سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں مقبوضہ کشمیر کے مظلومین کی جانب سے ایک نظم کے اشعار ''کیا بھول گیا ہے ارض پاکستان‘‘ سنائے جا رہے ہیں۔ کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم ہر درد مند پاکستانی کو خون کے آنسو رلا رہا ہے اور اہل پاکستان کشمیریوں کے ہر دکھ‘ درد کو اپنی تکلیف سمجھتے ہوئے ان کا اپنی بساط سے بڑھ کر ساتھ دیتے چلے آ رہے ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے۔ آج کے کالم میں ان گمنام مجاہدوں کا ذکر کروں گا‘ جنہوں نے کشمیر کی بیٹیوں اور بیٹوں کیلئے خود کو اس طرح قربان کیا کہ ان کے جسموں کے چیتھڑے بھی نہ مل سکے۔ جب وہ اس 'آتش نمرود‘ میں کود رہے تھے تو اﷲ کی ذات کے سوا کوئی انہیں دیکھنے والا نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں کسی انسان کی خوشنودی کیلئے نہیں‘کسی پلاٹ کیلئے نہیں‘ کسی دنیاوی لالچ میں نہیں بلکہ کشمیر کی مظلوم مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کیلئے دیں۔ وہ تو کشمیر کی بیٹیوں کی عصمتوں کو کافروں کی بربریت سے محفوظ رکھنے کیلئے خدا کا حکم سمجھ کر اس آگ میں کودے تھے‘ جہاں ناقابل تصور قربانیاں دینے کے بعد ان کی لاشیں ملیں‘ نہ ہی کہیں قبریں بنیں۔ اگر کسی کی لاش کا کوئی حصہ دشمن کے بھاری پلوں کو اڑاتے ہوئے بچ گیا تو اسے جنگلی جانوروں کی خوراک بنانے کیلئے ادھر ادھر پھینک دیا گیا۔ ان کی کوئی قبر نہیں جن پر کوئی پھول چڑھاتا یا فاتحہ پڑھتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سب نہ صرف ہم سب کو یاد ہیں بلکہ ان تمام کشمیریوں کی یادوں سے بھی وہ محو نہیں ہوئے جن کی حفاظت کی خاطر انہوں نے جان تک کی قربانیاں پیش کیں۔
جس طرح آج دفعہ 370 ختم کی گئی ہے بالکل ایسی ہی کوشش اس سے پہلے بھی ایک بار کی گئی تھی‘ جس کا مطلب پاکستان اور دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ ''اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھارت جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ کشمیر اب متنازعہ نہیں اور نہ ہی یہ عالمی مسئلہ رہا ہے‘ بلکہ کشمیر کا وہ حصہ جو پاکستان کے کنٹرول میں ہے اسے بھی بزور طاقت واپس لیا جائے گا‘‘۔ بھارت کے ان اقدامات پر مسئلہ کشمیر کو عالمی رائے عامہ کے سامنے اجاگر کرنے کے لئے افواج پاکستان نے آپریشن گرینڈ سلام کا آغاز کرتے ہوئے چھمب جوڑیاں کے بعد جب اکھنور کی جانب سے بھارت پر دبائو بڑھایا تو بھارتی فوج نے جواب میں ٹیٹوال سیکٹر سے حملہ کر دیا۔
اس موقع پر ایک منصوبہ بندی کے تحت مقبوضہ کشمیر کو بھارت سے واگزار کرانے کیلئے محاذ جنگ میں کودنے والے سرفروش‘ دشمن کی سپلائی لائن کاٹنے کی خاطر پہاڑی ندی نالوں پر بنائے گئے پلوں کو تباہ کرنے کیلئے حرکت میں آ گئے تھے۔ ان پلوں کی حفاظت کیلئے تعمیر کئے گئے پختہ مورچوں میں مشین گنوں سے مسلح فوجی دستے ہر وقت تیار کھڑے رہتے تھے۔ ان پلوں کی اہمیت یہ تھی کہ ان کی تباہی کے بعد دشمن کے اگلے دستوں کو ایمونیشن، پٹرول اور راشن سے محروم ہونا پڑتا۔ حفاظتی انتظامات اسی لئے کئے گئے تھے۔
اسی طرح کے ایک مشن پر مامور پاک فوج کے کیپٹن نثار اور اس کے جوانوں کو ٹیٹوال سیکٹر سے آزاد کشمیر کی جانب بڑھنے والی بھارتی فوج کے عقب میں واقع دو انتہائی اہم پلوں کو تباہ کرنے کا ٹاسک ملا۔ کیپٹن نثار کے ساتھ صوبیدار شیر عالم اور مقبوضہ کشمیر کے دو سویلین مجاہدوں کے علاوہ تیس جوانوں پر مشتمل نفری تھی۔ مذکورہ دونوں پل کیپٹن نثار کے اس وقت کے خفیہ بیس سے کوئی بائیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ اپنے خفیہ بیس سے نکل کر رات بھر یہ سرفروش کہیں اکڑوں چلتے ہوئے اور کہیں پیٹ کے بل رینگتے ہوئے مقامی مجاہدین کی رہنمائی میں اپنے ٹارگٹ کی جانب بڑھتے رہے۔
ابھی صبح کا اجالا پھیلا نہیں تھا کہ کیپٹن نثار کو اپنا ٹارگٹ نظر آ گیا۔ یہ ٹارگٹ ان سے کوئی ساٹھ ستر گز کے فاصلے پر تھا۔ جہاں وہ چھپے ہوئے تھے اس سے آگے کوئی آڑ نہیں تھی اور سامنے دشمن کے سپاہی چلتے پھرتے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے لئے اس سے آگے بڑھنا بے حد مشکل تھا۔ اس پل کی حفاظت کے لئے ایک سکھ پلٹن تعینات تھی کیونکہ یہیں پر ایک سپلائی ڈمپ بھی تھا۔ کیپٹن نثار کے دس جوانوں کا ایک دستہ نائیک محمد دین کی قیادت میں سیلابی ندی سے گزر کر پل کی دوسری جانب کوئی دس کلومیٹر دور پہنچا اور پھر اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ ندی کے دائیں جانب سے کیپٹن نثار کے ساتھ آئے مجاہدوں نے جس طرح اس پل کے اوپر والے حصے میں سنتریوں کی موجودگی میں ڈائنامائٹ نصب کیا وہ ناقابل یقین تھا۔
یہ سرفروش ڈائنامائٹ کے فیتے کو آگ لگانے کیلئے آگے بڑھے ۔ پل پر گشت کرنے والے پہلے بھارتی سنتری کا باریک رسی کے جھٹکے سے شکار کرنے کے بعد دوسرے کی جانب بڑھے ہی تھے کہ اسے یعنی سنتری کو خبر ہو گئی اور پھر رائفل کا ایک زوردار دھماکہ فضا میں بکھر گیا۔ گولی کشمیری مجاہد عبدالرحمان کے سینے میں لگی اور وہ ایک لمبی ہائے کے ساتھ زمین پر گرا‘ لیکن گرتے ہوئے وہ فیتے کو آگ لگانا نہ بھولا۔ ...اور پھر ایک زور دار دھماکے سے پل سمیت اس کے بھی پرخچے اڑ گئے۔ پھر دونوں جانب سے شدید فائرنگ کا سیلاب امڈ آیا۔ ندی کے دوسری جانب اترنے والی پارٹی اپنے ساتھ مارٹر گنیں لے گئی تھی‘ جس سے انہوں نے دشمن کے سپلائی ڈمپ کو تباہ کر دیا۔ پندرہ منٹ کی خونریز جنگ کے بعد یہ پل اور سپلائی ڈمپ سمیت پوری بھارتی پلٹن کا صفایا کر دیا گیا تھا۔
اس آپریشن کے پانچ دن بعد کیپٹن نثار اور ان کی ٹیم ایک دوسرے پل کی جانب بڑھی‘ جس کے نیچے بہنے والی ندی سیلابی تھی۔ پل کی لمبائی ایک سو فٹ اور اونچائی پچاس فٹ سے کچھ زیادہ تھی۔ اس کے دونوں جانب اونچی ٹیکریوں پر مشین گنیں نصب تھیں اور پہلے پل کی تباہی کے بعد بھارتی فوج الرٹ کر دی گئی تھی۔ سنتری ٹیکریوں پر کھڑے پہرہ دے رہے تھے۔ اب ایسے پلوں کی حفاظت پر پوری ایک کمپنی تعینات کی جا چکی تھی۔ یہ پل بہت ہی اہم تھا لیکن اسے مکمل تباہ کرنے کا ایک ہی ذریعہ تھا کہ بارود کے ساتھ ساتھ پل کے اوپر بچھائے گئے موٹے اور مضبوط تختوں کو بھی جلا دیا جائے۔ اس کے لئے پل پر پٹرول چھڑکنے کیلئے دو بڑے کین لئے یہ جانباز پل کی طرف بڑھنا شروع ہو گئے اور کہنیوں ہاتھوں کے بل آٹھ گھنٹے مسلسل رینگنے کے بعد صبح چار بجے اپنے ٹارگٹ پر پہنچ گئے۔ پل پر پٹرول کا بھر پور سپرے کرنے کیلئے کیپٹن نثار تین جوانوں کے ساتھ پل کی طرف بڑھے۔ تاریکی میں وہ پل پر سرکتے ہوئے پٹرول کے کین بھی خالی کرتے گئے۔ پورا پل پٹرول سے بھر دیا گیا تھا۔ دوسرے جوان نے ڈائنامائٹ لگا دیا ...اور پھر پورے پانچ بجے ماچس کی جلتی ہوئی تین تیلیاں پل پر گریں اور آگ کے شعلے آسمانوں کو چھونے لگے۔ ساتھ ہی بھارتی فوجیوں کی مشین گنوں نے چاروں جانب آگ اگلنا شروع کر دی لیکن پل پر کسے گئے بھاری تختے دیکھتے ہی دیکھتے بھیانک شعلوں کی نذر ہو گئے۔ دشمن کی پہاڑی بلندیوں پر بنے ہوئے مورچوں سے مارٹر گولوں اور مشین گنوں کا مینہ برسنا شروع ہو گیا۔ دشمن کی ایک مشین گن کے برسٹ نے کیپٹن نثار اور پھر صوبیدار شیر عالم کے جسموں کو ادھیڑ کر رکھ دیا اور وہ اسلام اور کشمیر کی بیٹیوں کی عصمتوں کو کافر کے شکنجے سے نکالنے کے فرض پر قربان ہو گئے۔ میں ان دنوں بار بار سوچ رہا ہوں کہ کاش ہمارے ملک میں بھی ارنسٹ ہیمنگوے جیسا کوئی ناول نگار ہوتا جو آپریشن جبرالٹر کے ان جانبازوں‘ جنہیں ہماری قوم جانتی تک نہیں‘ کیلئے ''They Died with Their Boots On'' جیسے ناول لکھتا اور ان پر بھی ''The Guns of Navarone'' اور ''Where the eagles dare'' جیسی فلمیں بنائی جاتیں۔
کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم ہر درد مند پاکستانی کو خون کے آنسو رلا رہا ہے اور اہل پاکستان کشمیریوں کے ہر دکھ‘ درد کو اپنی تکلیف سمجھتے ہوئے ان کا اپنی بساط سے بڑھ کر ساتھ دیتے چلے آ رہے ہیںاور آئندہ بھی دیتے رہیں گے۔