لائن آف کنٹرول پر شہادت کا بلند رتبہ پانے والے کمانڈو ون کے نائب صوبیدار احمد خان کو اٹک کے گائوں میں ہزاروںافراد کی موجو دگی میں بظاہرسپرد خاک کر دیا گیا‘ لیکن یقینا وہ اس وقت شہداء کی مجلس میں بیٹھے محبوب خدا محمد مصطفیٰﷺ اور ان کے جانثار صحابہؓ کی اپنی جانب اٹھنے والی پیار بھری مسکراہٹوں پر قربان ہو رہے ہوں گے۔ لکھنے بیٹھوں تو نہ جانے یہ مضمون کتنے صفحات تک پھیل جائے کہ احمد خان شہید نے لائن آف کنٹرول پر محصور کشمیری بیٹیوں کی حفاظت کیلئے جانبازی کے کیا معرکے سرانجام دیئے‘ لیکن یہ بتانے کا ابھی وقت نہیں‘تاہم شہید احمد خان سے یہ وعدہ ہے کہ جب قوم کو اپنے جانبازوں کی شہا دتوں کے معرکے بتانا لازمی ہو جائے گا تو وہ تفصیلات لکھوں گا کہ سچے پاکستانیوں کی آنکھوں سے عقیدت اور محبت کے آنسو بہنا شروع ہو جائیں گے۔ آج The few the proud پر مشتمل یہ چار الفاظ ان کی خدمت میں بطورِ ہدیہ پیش کر رہا ہوں۔
نوشہرہ اورپبی سے گزریں تو سڑک کے بائیں طرف ایک چھوٹا سا بورڈ چراٹ چھائونی کی سمت رہنمائی کرتا ہے‘ جس پر انگریزی کے یہ چار لفظThe few the proudدیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان الفاظ کی کچھ خاص سمجھ نہیں آتی تھی۔ ایک جاننے والے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ پاکستان کی مایہ ناز ایس ایس جی فورس کے بارے میں ہیں‘ لیکن ان چار الفاظ کی تشریح حوالدار زرک خان‘ محمد رفیق نیازی‘ بلال ظفر چوہدری‘ گل رحیم ‘ کیپٹن سعد‘ عارف اﷲ مروت‘ قدیر‘ کیپٹن سلمان‘ حوالدار خان محمد ‘ میجر اسحاق اور کرنل ہارون اسلام جیسے سینکڑوں جوانوں کی سالمیتِ وطن کیلئے دی جانے والی شہا دتوں کے صورت میں اس وقت سامنے آئی‘ جب وطن دشمن دہشت گردوں کے بنائے گئے آگ اور بارود کے حصار توڑنے کیلئے یہ جانباز آتش ِنمرود میں بے دھڑک کود پڑے۔
ایس ایس جی کے مرکزچراٹ چھائونی کی حدود میں داخل ہوں تو چار ہزار فٹ سے زائد بلندی پر قائم پرُ شکوہ مسجد کے مینار آسمان کی طرف اٹھتے دکھائی دیتے ہیں‘ اسی مسجد کے مینار کے سائے تلے چراٹ کا وہ کمانڈو ہیڈ کوارٹر ہے‘ جہاں وطن پر مر مٹنے کا عزم لئے '' من جانبازم‘‘ اﷲ کی وحدانیت کے آگے سر جھکائے ‘اﷲ ہو اﷲ ہو کا ورد کرتے سنائی دیتے ہیں۔ یہ جانباز جب دشمن کے آتش کدے میں کودنے لگتے ہیں‘ تو اس وقت انہیں اپنے سفید ڈاڑھیوں والے باپ اور سفید چادروں میں لپٹی ہوئی بوڑھی مائیں ‘ گھروں میں بیٹھی ہوئی سہاگنیں اور کلکاریاں مارتے ہوئے بچوں کی فکر لاحق نہیں ہوتی‘بلکہ وطن کی تمام بیٹیوں اور اپنی پاک دھرتی کی طرف بڑھنے والے دشمن کے ناپاک قدم کاٹ پھینکنے کا جذبہ ان کے پیشِ نظر ہوتا ہے۔
والٹن لاہور کے تیمور شہید کے جنازے میں شرکت کیلئے جانے والوں میں میرے ساتھ ساتھ چلتا ہوا ایک نوجوان جو کسی سٹور یا فیکٹری میں کام کرنے والا مزدور لگ رہا تھا‘والٹن اور ڈیفنس سے آنے والے انسانوں کے سیلاب کو دیکھ کر اپنے ساتھی سے کہنے لگا ؛ یار اشفاق اصل موت تو یہ ہے‘ جس کی ہر ایک کو دعا کرنی چاہیے۔ کاش! ہم بھی فوج میں بھرتی ہو جاتے۔ ہمارے جنازے بھی اس طرح کے ہوتے۔ مرنا تو ایک دن ہر انسان نے ہی ہوتا ہے‘ لیکن یا ر بندہ مرے تو اس قسم کی موت مرے! تیمور اگرویسے انتقال کر جاتا تواس کے جنازے میں اس کے چند محلے داروں ‘ رشتے دار اور دوستوں نے ہی شرکت کرنی تھی ‘لیکن اﷲ کی شان دیکھو کہ اس کو شہا دت کی شکل میں وہ اعزاز نصیب ہوا ہے کہ جدھر دیکھو سر ہی سر دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ تو وہ لوگ ہیں‘ جو اس وقت تیمور شہید کی نمازہ جنازہ میں شریک ہونے کیلئے نہ جانے کہاں کہاں سے آ ئے ہوں گے ‘جبکہ کروڑوں کی تعداد میں ایسے بھی ہیں ‘جو ٹی وی چینلزپر اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے اس کی شہا دت کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اﷲ کے حضور اس کے بلند درجات کیلئے دعائیں مانگ رہے ہوں گے۔ تیمور اگر ایک فوجی نہ ہوتا یا اگر فوجی ہونے کے با وجود کسی حادثے سے یا طبعی موت کا شکار ہوجا تا تو اسے سوائے ماں باپ اور قریبی عزیزوں کے کسی نے بھی اس طرح یاد نہیں کرنا تھا۔ اس کے جنازے کی بڑی مشکل سے چند صفیں پوری ہونی تھیں ‘لیکن وطن کی سرحدوں کے دفاع میں اس پاک وطن کی مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کی کفار سے حفاظت کیلئے کلمہ طیبہ کی عظمت کیلئے اپنے اﷲ اور اس کے رسول پاک محمد مصطفیٰﷺ سے کئے گئے عہد کو وفا کرنے کیلئے کربلا کے جذبۂ حسینی کو جلا بخشنے کیلئے وہ بہادری سے کفر کے پہاڑ وںسے ٹکرا گیا۔
تیمور شہید کی نماز جنازہ کی اطلاع دیتے ہوئے میڈیا پر بتایا جا رہا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد ادا کی جائے گی‘ جس کیلئے مختلف مساجد سے لوگ جوق در جوق والٹن کی اس گرائونڈ میں پہنچ رہے تھے‘ لیکن وہاں پر سب سے پہلے پہنچنے والی دنیا میڈیا گروپ کی ٹیم کی زبانی پتا چلا کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے شہید تیمور کا جسد خاکی ہیلی کاپٹر کی بجائے اب بائی روڈ لایا جا رہا ہے اس لئے وقت کا صحیح اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ شام سات بجے وہاں پہنچے تو بتایا گیا کہ نماز جنازہ رات دس بجے کے قریب ممکن ہے۔ یہ سننے کے بعد لوگ واپس جانا شروع ہو گئے‘ لیکن رات گئے جب ایمبولینس شہید تیمور کا جسد خاکی لئے وہاں پہنچی تو اپنے ساتھ انسانوں کا ایک ایسا ریلا لئے ہوئے تھی‘ جس کا بہائو رکنے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ والٹن روڈ کی سڑک کے ساتھ بنی ہوئی چار دیواری کے اند رکی گرائونڈ مکمل طور پر بھر چکی تھی اور لوگ باہر سڑک پر صفیں درست کر رہے تھے۔ تیمورشہید کی والدہ کی دنیا ٹی وی چینل کی خاتون رپورٹر سے کی جانے والی بات چیت سے معلوم ہوا کہ بیٹے نے ماں کو عید پر نہ آنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا تھا ''ماں‘‘دشمن کی جانب سے برسائی جانے والی شدید گولہ باری سے لگ رہا ہے کہ حالات بہت خراب ہوں گے اور محسوس ہو رہا ہے کہ موت کسی بھی وقت اس کے سرہانے آن کھڑی ہوگی اور ایسے وقت میںاسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک کے بیٹوںپر واجب ہوجاتا ہے کہ وہ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے تمام رشتوں کو ختم کرتے ہوئے صرف جہاد فی سبیل اﷲ پر عمل کریں۔ تیمور کی ماں نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے مجھ سے کیا گیااپنا عہد نبھا دیا ۔ میدان جنگ میں اس کی گن کے ٹریگر پر جمی ہوئی اپنی انگلیوں کی مضبوطی میں ذرا سی کپکپاہٹ بھی نہ آنے دی اور نہ ہی اپنے اندر لاوے کی طرح ابلنے والے جذبۂ شہادت کو ماند پڑنے دیا۔تیمور اور احمد خان دوسرے شہید وں کی طرح وطن کی عظمت پر قربان ہو گئے۔ انہوں نے وہ قسم جو اپنی فوجی تربیت مکمل ہونے کے بعد اپنے اﷲ اور اس کے رسولﷺ کو گواہ بناتے ہوئے کھائی تھی ‘ دشمن سے اپنے مقدس وطن کو بچاتے ہوئے اس پر قربان ہوتے ہوئے پوری کر دی۔
لاہور کے تیمور شہید کو لائن آف کنٹرول پر شہا دت کی وہ عظمت عطا ہوئی کہ والٹن میں اس کی نما زہ جنازہ میں شریک ہونے کیلئے انسانوں کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ میں وہاں کھڑا سوچ رہا تھا کہ جتنے لوگ تیمور کے جنازے میں شریک ہیں‘ اس سے آدھا ہجوم اکٹھا کرنے کیلئے بڑے بڑے لیڈر اور سیا سی جماعتوں کے سربراہ کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں‘ لیکن اﷲ کی راہ میں شہا دت کے مرتبے تک پہنچنے والا لانس نائیک کے رتبے والا تیمورکس قدر خوش بخت نکلا کہ لوگوں کا ایک سمندر اس کے تابوت کو صرف ہاتھ لگانے کیلئے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تیمور اور احمد خان دوسرے شہید وں کی طرح وطن کی عظمت پر قربان ہو گئے۔ انہوں نے وہ قسم جو اپنی فوجی تربیت مکمل ہونے کے بعد اپنے اﷲ اور اس کے رسولﷺ کو گواہ بناتے ہوئے کھائی تھی ‘ دشمن سے اپنے مقدس وطن کو بچاتے ہوئے اس پر قربان ہوتے ہوئے پوری کر دی۔