وزیراعظم عمران خان عالمی رہنمائوں اور اداروں کو بار بار انتباہ کر رہے ہیں کہ اجیت ڈوول اور نریندر مودی کے ماضی کا ریکارڈ چیخ چیخ کرکہہ رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ بد ترین صورت حال پر عالمی رائے عامہ کے دل میں اٹھنے والے غصے کا رخ موڑنے کے لیے وہ ممبئی‘ نئی دہلی پارلیمنٹ‘ چائی سنگھ پورہ‘ اری کیمپ اور پلوامہ سے بھی بڑھ کر کوئی نیا کھلواڑ کراسکتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کے یہ خدشات بے جا نہیں‘ کیونکہ بھارت کے ریکارڈ سے یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی بر بریت پر پردہ ڈالنے اور ایک کروڑ سے زائد کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کو غلط رنگ دینے نیز کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کو سبو تاژ کرنے اور خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے اپنے سینکڑوں لوگوں کی گردنیں کاٹنے سے بھی باز نہیں آئے گا۔
زیا دہ دور نہ جائیں سابق امریکی صدر بارک اوبامہ کے دورہ ٔبھارت کی مثال سامنے رکھیں جب ان کے دورہ بھارت سے چند روز قبل 31 دسمبر2014ء کو نئے سال کی پہلی صبح انڈین کوسٹ گارڈ کے آئی جی آپریشن کے آر نوتیال نے اچانک ٹی وی چینلز پر بتانا شروع کر دیا کہ بین الاقوامی ذرائع سے ملنے والی انفارمیشن پر پاکستان سے آنے والی ایک کشتی کو بھارتی کوسٹ گارڈز نے پوربندر گجرات کی بندر گاہ سے 356 کلو میٹر دور روکنے کی کوشش کی لیکن کشتی ہماری وارننگ پر رکنے کی بجائے تیز رفتاری سے آگے نکل گئی ‘جس پر بھارت کے کوسٹ گارڈز نے اس کا پیچھاکیا ‘ہماری بار بار کی وارننگ کے با وجود کشتی نہ رکنے پر کوسٹ گارڈز نے اس پر فائر کئے جس سے کشتی میں آگ لگ گئی اور چند منٹ بعد وہ ایک دھماکے سے پھٹ گئی۔ آئی جی آپریشن نے میڈیا کو ایک سوال پر بتایا کہ ہم ایک اور کشتی کی تلاش میں ہیں جس کے متعلق کوسٹ گارڈز کویقین ہے کہ وہ تباہ ہونے والی کشتی میں سوار لوگوں سے رابطے کا کام دے رہی تھی۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ تباہ شدہ کشتی سے کچھ ملا ؟ تو آئی جی نوتیال کا کہنا تھا کہ انتہائی خراب موسم کی وجہ سے کسی قسم کا ملبہ نہیں مل سکا۔ مشکوک کشتی کی خبر عام ہوتے ہی بھارت کے اندر سے ہی اس پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئیں اورانڈین نیشنل کانگریس نے بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ نریندرمودی سرکار کی جانب سے پوربندر کشتی والی کہانی سوائے ایک سنسنی خیز ڈرامے کے اور کچھ بھی نہیں ہے‘ کیونکہ جو کچھ کہا جا رہا ہے اس جھوٹ پر بھارت کا پوری دنیا میں مذاق اڑایا جائے گا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا کانگریس نے خدشہ ظاہر کیا تھا‘اوبامہ کے دورہ کے بعد کشتی کی کہانی پر بھارت نے یو ٹرن لیتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ کراچی کی کیٹی بندر گاہ سے آنے والی یہ کشتی دہشت گردوں کی نہیں غالباًسمگلروں کے کسی چھوٹے سے گروپ کی تھی ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ 30 ہارس پاور انجن والی کوئی بھی کشتی بھارتی کوسٹ گارڈز کے جدید جہازوں سے تیز بھاگ سکے؟ آئی جی آپریشن انڈین کوسٹ گارڈ کہتے ہیں کہ انتہائی خراب موسم کی وجہ سے کشتی میں موجود لوگوں کی لاشیں اور دوسرا سامان ڈھونڈنا ممکن نہیں جبکہ سمندری موسم کی صورت حال سے متعلق اداروں کا کہنا تھا کہ اس رات متعلقہ سمندری حدود کا موسم مکمل طو ر پر صاف تھا‘ جس کا ریکارڈ دنیا کے ہر ملک کے پاس موجود ہے۔ ایک لمحے کے لیے اگر بھارت کاورژن مان بھی لیا جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قدر خراب موسم میں چھوٹی چھوٹی کشتیاں کوسٹ گارڈز سے تیزی میں آگے نکل جائیں؟
واشنگٹن میںامریکہ کی سابق وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ کی کتاب The Mighty and the Almightyکی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے کہا ''اپنی زندگی میں مجھے اس بات کا ہمیشہ افسوس رہے گا کاش وہ مارچ 2000ء میں کشمیر پر ثالثی کے ایجنڈا پر مشتمل اپنا دورہ بھارت ملتوی کر دیتے‘‘۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے کہا کہ ان کے ہندوستان کے دورے سے چند گھنٹے پہلے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے گائوں چائی سنگھ پورہ میں 36بے گناہ سکھوں کو نا معلوم افراد کے ہاتھوں بے درد ی سے اس لیے قتل کرا دیا تاکہ ان کے وحشیانہ قتل کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے بھارت میں مظاہرے شروع کرا دیئے جائیں اور اس ما حول میں بھارتی قیادت کشمیر پر ممکنہ اور مجوزہ سمجھوتے پر بات کرنے سے بھاگ سکے۔ بل کلنٹن دورۂ ہند وستان کے لیے ابھی نئی دہلی سے کوئی ایک گھنٹے کی پرواز پر تھے کہ جموں کے چائی سنگھ پو رہ کے 36 سکھوں کے قتل عام کی خبریں دنیا کے ہر میڈیا چینل میں طوفان کی طرح پھیل گئیں‘ جس پر 22 مار چ 2000ء کو بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا نے اکانومسٹ لندن سے بات کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ چائی سنگھ پورہ میں دہشت گردی سے 36سکھوں کے قتل عام نے بھارت اور امریکہ کو اور قریب کر دیا ہے‘ لیکن برجیش مشرا کے اس انٹرویو کے چھ سال بعدسابق امریکی صدر بل کلنٹن نے دنیا بھر کو بتا کر چونکا دیا کہ انہیںساری عمر اس بات کا افسوس رہے گا کہ اگر وہ بھارت کا یہ دورہ نہ کرتے تو 36 بے گناہ سکھ آج اپنے خاندان والوں کے ساتھ زندہ ہوتے ۔
36 سکھوں کے قتلِ عام کے چھ سال بعد سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے بھارت کی عیا ری اور درندگی کا وہ پردہ چاک کیا جس کے متعلق پاکستان پچھلی کئی دہائیوں سے ساری دنیا کو چیخ چیخ کر آگاہ کرتا آ رہا تھا۔ بل کلنٹن نے وہ سچ چھ سال بعد بولا جس کا انہیں دوسرے دن 23 مارچ 2000ء کو ہی علم ہو چکا تھا کہ چائی سنگھ پورہ میں 36 کشمیری سکھوں کا قتلِ عام بھارتی فوج کا کیا دھرا ہے‘ کیونکہ جب عالمی میڈیا کی ٹیم اس گائوں پہنچی تو اس حملے میںبچ جانے والے سکھ سکول ٹیچر کنول جیت سنگھ نے سی این این کو بتایا کہ چالیس کے قریب بھارتی فوجی ہمارے گائوں میں آئے‘ انہوں نے گائوں کے مردوں کو باہر نکالا ان کی دو قطاریں بنائیں اور گولیوں کی بارش کرکے سب کو شہید کر دیا ۔سکول ماسٹر کنول جیت سنگھ کہتے ہیں کہ ان بھارتی فوجیوں میں سے دو کو میں پہچانتا تھا‘ کیونکہ ہر ماہ تنخواہ وصول کرنے کے لیے مجھے ان کے کیمپ کے پاس سے گزرنا ہوتا تھا۔ جس گائوں کی آبا دی کا کل دس فیصد مسلمان ہوں اس گائوں میں تین کشمیری مجاہد کس طرح 90 فیصد آبا دی کے لوگوں کو بغیر ہاتھ پائوں باندھے قتل کر سکتے ہیں؟بھارتی فوج کا کیمپ اس گائوں سے دو کلو میٹر سے بھی کم فا صلے پر تھا‘ جس کی کمان بریگیڈئیر آر کے کروال کر رہے تھے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج اور تین لاکھ سے زیا دہ پولیس اور پیرا ملٹری فورسز تعینات ہونے کے با وجود بھارتی فوج اس قتل عام کے آٹھ گھنٹے بعد چائی سنگھ پورہ پہنچتی ہے؟