"MABC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کا دورۂ امریکہ اور قومی تقاضے

زیر نظر تحریر شائع ہونے تک وزیراعظم عمران خان‘ امریکہ کے اہم ترین دورے پر روانہ ہو چکے ہوں گے ۔ ان کے دورہ امریکہ کیلئے پاکستان کے اندر سے اور باہر سے‘ ان کی ذات اور وطن عزیز کے مخالفین نے ان سے بھی زیا دہ تیاریاں اور رابطے کر رکھے ہیں‘ جس طرح پاکستانی میڈیا میں نون لیگ اور دیگرسیاسی جماعتوں کا اثر ورسوخ ہے‘ اسی طرح عالمی میڈیا میں اسرائیل ‘ بھارت اور ان کے حلیفوں کا غلبہ ہے ۔ امریکہ ا ور برطانیہ کے نشریاتی اداروں سمیت متذکرہ بالا ممالک کے میڈیا کے درجنوں نمائدے وہاں ان کے استقبال کیلئے پہنچ چکے ہیں‘ جن کے پاکستان کے انگریزی اخبارات اور کچھ ٹی وی چینلز کے ہم خیال نمائندوںسے قریبی رابطے ہیں ‘جو انہیں پاکستان اور اس کے قومی اداروں کے متعلق خود تک کسی بھی طریقے سے پہنچنے والی معلومات کو شیئر کرتے رہتے ہیں اور سب سے اہم حسین حقانی گروہ اور ان کے دوستوں پر مشتمل بھارتی تھنک ٹینکس کے کارکن اپنے ماتھوں پر بل ڈالے غضب ناک نظروں سے وزیر اعظم عمران خان کی راہ تک رہے ہیں ۔یہ سب وزیر اعظم عمران خان کو کشمیر‘ سیا چن اور سرکریک کے بغیر بھارت سے دوستی اور کھلی تجارت کے چیمپئن جیسے خطاب کے جال میں گھیرنے کی بھر پور کوششیں کریں گے ‘لہٰذا یہی وہ وقت ہو گا‘ جب وزیر اعظم عمران خان کو عالمی میڈیا کے ان نمائندوں کو پاکستان کی معاشی و دیگر مثبت تفصیلات بتانا ہوں گی۔
وزیر اعظم عمران خان کو امریکہ کے سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر کا کہا ہوا یہ مشہور فقرہ یاد رکھنا ہو گا کہ ''امریکہ سے دشمنی مول لینا خطرناک ہو سکتا ہے‘ لیکن امریکہ سے دوستی اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے‘‘۔ افغان جہاد کے دوران 1984ء میں جیسے ہی امریکی سی آئی اے نے اطلاع دی کہ پاکستان ایٹم بم بنا چکا‘ تو وائٹ ہائوس سمیت سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آگ بگولہ ہو گیا اور پاکستان کو اس گستاخی کی سزا دینے کیلئے بھارت کو سیاچن پر جبری اور اچانک قبضہ کرنے کا اشارہ دے دیا گیا ۔ جنرل ضیاء الحق سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایسے وقت میں جب پاکستان کرۂ ارض کے صرف تین ممالک روس‘ بھارت اور شام کے سوا امریکہ ‘ برطانیہ‘ جاپان اور ان کے اتحادیوں پر مشتمل پوری دنیا کیلئے جنگ لڑ رہا ہے ‘تو اس دوران کوئی اس کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرأت کر سکتا ہے‘ لیکن یہ اعتماد کسنجر کے اس فقرے کی نذر ہو گیا کہ امریکہ اپنے دوستوں کو سزا دینے میں ایک لمحے کی دیر بھی نہیں کرتا‘ اس لئے عمران خان کو یاد رکھنا ہو گاکہ وہ کسی دھرنے یا سیا سی جلسے سمیت اپوزیشن جیسی پریس کانفرنس میں نہیں ‘بلکہ اپنے ملک کی بقا اور مفاد کی جنگ لڑنے جا رہے ہیں‘ جہاں ایک ایک لفظ کی انہیں قیمت چکانا پڑے گی۔
سابق امریکی صدر اوبامہ نے اپنے دورہ بھارت کے دوران کہا تھا:India should not only look easy but also engage East.۔وزیر اعظم عمران خان کو اوبامہ کے کہے ہوئے ان الفاظ کوSnub کرنا ہو گا‘ کیونکہ پاکستان جیسا اسلامی ملک جو ایک مضبوط جوہری طاقت بھی ہے ‘کسی کو بھی خود پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی اجا زت نہیں دے سکتا۔اوبامہ کے یہ الفاظ امریکہ کی بھارت نوازی کیلئے وہ کھلا پیغام تھا‘ جس سے اس خطے میں امریکہ کے نئے زاویوں کی نشاندہی ہوتی تھی۔ پاکستان کے بارے میں امریکہ کا دوغلا پن تو اوبامہ کے ان الفاظ سے بھی پہلے صاف اور واضح طور پر اسی وقت نمایاں ہو گیا تھا‘ جب اوبامہ سے پہلے صدر بش ‘بھارت کے ساتھ سویلین نیوکلیائی سمجھوتہ ‘ F-16اورHORNET F-18 فائٹر جہاز دینے کی غیر مشروط پیشکش کر رہے تھے‘ جس سے ظاہر ہو رہاتھا کہ امریکہ اب بھارت کو فوجی لحاظ سے مضبوط کر کے چین کے خلاف علاقے میں بطور ایک مضبوط ریاست کے تیار کرنا چاہتا ہے اور پھر اوبامہ انتظامیہ بھارت کو High frequency Radar for monitoring cross border movementمہیا کرنے کے علاوہ وسیع پیمانے پر دور دراز کے علاقوں تک سریع الحرکت فوجی نقل و حمل کیلئے سات بلین ڈالر کے ٹرانسپورٹ ایئر کرافٹ کے علاوہ گیارہ بلین ڈالر کے 126 میڈیم ملٹی رول کمبیٹ ایئر کرافٹس اور بھارتی ایئر فورس کیلئے علیحدہ سے 24 ہارپون میزائل دیئے جا رہے تھے۔ امریکی آڈٹ ٹیکس اینڈ ایڈوائزری فورم کے مطابق‘ 2016ء تک بھارت امریکہ سے 112 بلین ڈالر کا دفاعی سامان حاصل کر رہا تھا۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ امریکہ اب پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں برابری کی سطح پر نہیں رکھنا چاہتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے پہلے بھارت کواپنا سٹریٹجیک پارٹنر اور بعد ازاں نیوکلیئر ساتھی بنایا۔
تعجب ہے کہ امریکہ‘ بھارت جیسے ملک کو بڑی جمہوریت کا خطاب دیتاہے‘ جہاں حق و انصاف کا بول بالا نہیں‘ جہاں انفرادی اور صحافتی آزادی میسر نہیں ‘جہاں بھارتی سپریم کورٹ کے چار سینئر جج کھلی پریس کانفرنس میں الزام لگاتے ہیں کہ نریندر مودی ججزپر دبائو ڈالتا ہے‘ جومقبوضہ جموں و کشمیر میں7 لاکھ سے زائد بھارتی فوج کے ساتھ لوٹ مار قتل و غارت اور عصمت دری کا بازار گرم کئے ہوئے ہے‘ جہاں انسانی حقوق بھارتی فوج اور انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں کچلے جا رہے ہیں ‘جہاںایک لاکھ کے قریب معصوم کشمیریوں کے خون کا دھبے کلنک کے ٹیکوں کی طرح بھارت کی نام نہاد جمہوریت کے ماتھے پر چمکتے دکھائی دے رہے ہیں ‘ جہاں چھ سو سے زائد معصوم بچوں کی بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں سے بے نور آنکھیں ٹھوکریں کھاتی پھر رہی ہیں اور افسوس کہ پھر بھی امریکہ اور اس کے حواریوں کو بھارت کو بہترین جمہوریت کہتے ہوئے کوئی ندامت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ بھارت ‘جس کی ہر ریاست میں عیسائیوں کو زبردستی ہندو بنا یا جائے‘ جہاں ساٹھ سال سے زائد عمر کی ننوں کی آبروریزی کی جائے‘ ان کے گھر اور چرچ جلائے جائیں‘ دلیت (شودروں) کو زندہ جلایا جائے‘ مسلمانوں کو سر بازار گائے کا گوبر کھلایا جائے ‘کیاایسی ہوتی ہے‘ سب سے بڑی جمہوریت ؟ شاید اب امریکی سکولوں کے نصاب میں جمہوریت کی ترجیحات یہ رکھ دی گئی ہیں کہ جو بھی انسانی حقوق کی پامالی کی بد ترین مثال قائم کرے گا‘ ایسے ملک کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا خطاب دیا جائے گا ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی پالیسی سازوں کے کہنے پر اگر ہندوستان کو نیو کلیئر فیلڈ میں یورینیم کی فراہمی کریں گے‘ بھارت کے عسکری استعمال میں آنے والے Fast Breederآئی اے ای اے سے مستثنیٰ قرار دیتے رہیں گے اور سب سے بڑھ کر انتہائی خطرناک حد تکHigh frequency Radar جیسے عسکری استعمال میں آنے والے جیساسامان ِحرب پابندیوں کے بغیر فراہم کریں گے‘ تو ان حالات میں خطے میں ہی نہیں‘ بلکہ عالمی سطح پر بھی طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔ یوں جنوبی ایشیاء کے ممالک میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے اسلحے کی دوڑ شروع ہو جائے گی‘ اورNPTکی دھجیاں بکھیرنے کے بعد کوئی ملک بھی دوسرے ملک کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرنے سے نہیں روک سکے گا‘کیونکہ اب امریکہ نے تمام پابندیوں کے بر عکس بھارت کیلئے Flood Gateکھول دیا ہے۔
اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ کے دورے پر گئی ہوئی پاکستان کی سیاسی قیا دت کو اگریہ کہا جائے کہ تمہاری خارجہ پالیسی India Criticنہیں ہونی چاہیے‘ تو یہ حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہو گا‘ کیونکہ بھارت کے ساتھ عسکری اور غیر عسکری دونوں میدانوں میں تقابلی مقابلہ کرنے میں ہی پاکستان کی بقا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں