اندازہ کیجئے کہ معرکہ کارگل کے موقع پر بھارتی فوج کا کمانڈر انچیف خود تسلیم کر رہا ہے کہ ان کے پاس کارگل سیکٹر میں لاجسٹک سپورٹ کیلئے فوجی ٹرانسپورٹ کی بد ترین صورت حال تھی۔ حالت ِجنگ میں کسی بھی ملک کی فورس کی لاجسٹک صورت حال کی اگریہ حالت ہو تو پھرکون مانے گا کہ کارگل کی منصوبہ بندی کرنے والے غلط تھے۔ جنرل وی پی ملک اپنی کتاب کے صفحہ286 پیرا گراف نمبر4 میں لکھتے ہیں: '' جب کارگل جنگ شروع ہو گئی‘ تو صرفVintage ہی نہیں‘ بلکہ موسم کے ساتھ ہتھیاروں اور گولہ بارود کی کمی‘ ٹرانسپورٹ اور ہتھیاروں کے سپیئر پورٹس نے ہمیں لا چار کر کے رکھ دیا تھا ‘بلکہ انفینٹری کیلئے درکار ہتھیار‘ جن میں میڈیم مشین گنیں‘ سگنل کے آلات‘ مارٹر گولے اور بہت سے جنگی ہتھیار دستیاب نہیں تھے ‘‘۔کمانڈر ناردرن ایریا جنرل پدمنا باہن جو بعد میں بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف مقرر ہوئے‘ کارگل جنگ کے دوران بھارتی فورس کی حالت ِزار پر ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کوایک مراسلے میں لکھتے ہیں:
Most of the small arms were without passive night signals.
سرد ترین اور انتہائی بلند پہاڑوںپرلڑائی کی ذرا سی بھی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص جب بھارتی فوج کے جنرل انچیف وی پی ملک کے ہاتھ سے لکھے ہوئے یہ الفاظ پڑھے گا کہ '' ہم نے ایک بہت بڑا رسک لیتے ہوئے دوسرے سیکٹروں سے بو فورز توپیں کارگل سیکٹر منگوا لیں‘ یہ سمجھتے ہوئے کہ جنگ پھیلنے کی صورت میں یہ خود کشی کے مترادف تھا‘ لیکن ہمیں یہ بلنڈر کرنا پڑا۔ دوسری طرف ہمارے پاس موسم کی بے پناہ سختی سے نمٹنے کا کوئی مناسب بندو بست نہیں تھا اور جب ہم نے ناردرن ایریا میں یہ توپیں تقسیم کر دیں‘ تو دو دن بعد ہی ایک انتہائی خطرناک صورت حال پیدا ہو گئی‘ ہر گزرتا دن ہمارے لیے پریشانیاں لا آ رہا تھا۔ یہ بوفورز توپیں ہم نے منگوا تو لیں ‘لیکن ان کے استعمال کے چند روز بعد ہی ان کے فاضل پرزے ناپید ہو گئے‘‘۔اس بیان سے اندازہ کیجئے کہ جس جنگ میں دشمن کی یہ حالت ہو‘ اسے دیکھتے ہوئے ایک عام آدمی بھی بے ساختہ پکار اٹھے گا کہ پاکستانی فورسز نے اس وقت اپنے دشمن کو شہ رگ سے اس وقت پکڑا جب اس کے پاس اپنے دشمن کی تمام کمزوریاں موجود تھیں۔
بھارتی فوج کے میجر جنرل اشوک کرشنا اور بھارت کے انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کنفلیکٹ سٹڈیزکے ڈائریکٹر پی ر چری اپنی کتابKargil-turns the table کے صفحہ17 پر پاکستان کی اس کارکردگی پر لکھتے ہیں '' لداخ میںمسلمانوں اور بدھوئوں میں بڑھنے والی تلخی اور خلیج کو شاید پاکستانی جی ایچ کیو نے نئی دہلی سے بھی پہلے اور درست مانیٹر کر رکھا تھا۔کارگل کی مقامی آبادی میں بھارت کی مرکزی اور سرینگر حکومت کے خلاف بے چینی اور عدم اعتماد پیدا ہو چکا تھا‘ کیونکہ بھارت نے لداخ کی اکثریتی آبادی کے عرصہ سے جاری شدید مظاہروں اور احتجاج کے با وجود نئی دہلی سرکار نے پورے لداخ کو خود مختاری دینے کی بجائے صرف لیہہ ضلع کو جو بدھ اکثریت پر مشتمل تھا‘ اسےTitular Autonomous کونسل کا درجہ دے دیا۔ اس فیصلے سے اکثریتی مسلم آبادی پر مشتمل کارگل لداخ سے کٹ کر رہ گیا ۔واضح رہے کہ 1999ء کے اوائل میں لداخ کے مسلمانوں اور بدھ مذہب کے پیروکاروں میں اختلافات کی خلیج اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور جب نئی دہلی نے لداخ کے بدھ اکثریتی علا قہ کو سیا سی انتظامی طور پر خود مختاری دے دی تو کارگل اور اس سے ملحقہ دراس کی مسلم اکثریتی آبادی اس فیصلے کے خلاف بھڑک اٹھی اور یہ خطہ دو متحارب گروپوں میں بٹ گیا۔ کارگل‘ بٹالک ترتوک کی کل آبادی تقریبا ًایک لاکھ کے قریب ہے ‘جس میں 80 فیصد سے زائد مسلم آبادی ہے ‘جبکہ دراس ‘جو سکردو سے ملتا ہے‘ وہاں کی آبادی دس ہزار سے زائد ہے‘جبکہ لداخ میں بدھ مت اکثریت میں ہیں۔
اٹل بہاری واجپائی کے دور میں بس کے ذریعے دورۂ لاہور اور مشہور زمانہ لاہور ڈیکلریشن‘ جسے کارگل کے مشن کو تباہ کرنے کا ٹھیکہ کہا جائے‘ تو بیجا نہ ہو گا‘ جو اس وقت کی حکومت اور ہمارے لبرل دانشوروں نے لیا تھا۔انہوں نے کارگل مشن پر اپنی ہی سکیورٹی فورسز کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا تھا۔ اس دورے میں بھارتی قیادت کا اصل منصوبہ کیا تھا‘یہاںسب پر واضح کرنا چاہتا ہوں ۔بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل وی پی ملک نے 3مئی1999 ء کو بھارت کے مشہور انگریزی اخبار دی ''ٹائمز آف انڈیا‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا : ''حالیہ لاہور ڈیکلریشن سے کشمیر کی صورت حال پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘ کیونکہ ہم کشمیر او رسیا چن سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘ اور بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف وی پی ملک نے کارگل پر لکھی گئی اپنی کتاب میں بڑے فخر سے تسلیم کیا ہے کہ یہ ان کا '' پلانٹڈ ‘‘انٹرویو تھا۔اب ‘ذرا ہندوستان کی کارگل ریویو کمیٹی کی رپورٹ کے پیراگراف نمبر 8.20 پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
Strategic surprise was achieved by Pakistan because this area had been free of LOC violation over a long period of time & was consider unsuitable during winter.
یہ پیرا گراف پڑھنے کے بعد بھی ‘ اب اگر کوئی یہ کہے کہ ''آپریشن البدر‘‘ غلط فیصلہ تھا تو اس پر کیا کہا جا سکتا ہے ۔کیا پاکستانی فورسز کا حق نہیں تھا کہ وہ بھارت سے سیاچن کا بدلہ لے سکتیں؟ کیا پاکستان کا فرض نہیں کہ بھارت‘ اگر ہمارے کسی حصے پر اگر زبردستی فوجی طاقت سے قبضہ کر لیتا ہے تو ہم اپنی فوجی طاقت اور مہارت سے یہ علا قہ واپس لے سکیں؟ان دنوں چین نے بھی بھارت پر دبائو بڑھانے کیلئے کارگل سے ملحقہ بھارتی صوبہ لداخ میں '' ٹرگ ہائٹس‘‘ کے علاقہ میں سڑک کی تعمیر شروع کر دی‘ جسے بھارت متنازع علا قہ سمجھتا ہے۔ ساتھ ہی بھارتی صوبہ ارونا چل پردیش کے مغربی حصے کیمنگ ضلع میں جمہوریہ چین کی طرف سے provocative force تعینات کر دی گئی اور کارگل معرکہ میں جب بھارتی فوج نے 6 جون کو کارگل کی طرف بڑھنے کی ابتدا کی ‘تو چین نے مشرقی لداخ میں دمچوک پر اپنی فوجوں کو پھیلا دیا ۔ آخر میں ان کیلئے ونسٹن چرچل کا قول پیش خدمت ہے‘جو نہیں جانتے کہ کسی بھی ملک کی فوج کیا ہوتی ہے:
The army is not like a limited liability company, to be reconstructed, remodelled, liquidated, and refloated from week to week as the money market fluctuates. It is not an inanimate thing, like a house, to be pulled down or enlarged or structurally altered at the caprice of the tenant or the owner; it is a living thing. If it is bullied, it sulks; if it is unhappy, it pines; if it is harried it gets feverish; if it is sufficiently disturbed, it will wither and dwindle and almost die; and when it comes to this last serious condition, it is only to be revived by lots of time and lots of money.