"MABC" (space) message & send to 7575

کشمیر اور کلسٹر بم

ایک آیت کا مفہوم یہ ہے: اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اﷲ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے یہ وہ لوگ ہیں جو نا حق اپنے گھروں سے نکالے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے... ہمارا رب اﷲ ہے۔ 
دشمن لا الہ الا اﷲ کا ورد کرنے والوں پر کلسٹر بم برسا کر اور استبدادی قوانین اور حکم ناموں کا ماتحت بنا کر جموں و کشمیر کے عوام کو اپنے گھروں سے نکل جانے پر مجبور کر رہا ہے۔ کیا ظلم و ستم پر مبنی ان کارروائیوں کے خلاف مزاحمت کرنا سب پر واجب نہیں ہو چکا ہے؟
میں اپنے کالموں میں ان خدشات کا کئی مرتبہ کھل کر اور واضح طور پر اظہار کر چکا ہوں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ نومبر میں کرتار پور راہداری کا افتتاح ہو اور یہ سکھ یاتریوں کے لئے کھول دی جائے کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو پھر بھارتی پنجاب اور ہریانہ میں پاکستان کے خلاف نفرت اور جنگی جنون اس قدر کم ہو جائے گا کہ ہمیشہ سے اور ہر دور میں گھمسان کی جنگ سے تباہی اور بربادی کا شکار رہنے والا بھارت کا یہ خطہ جنگ کو پسند نہیں کرے گا۔ بھارت کے فیصلہ سازوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ ہماری قوم کا ایک حصہ اپنے سیاسی اختلافات کو دشمنی کی حد تک لے جاتے ہوئے اس کے لئے مددگار بن جائے گا‘ لیکن دشمن نے دیکھ لیا کہ سوائے چند ایک بد بختوں کے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح نظر آ رہی ہے۔ یہ وطن اور اس کا سبز ہلالی پرچم اس قوم کا لباس ہے اور یہ لباس ہی اس کی پہچان ہے۔ اس لباس میں اس قوم کی جان ہے۔ بھارتی فوج نے دیکھ لیا کہ لائن آف کنٹرول پر اس نے ابھی پہلا گولہ ہی پھینکا تھا کہ پورا پاکستان ''جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ کے نعروں سے گونجنے لگا ہے۔ چند ایک ففتھ کالمسٹوں کو چھوڑ کر اس قوم کا سوشل میڈیا استعمال کرنے والا ایک ایک فرد اپنی فوج کا سپاہی بن کر بھارت کی شر انگیزیوں اور پروپیگنڈے کا جواب دینے میں جت چکا ہے۔ امتحان کی اس گھڑی میں اپنے ازلی دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے ہم سب کو اپنے ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے‘ اپنے اندر گھسے ہوئے دشمن کے ایجنٹوں پر نظر رکھتے ہوئے اور ان کے الفاظ کے معنی جانتے ہوئے اس (ازلی دشمن) کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہو گا۔
وزیر اعظم کے دورۂ امریکہ سے دو ہفتے پہلے سے شروع کر کے اب تک چند اینکرز کے آئے روز فوج کے خلاف اٹھائے جانے والے طوفان کو دیکھ کر اکثر لوگ مجھ سے سوال کرتے تھے کہ ان کو اچانک کیا ہو گیا ہے؟ میں اپنے ان دوستوں کو بتاتا تھا کہ لگتا ہے کچھ ہونے والا ہے کیونکہ کوئی بھی دشمن بڑا وار کرنے سے پہلے اس ملک کے اندر سے ایسی آوازیں اٹھانا شروع کر دیتا ہے جس سے اس وطن کا دفاع کرنے والی قوتوں کے خلاف عوام میں وسوسے اور ناراضگی پیدا ہو جائے۔ اپنے مفادات اور مقاصد میں ناکامی کا منہ دیکھنے والے لوگ ایسے ہی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور اس طاقت کے خلاف آواز بلند کر دیتے ہیں‘ جس نے چند دنوں بعد دشمن کے حملے کے خلاف اپنے ملک اور عوام کو بچانے کے لئے اس کے چپے چپے کا دفاع کرنا ہوتا ہے‘ اور مقصد کے لئے اپنے جسموں کو قربان کرنا ہوتا ہے۔ اس طاقت کے خلاف نفرت اور جھوٹ کی فضا پیدا کرتے ہوئے اس اعتبار اور بھرو سہ کو ختم کر نے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے سہارے وہ سینہ سپر رہتی ہے۔ پاکستانی عوام کو اب اچھی طرح پتہ چل گیا ہو گا کہ ان لوگوں کا اصل ایجنڈا کیا تھا۔ 
لگتا ہے کہ نریندر مودی نے راشٹریہ سیوک سنگھ کی جانب سے ملی ہوئی گھٹی کے زہر سے کشمیر پر پہلے سے طے کردہ اپنے آخری حربے کی ابتدا کر دی ہے۔ امسال اکتیس جولائی کی رات کچھ کشمیری دوستوں کی جانب سے بھیجی گئیں ویڈیوز اور پیغامات نے یہ واضح کیا کہ اس وقت بھارت نے لائن آف کنٹرول پر بھاری گولہ باری شروع کر رکھی ہے اور لیپا وادی کے ساتھ ساتھ نیلم ویلی میں بھی ہر طرح کی نقل و حرکت پر پابندی لگ چکی ہے۔ شہری آبادی کو صرف پتیکا تک جانے کی اجا زت ہے اور بھارتی فوج کی ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ بھاری توپ خانے کی گولہ باری سے'' نوسیری ڈیم‘‘ اور نیلم جہلم کو نشانہ بنائے۔ ان کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ نیلم ویلی میں سیاحت کے لئے ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے سیاح بھارت کی شدید گولہ باری کی وجہ سے STUCK ہو چکے ہیں اور افواج پاکستان اپنی پوری کوشش کر رہی ہیں کہ بھاری گولہ باری سے بچانے کے لئے انہیں محفوظ راستوں سے واپس بھیج دیا جائے۔ ان میں سے بہت سے سیاحوں کو‘ جن کو واپس بھیجنے کیلئے محفوظ راستے نہیں مل رہے‘ اپنے فوجی بنکروں میں پناہ دی جا رہی ہے۔ نیلم اور لیپا وادی کے علاوہ کیرن سیکٹر میں بھی آخری خبریں ملنے تک بھارتی فوج کی گولہ باری میں شدت آتی جا رہی تھی۔
انہی دنوں میں یعنی پانچ چھ روز قبل سری نگر سے بھی کچھ تشویش ناک خبریں آ رہی تھیں۔ وہاں سے اطلاعات ملی تھیں کہ بھارت نے طالب علموں‘ سیاحوں کو کشمیر چھوڑنے کا فوری حکم دے دیا ہے۔ میرے سامنے اس وقت سرینگر کی مین شاہراہ کی ایک ویڈیو رکھی ہے جو چند روز پہلے کی ہے۔ اس ویڈیو میں انڈین آرمی اور ایئر فورس کی موومنٹ باآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ چند روز پہلے تک وادی کے ہوٹل مالکان کو احکامات جاری کئے جا چکے تھے کہ اپنے ہاں قیام پذیر لوگوں سے ہوٹل فوراً خالی کرا لیے جائیں‘ جبکہ سری نگر کے ایک میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے جاری کئے گئے تحریری حکم کے مطابق ہسپتالوں میں ریڈ الرٹ جاری کرتے ہوئے کسی قسم کی رخصت یا سٹیشن چھوڑنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ 
تیس اور اکتیس جولائی کی درمیانی رات بھارتی فوج نے نیلم وادی میں بھاری شیلنگ کے دوران ایک مرحلے پر کلسٹر بموں کا استعمال بھی شروع کر دیا تھا جس کے نتیجے میں متعدد افدراد زخمی ہو گئے تھے۔ ایسے ہتھیاروں کا استعمال بھارتی جنگی جنون کو ظاہر کرتا ہے۔ اب بھارتی صدر کے آرڈیننس کے نتیجے میں کشمیر کے حوالے سے جو نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے‘ اس نے کئی نئے سوال کھڑے کر دئیے ہیں۔ اس لئے کشمیر پر زبانی شور مچانے کی بجائے پاکستان کو کچھ عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ جیسے اس معاملے کو فوری طور پر اقوام متحدہ میں اٹھانا اور عالمی برادری کو اس بھارتی اقدام کے نتائج و عواقب سے آگاہ کرنا تاکہ بڑی طاقتیں مداخلت پر مجبور ہو جائیں ورنہ یاد رکھئے گا کہ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کشمیریوں اور پاکستان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس وقت NOW OR NEVER والا معاملہ اور صورتحال ہے۔ بھارت جموں کو کشمیر سے علیحدہ کرتے ہوئے ایک الگ ریا ست کا درجہ دینے جا رہا ہے۔ کشمیر اور لیہہ کو UNION TERRITORIES کا درجہ دیا جا رہا ہے‘ جسے نئی دہلی میں بیٹھے ہوئے گورنر کے ذریعے براہ راست کنٹرول کیا جایا کرے گا۔ آرٹیکل370 اور 35A کو منسوخ کر کے بھارتی حکومت نے اس عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کو کام کرنے کی اجا زت نہیں ہو گی کیونکہ اس حکم کے بعد تمام معاملات نئی دہلی میں بیٹھا ہوا گورنر چلائے گا۔ میرے خیال میں یہ زیادہ سے زیادہ اقدام تھا جو بھارتی حکومت کر سکتی تھی اور جسے کشمیری اور پاکستانی عوام کبھی تسلیم نہیں کریں گے‘ جیسے انہوں نے جموں و کشمیر کے ایک حصے پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ بھارت کی جانب سے اپنی قراردادوں کی ان خلاف ورزیوں کا بھرپور طور پر نوٹس لے اور ان قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنائے۔ عالمی برادری کو بھی اس صورتحال پر خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھنا چاہیے اور اس دیرینہ مسئلے‘ جسے بھارت کے اس حالیہ اقدام نے پیچیدہ ترین بنا دیا ہے‘ کے حل کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ یہ مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا بلکہ اس کو حل کرنے کی ضرورت اب پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں