پندرہ اگست کو لال قلعہ دہلی میں خطاب کے لیے روسٹرم کی طرف جاتے ہوئے نریندر مودی کے چلنے کاانداز اور چہرہ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی سفاک ویمپائر خون سے سیراب ہونے کے بعدجھوم رہی ہے۔مقبوضہ جموں کشمیر میںپہلے سے پانچ لاکھ بھارت کی ریگولر فوج‘ ڈیڑھ لاکھ سنٹرل ریزور پولیس‘ 70 ہزار سے زائد بارڈر سکیورٹی فورس اور ڈیڑھ لاکھ مقامی پولیس کی مو جودگی میں مزید چالیس ہزار (بھارتی میڈیا کے چند ایک حضرات کے مطا بق ایک لاکھ ساٹھ ہزار) مشتبہ افراد پر مشتمل فورس کیوں پہنچائی گئی ؟ اس فورس کے داخلے سے پہلے وادی کشمیر میں کرفیو اور سیٹلائٹ کے تمام ذرائع کی مکمل بندش اس خونِ مسلم کی آبشار کی جانب اشارہ کر رہی ہے جسے نریندرمودی کی شکل میں ویمپائر بے دریغ اور بے رحمی سے پئے جا رہی ہے۔خدا کرے کہ میرے یہ خدشات بے بنیاد ہوں‘ لیکن مودی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ خونِ مسلم کے دریا میں ڈبکیاں لگائے بغیر وہ زندہ رہ ہی نہیں سکتا۔خون مسلم کی ندیاں پی جانے کے با جود بڑی ڈھٹائی سے یہ ویمپائرہزاروں نچڑی ہوئی لاشوں کو دیکھ کر ایسے ظاہر کرتا ہے جیسے اسے کچھ پتہ ہی نہیں۔
17 برس ہوئے گجرات میں تین ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کرنے والے نے 17 اپریل 2014ء کوخبر رساں ایجنسی آئی این اے اور بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ گجرات میں 2002ء کے مسلم کش فسادات میں اگر کوئی اس کے ملوث ہونے کا ایک ثبوت بھی پیش کر دے تو بے شک اسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے ۔نریندر مودی کا یہ چیلنج قبول کرتے ہوئے گودھرا ‘گجرات کے قتلِ عام کی ایک نہیں بلکہ تین تین مصدقہ رپورٹس پیش کر رہا ہوں جو کسی پاکستانی یا مسلمان کی تحریر کردہ نہیں بلکہ برٹش ہائی کمیشن ‘ یو ایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم اور International Initiative for Justice in Gujaratکی تیار کی گئی ہیں
٭ برٹش ہائی کمیشن دہلی کی رپورٹ کے مطا بق جب گودھرا ٹرین کا واقعہ ہوا تو رات کو وزیر اعلیٰ گجرات نریندر مودی نے اپنی رہائش گاہ پر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا جہاں اس نے جنتا پارٹی کے وزیر ہیرن پانڈا کی موجو دگی میں گجرات انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کو حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ کل جب ہندو مظاہرین گودھرا ٹرین واقعہ کے خلاف احتجاج کے لیے باہر نکلیں گے تو آپ نے انہیں روکنے کی بجائے اس وقت تک خاموش رہنا ہے جب تک میں آپ کو حکم نہ دوں۔ اس ملاقات کی اگلی صبح پنچ مل ضلع کے گائوں لونا وارہ میں سٹیٹ منسٹر اشوک پھاٹک‘پربھان چوہانRSS,VHP, BJP کے لیڈرز کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں ان کے کارکنوں کو مٹی کا تیل اور پٹرول مہیا کرنے کے علا وہ انتخابی فہرستیں مہیا کی گئیں تاکہ انہیں ہر گلی اور محلے میں مسلم گھروں اور خاندانوں کی نشاندہی ہو سکے۔ برٹش ہائی کمیشن انڈیا کی تیار کی گئی اس رپورٹ کے آخری پیرا گراف میں لکھا ہواہے کہ اگر نریندر مودی گجرات کا وزیر اعلیٰ رہا تو ہندو اور مسلمان کبھی بھی امن اور چین سے اکٹھے نہیں رہ سکیں گے ( اب یہی کچھ وہ وزیر اعظم بن کر کر رہا ہے)
٭ USAکمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم کی گجرات میں مسلمانوں کے قتل ِعام پر جاری کی جانے والی رپورٹ میں لکھا ہے کہ چلیں ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ نریندر مودی ان فسادات اور قتل و غارت میں براہ راست ملوث نہیں‘ لیکن ہمارے سامنے جو حقائق آئے ہیں جو ثبوت چیخ چیخ کر اس کے مجرم ہونے کی گواہی دے رہے ہیں ‘ان کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ مسلم وقف بورڈ جو نریندر مودی وزیر اعلیٰ گجرات کے دفتر سے صرف اور صرف 500 میٹر کے فاصلے پر ہے اور ہندو بلوائی بغیر کسی روک ٹوک کے اسے جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیتے ہیں اور نہ تو فائر بریگیڈ اور نہ ہی پولیس وہاں پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔دوسرا جو انتہائی اہم نقطہ یو ایس کمیشن نے اٹھایا اس کے مطابق گجرات پولیس کے ٹریننگ کیمپ سے 200گز دور واقع مسلم آبادی میں69 مسلمانوں کے گلے کاٹے گئے ‘ان کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس ٹریننگ کیمپ کی پانچ ہزار پولیس فورس اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد انہیں روکنے کے لیے نہ تو آگے بڑھے اور نہ ہی انتظامیہ کو اطلاع دے ۔یو ایس کمیشن کی اس رپورٹ کے مندر جات دیکھیں تواس سے برٹش ہائی کمیشن کی اس رپورٹ کی تصدیق ہوجاتی ہے جس میں لکھا گیا کہ نریندر مودی نے رات کو ہی گجرات انتظامیہ کو اپنی رہائش گاہ بلا کر ہدایات جاری کر دی تھیں کہ ہندو بلوائیوں کو میرے حکم کے بغیر کوئی بھی نہیں روکے گا وہ جو چاہیں کریں۔
تیسری مستند رپورٹ جو نریندر مودی کے بولے جانے والے جھوٹ کے تمام پردے چاک کرتی ہے‘ اسے دنیا کے چھ ممالک کی خواتین اراکین پر مشتملInternational Initiative for Justice in Gujaratنے اپنے آپ کو سخت خطرے میں ڈال کر اس وقت تیار کیا جب ابھی گجرات کی گلیوں میں چہار سو جلی اور سڑی ہوئی لاشوں کی بدبو پھیلی ہوئی تھی اس رپورٹ کو گجرات کے قتلِ عام پر عالمی خواتین کی تجزیاتی رپورٹ کا نام دیا گیا ۔ نریندر مودی جب چاہیں کسی غیر جانبدار کمیشن کے سامنے یہ تینوں رپورٹس رکھ کر اپنے لیے پھانسی یا جو سزا چاہیں منتخب کر لیں‘کیونکہ تحقیقاتی گروپ میں شامل چھ ممالک کی خواتین میں سری لنکا کی ڈائریکٹر آف انفارمیشن ابئے سیکارا‘سٹی یونیورسٹی نیویارک میں قانون کی پروفیسر ہونڈا کوپلین‘ جرمنی کی میڈیکا مونڈیائل اور تاریخ دان جبریلا مسچوسکی‘ یونیورسٹی آف گرین وچ برطانیہ کی پروفیسر نیرایوول ڈیوس اور تنظیم ویمن لیونگ انڈر مسلم لا فرام الجیریا کی انیسہ ہیلی جبکہ اس گروپ میں بھارت کی طرف سے دہلی یونیورسٹی کی خاتون پروفیسر اوما چکر وتی اوربین الاقوامی قوانین کی محقق وحیدہ نینار شامل ہیں۔
خواتین کے اس چھ رکنی گروپ نے گجرات کے مرد و خواتین کی داستانِ الم کو ریکارڈ کر کے دنیا بھر کے سامنے پیش کیا ۔اپنی اس رپورٹ میں وہ بتاتی ہیں کہ یہ ایک منظم تشدد تھاجس میں مودی بطور وزیر اعلیٰ گجرات باقاعدہ شامل ہیں۔ ان خواتین نے لکھا کہ گجرات کے مسلمان دربدری اور دوبارہ آبادکاری سے محرومی اور اقتصادی تشدد کا شکار ہو کر اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں۔ مسلمانوں کے معاشرتی اور اقتصادی بائیکاٹ کے علا وہ مسلم خواتین پر جسمانی‘ ذہنی اور سماجی صحت کے اثرات کے علا وہ بچوں پر طویل مدتی اثرات نے ان کی سب صلاحیتیں کمزور کر کے رکھ دی ہیں۔گجرات کے مسلمان اب خوف سے دبے دبے رہتے ہیں کیونکہ کسی ہندو کے ساتھ معمولی سی تکرار بھی ان کے لیے سنگین صورت اختیار کر لیتی ہے ۔جن خواتین کو جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہونا پڑا اور جنہوں نے اپنے سامنے دوسری خواتین کو جنسی تشدد کا شکار ہوتے دیکھا ان کے ذہنوں پر ایک نفسیاتی خوف نے جگہ بنالی ہے ۔گجرات کی مسلم خواتین جو فسادات کے کئی دنوں بعد اپنے کیمپوں سے کام کے لیے باہر نکلیں تو ہندو راہگیر‘ دکاندار اور دوسرے لوگ آپس میں آوازیں کستے ہوئے کہتے ''یہ وہی ہے‘‘ اس طرح جگہ جگہ ان خواتین کی تذلیل کرتے ہوئے نعرے لگائے جاتے کہ دیکھو یہ وہی ہیں جنہیں ہم نے لوٹا ہے۔خواتین کے اس چھ رکنی گروپ نے فسادات سے متاثر مسلمان بچیوں کی شادیوں کابندوبست کیا تاکہ آگے چل کر انہیں کسی شرمناک صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑ ے۔