خلاف حملہ آور ہونے والے ہمارے ایجنٹوں کے خلاف سیستان بارڈر پر کی جانے والی کارروائیوں کو روکا جائے ۔
گزشتہ چند برسوں کے حالات و واقعات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بہت سے لوگ اور تنظیمیں‘ پاکستان میں رہ کر اس کے خلاف سر گرمیوں میں مصروف ہیں۔ ایسے ''ڈیوڈ فراگ‘‘ جیسے افراد کو جلد از جلد فلٹر آؤٹ کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔