"MABC" (space) message & send to 7575

کشمیر کی کہانی اور پانی

محترم رئوف کلاسرا جیسے با خبر اور تحقیقی جرنلسٹ نے کشمیر کہانی کے ذریعے جو انکشافات کئے ہیں وہ آج کی نئی نسل کے لیے ایک تحفے سے کم نہیں۔ یقینا یہ ان جیسے تحقیقی صحافی کا ہی طرۂ امتیاز ہو سکتا ہے ۔ بارہ برس قبل ایک قومی روزنامے میں انڈین سول سروس کے ڈی وی آئر اور وی پی مینن کی چالاکیوں سے پاکستانی پنجاب کے حصے میں آنے والے اضلاع کو چھیننے کی مکارانہ سازشوں پر مشتمل در پردہ رازوں کی کہانی کاسرسری طور پر ذکر کیا تھا‘ جنہیں اپنے مضمون میں تفصیل کے ساتھ سامنے لا نے کی کوشش کر رہاہوں۔
12 اور13 اگست 1947 ء کی رات پاکستان اور بھارتی پنجاب کی بائونڈری لائنز میں اچانک تبدیلی کر دی گئی۔پہلے سے طے شدہ ریڈ کلف ایوارڈ اچانک کیوں منسوخ کیا گیا؟پاکستان کی پیٹھ میں یہ چھرا کس نے گھونپا؟پاکستان کے حلق سے دریائوں کے پانی کیوں چھینے گئے؟ راوی‘ بیاس اور ستلج ایک ہی رات میں بھارت کے کنٹرول میں کیوں چلے گئے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جنہیں جاننا سب کا حق ہے کہ بھارت راوی‘ ستلج اور بیاس کو خشک کرنے کے بعد اب پاکستان کے حصے میں آنے والے تین دریائوں یعنی چناب ‘مرالہ ہیڈ ورکس ‘ جہلم اور سندھ کو بھی خشک کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے ۔ اس کے لیے وہ بیرونی ممالک کی کمپنیوں کو اربوں روپے کے ٹھیکے دے رہا ہے‘ لیکن ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اس کی کوئی فکر نہیں کی۔ انہیں کوئی پریشانی نہیں اور نہ ہی احساس ہے‘ شاید یہ لوگ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب پاکستانی قوم‘ جس کے وسائل ہڑپ کئے جا رہے ہیں‘ پانی کے ایک ایک قطرے کے لیے چیخنا شروع ہو جائے‘ یا اس وقت کے انتظار میں ہیں کہ جب پانی نہ ہونے سے یہ قوم چاول اور گندم کے ایک ایک دانے کو ترسنے لگے گی۔
ایک طرف ہمارے سیا ستدان پاکستان کے بچ جانے والے تین دریائوں کو خشک کرنے والے بھارت کے 90 سے زائد پاور پراجیکٹس اور بیراجوں کی طرف دیکھ کر منہ ہی منہ میں بڑبڑا تے‘ لمبی تان کر سو تے رہے تو دوسری طرف پانی کا حصول اس قدر مہنگا کر دیا گیا کہ عام آدمی کے لیے روزانہ استعمال کا پانی بھی پہنچ سے باہر ہوتاجا رہا ہے ۔ کانگریسی علمااور لیڈروں کی ہر ممکن کوشش تھی کہ مسلم رائے عامہ کو قیام پاکستان سے بدظن کیا جائے‘ اس کے لیے وہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ پر بے تکے الزامات لگاتے‘ لیکن مسلم رائے عامہ کی اکثریت ان کے جھانسے میں آئے بغیر قیامِ پاکستان کے لیے قائد اعظم کی قیا دت میں اپنا تن‘ من‘ دھن نچھاور کرتے ہوئے آزاد وطن کی جدو جہد میں کامیاب ہو گئی۔تاہم ہندو سیاستدانوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائض کانگریسی سول سرونٹس نے لارڈمائونٹ بیٹن اور اس وقت بر طانیہ کی اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کرتے ہوئے آخری وقت میں کشمیر ‘ راوی ‘ بیاس اور ستلج دریائوں کے پانیوں اور گورداسپور کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والے فیروز پور ہیڈ ورکس کو آخری رات گئے چھین کر اسے مشرقی پنجاب کی حدود میں لانے کے لیے ریڈ کلف ایوارڈ میں تبدیلی کرا دی‘ تاکہ فیروز پور ہیڈ ورکس پاکستان کے پاس جانے سے ایسا نہ ہو کہ بیکا نیر کی ریا ست پانی کے لیے ترستی رہے ۔ خشکی کے راستے بھارت جانے والے راوی ‘ستلج اور بیاس کو دیکھتے ہوں گے‘ جن کی وجہ سے پنجاب ‘ چندی گڑھ اور پھر فیروز پور ہیڈ ورکس کی وجہ سے بیکانیر کی ریاست سر سبز و شاداب نظر آتی ہے۔ انہی پانیوں کی فراوانی کی وجہ سے بھارتی پنجاب میں چاروں طرف آپ کولہلہا تی فصلیں نظر آئیں گی ۔فیروز پور‘ جو مسلم اکثریتی علا قہ ہونے کی وجہ سے حد بندی کے مطابق پاکستان میں شامل کیا جا چکا تھا ‘گیارہ اور بارہ اگست کی درمیانی شب یکدم بھارت میں شامل ہونے سے مسلمانوں کا مقتل بھی بنا رہا۔ 
تقسیم ِہند کے فارمولہ کے مطابق مسلم اکثریتی علا قہ ہونے کی وجہ سے فیروز پور پاکستان کے حصے میں آ رہا تھا‘ لیکن پنڈت نہرو نے اسے کیوں اور کیسے تبدیل کرایا اسے جاننے کے لیے لارڈ ریڈ کلف کے پرسنل سیکرٹری کرسٹو فر بیومونٹ کا 1989ء میں لکھا ہوا یہ نوٹ ملاحظہ کیجئے۔کرسٹو فر بیومونٹ لکھتے ہیں '' سر جارج ایبل کی موت کے بعد وہ واحد زندہ گواہ ہیں جسے یہ علم تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کس طرح مکمل ہوئی۔ اس میں تبدیلیاں کیسے اور کیوں ہوئیں‘‘۔ لارڈ ریڈ کلف کے پرسنل سیکرٹری کرسٹوفر نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ وہ جو حقائق اس وقت ریکارڈ کر وا رہے ہیں برائے مہربانی انہیں ان کی زندگی میں منظر عام پر نہ لائے جائیں اور ان کے بعد کم از کم نائب وزیر خارجہ اور متعلقہ لوگوں کی موجودگی میں سن کر انہیں محفوظ رکھنے کے لیے ان کا ریکارڈ رکھا جائے ۔
بائونڈری لائن کمیشن کے جائنٹ چیئر مین ریڈ کلف کے سیکرٹری کرسٹو فر بیومونٹ نے کہا:چھ جولائی1947ء کوسر سیرل ریڈکلف‘ جو بعد میں لارڈ بن گئے‘ انہیں بائونڈری کمیشن کا جائنٹ چیئرمین مقرر کیا گیا۔ سات جولائی کو مجھے ان کا پرائیویٹ سیکر ٹری اور آٹھ جولائی کو وی ڈی آئر جو کہ ہندو تھا اسے اسسٹنٹ سیکرٹری مقرر کیا گیا اور یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی جو جان بوجھ کر گئی یا سازش کے تحت ‘لیکن تقسیم ہند کی انتہائی خفیہ ترین بائونڈری کمیشن میں کسی ہندو یا مسلمان کی تقرری کسی طور بھی منا سب اور جائز نہیں تھی‘ لیکن اس کے با وجود ہماری ان دونوں تقرریوں کا نوٹیفکیشن انڈیا گزٹ میں28جولائی 1947ء کو درج ہوگیا۔لارڈ مائونٹ بیٹن‘ جواہر لال نہرو اور محمد علی جناح کے درمیان یہ فیصلہ ہوا کہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے بارے میں ریڈ کلف ایوارڈ کی رپورٹ 15 اگست تک تیار ہو جانی چاہئے جس پر ریڈ کلف کو اس لیے اعتراض تھا کہ ایک ماہ اور نو دنوں میں یہ رپورٹ تیار کرنا نا ممکن ہے‘ لیکن ان کی یہ درخواست نہ مانی گئی۔ دوسری طرف بنگال اور پنجاب میں ہندو مسلم کشت و خون شروع ہو چکا تھا۔ اسی دوران بائونڈری کمیشن میں ایک ہندو اور ایک مسلمان جج کو شامل کیا گیا ‘لیکن جلد ہی ان دونوں کے آپس میں جارحانہ رویے کی بنا پر انہیں فارغ کر دیا گیا ‘تاہم ہندو اسسٹنٹ سیکرٹری آئر‘ جس کی انتہائی خفیہ کاغذات اور نقشوں تک رسائی تھی‘ اسے اس اہم ترین پوسٹ سے نہ ہٹایا گیا اور نہ ہی مسلم لیڈروں نے اس کی نشاندہی کی اور نہ ہی کسی قسم کاعتراض اٹھایا۔ اگر مسلم لیگ اس وقت یہ اعتراض کر دیتی تو ہندوستان اور پاکستان میں پانی اور کشمیر کا مسئلہ سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا۔کرسٹوفر بیو مونٹ نے لکھا کہ وہ آج تک حیران ہیں کہ لارڈ ریڈ کلف کے اسسٹنٹ سیکرٹری کے لیے انگریز کی بجائے ہندو کا انتخاب کیوں اور کس نے کرایا؟ کیونکہ تقسیم ہند کے نازک ترین مرحلے میں انتہائی خفیہ کاغذات تک کسی بھی ہندو یا مسلمان کی رسائی نہیں ہونی چاہئے تھی ۔ ہندو اور مسلم دونوں ججوں کے فارغ ہونے کے بعد اب ہم تین لوگوں کو یعنی لارڈریڈ کلف‘ میں اور وی ڈی آئر ‘جنہیں بائونڈری لائن اور نقشوں میں ہونے والی ایک ایک تبدیلی کا علم ہوتا تھا اور مجھے یقین کی حد تک شک تھا کہ وی ڈی آئر‘ وی پی مینن سے رابطے میں ہے اورمیرا یہ شک اس وقت اور بھی یقین میں بدل گیا جب 12 اگست1947ء کو وائسریگل کانفرنس میں پنڈت نہرو نے چٹاگانگ ہل کا علا قہ پاکستان میں شامل کئے جانے پر سخت احتجاج کیا۔چٹاگانگ ہل کی خبر سچ تھی کہ یہ علا قہ پاکستان میں ہی شامل ہو رہا تھا ‘جس کا نہرو کو نہ جانے کیسے پتہ چل گیا؟کیونکہ وائسریگل لاج میں میٹنگ سے کچھ دیر پہلے میں نے یہ کاغذات وی ڈی آئر کو دیئے تھے جن میں چٹاگانگ ہلز کا علاقہ پاکستان کے حصے میں دیا جا رہا تھا۔ جان کرسٹی کہتا ہے کہ گیارہ اگست1947ء کو H.E. is having to be strenuously dissuaded from trying to persuade Radcliff to alter his Punjab line. This was on a date when H.E. ought not to have known where the line was drawn ۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں