قطع نظر اس کے کہ بھارت کیا رویہ اختیار کرتا ہے‘ نومبر تک کیا کچھ رکاوٹیں ڈالتا ہے‘ لیکن پاکستان کو با باگرو نانک جی کے550 ویں جنم دن کا عظیم جشن منانے کیلئے کرتار پور آنے والے دنیا بھر کے سکھوں کیلئے ہر اس سہولت کی تیاری کرنا ہو گی جس سے انہیں احساس ہو کہ وہ اپنے ہی گھر میں ہیں۔ کرتار پور کے آس پاس تعمیر کی جانے والی کسی ایک دکان یا چھوٹے موٹے کھوکھے پر بھی تمباکو اور سگریٹ کی خرید و فروخت سختی سے منع کرنا ہو گی۔ہندوستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلے ہوئے امیر‘ مڈل کلاس حتٰی کہ غریب ترین سکھ اس دن‘ اس گھڑی کے انتظار میں ہیں کہ کب کرتار پور راہداری( لانگا) کھلے اور وہ اپنے گرو جی کے جنم استھان پر ماتھا ٹیکنے کیلئے جب چاہیں آ تے جاتے رہیں کیونکہ سکھوں کیلئے ننکانہ صاحب‘ حسن ابدال اور کرتار پور کو دیکھنا ‘وہاں ماتھا ٹیکنا متبرک اور بہت بڑی عبا دت ہے۔
بھارت اور اس میں رہنے والے انتہا پسند ہندوئوں کو کرتار پور راہداری سے اس قدر تشویش ہے کہ ان کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں اور بھارت میں وشوا ہندو پریشد‘ راشٹریہ سیوک سنگھ‘ اکالی دل‘ ہندو سینااور بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہر ممکن کوشش ہے کہ نومبر سے پہلے پہلے کوئی ایسی حرکت کر دی جائے‘ کچھ ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں کہ کرتار پور راہداری پر کئے جانے والے کام رک جائیں اور دونوں اطراف کے لوگوں کی توجہ ایک دوسرے کے خلاف ہوجائے۔ اطلاعات ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں سکھ رجمنٹ اور سکھ سپاہیوں کی ایسی ویڈیوز لوڈ کی جارہی ہیں جن میں کشمیری خواتین اور بچوں پر ظلم و زیا دتی کے منا ظر دکھائے جا سکیں‘ تاکہ پاکستانیوں کے دلوں میں سکھوں کیلئے محبت اور ہمدردی کے جو جذبات موجزن ہیں انہیں نفرت میں تبدیل کر دیا جائے۔ ہمارے حساس اداروں سمیت وزارت خارجہ اور تھنک ٹینکس کو اس جانب بھر پور توجہ دینی ہو گی‘ کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے با با جی گرو نانک کے سکھ اس وقت اپنی سی کوششیں کر رہے ہیں کہ مسلمان بہنوں ‘ بچوں اور بوڑھوں کو راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کے غنڈوں اور بھارتی فوجیوں کے مظالم سے حتی الامکان بچایا جائے۔
کرتار پور راہداری پر کام کرنے والے پاکستان کے ہر مزدور‘ انجینئر‘ راج مستری‘ ڈیزائنر سمیت تمام افسران یہ جان کر یقینا خوش ہوں گے کہ راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کے غنڈوں نے اس عید الضحیٰ پر اتر پردیش کے شہر مظفر نگر کے مسلمانوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر کسی نے باہر نمازِ عید ادا کرنے کی کوشش کی تو سب کو کاٹ کر پھینک دیا جائے گا۔مظفر نگر شہر میںجیسے ہی گاڑی پر بیٹھے ہوئے ہندو غنڈوں نے لائوڈ سپیکروں اور مظفر نگرکی مساجد سے عید نماز نہ پڑھنے کے اعلانات شروع کرا دیئے تو تمام مسلمان گھروں اور دکانوں میں سہم کر رہ گئے‘ لیکن اس موقع پر با با گر و نانک جی کے سکھوں نے مسلمانوں کی مساجد میں آ کر ان سب کو تسلی دیتے ہوئے عہد کیا کہ مظفر نگر کا ہر جوان اور بوڑھا سکھ اپنے اپنے لائسنس یافتہ ہتھیاروں اور کرپانوں سے آپ کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہے۔ مسجد میں جگہ چونکہ کم پڑتی ہے اس لئے آپ باہر سڑک پر بے خوف اور مطمئن ہو کر نماز عید ادا کریں‘اور پھر مظفر نگر میں سب نے دیکھا کہ مسلمانوں نے کھلی سڑک پر نکل کر نمازِ عید اد اکی اور سکھ نو جوان ہتھیار لئے ہندو غنڈوں کی راہ روک کر پہرہ دیتے رہے۔اس لئے ایک بار پھر حکومت پاکستان اور پنجاب سے گزارش ہے کہ ایک ایک اینٹ کو متبرک سمجھتے ہوئے کرتار پور راہداری کیلئے کام کیجئے ‘بلکہ میرا اپنا دل چاہتا ہے کہ کچھ دنوں کیلئے بطور مزدور میں خود کرتار پور جا کر کام کروں ‘ہو سکتا ہے کہ میری یہ خواہش پوری ہو جائے۔
بھارت کے انتہا پسند ہندو اس وقت دشمنی میں اندھے ہو کر مسلمانوں کی مساجد اور گھروں کو نذرِ آتش کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کی حکومت اور سپریم کورٹ نے کٹاس مندر کی تزئین و آرائش کیلئے کروڑوں روپے مختص کئے ہیں‘ دور نہ جائیں کٹاس مندر کے تالاب کے پانی کیلئے چکوال اور اس کے ارد گرد سیمنٹ فیکٹریوں کو سپریم کورٹ نے کروڑوں روپوں کا جرمانہ کرنے کے علا وہ اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ اس تاریخی ہندو مندر کے تالاب کیلئے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔کس قدر فرق ہے بھارت اور پاکستان کی سوچ میں۔ جس قدر مذہبی آزادی ہندو اور سکھوں سمیت کرسچین بھائیوں کو پاکستان میں ہے اس سے آدھی بھی بھارت میں نہیں۔یہ کوئی لفاظی نہیں کیونکہ پاکستان میں خود کو لبرل اور ترقی پسند کہلانے والا طبقہ پاکستان سے باہر جا کر یہی ثابت کرنے کی کوششوں میں جتارہتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی آزادی نہیں۔ اب بتایئے پاکستان میں پارسیوں کو کسی نے ان کی عبا دت گاہوں میں جانے سے روکا ہے‘ کسی عیسائی‘ سکھ یاہندو کو اپنی اپنی عبا دت گاہوں سے روکا ہے؟کسی بدھ مت کے پیرو کار کو اس کے عقائد کے مطا بق عبادت سے روکا ہے؟
لیکن سکھوں کو دھوکہ دینے کیلئے چانکیہ کی چالیں دیکھئے کہ ان کو دودھ پلاتے وقت ان کے پیالے میں مکھی ڈالنے سے باز نہیں آیا اورگورداسپور ڈیرہ بابا نانک سے بارڈر تک اپنے حصے کے کام میں سستی روی سے کام لے رہا ہے‘ جبکہ دوسری طرف پاکستان گوردوارہ دربار صاحب کرتار پور سے بارڈر تک4.7 کلو میٹر دو طرفہ سڑک کیلئے اپنے حصے کی تعمیرات میں اس قدر تیزی کی جا رہی ہے کہ دن رات اس پر کام جاری ہے ۔ اپنے حصے کے کام میں سستی کے علا وہ نریندر مودی اور اجیت ڈوول نے پاکستان کے سامنے کرتار پور راہداری کیلئے نت نئی شراط رکھ دی ہیں۔ یہ کہا کہ سکھوں کے علا وہ ہندوئوں کو بھی فری ویزہ کی سہولت دیتے ہوئے کرتار پور آنے جانے کی اجا زت دی جائے۔ چانکیہ کی شرارت دیکھئے اور اجیت ڈوول کی انتہا پسندانہ ہندو ذہنیت کہ خود بابری مسجد کو گرانے کے بعد وہاں رام مندر کیلئے مرے جا رہے ہیں‘ بھارت میں مسلمانوں‘ دلت اور عیسائیوں کی زندگیاں جہنم بنا کر رکھی ہوئی ہیں‘ اجمیر شریف میں سالانہ عرس کے موقع پر زائرین کو ویزہ دیتے وقت اس قدر سختیاں اور طوالت اختیار کرتے ہیں کہ بمشکل ایک دن قبل چند ایک لوگوں کو حاضری کی اجا زت دی جاتی ہے۔
دوسری شرط مودی سرکار نے یہ عائد کر دی ہے کہ بھارت ڈیرہ با با نانک سے باری باری پندرہ سکھوں پر مشتمل گروپ کو کرتار پور آنے کی اجا زت دے گا اور پندرہ کے اس گروپ میں پانچ ہندو بھی شامل ہوا کریں گے۔ تیسری شرط یہ سامنے لائے ہیںکہ ایک دن میں ہندوئوں اور سکھوں پر مشتمل صرف 500 بھارتیوں کو کرتار پور جانے کی اجا زت دی جائے گی۔ یہ ہندوتوا کی ایک ہلکی سی جھلک ہے ‘یہ سکھوں کا بھارتی حکمرانوں کی نظروں میں مقام ہے ‘یہ ان کی حیثیت ہے۔ کیا کبھی شیوا کے مند رمیں جانے کیلئے مودی سرکار نے کوئی تعداد مقرر کی ہے کہ ہر سال یا روزانہ اتنے ہندو یاتری وہاں جا سکتے ہیں؟ کیانیپال میں یہ شرط رکھی ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ سکھ آج بھارتیہ جنتا پارٹی کے قیدی اور غلام ہیں کہ وہ صرف پندرہ پندرہ کے گروپ میں پانچ ہندوئوں کے ساتھ بھیجے جایا کریں گے‘ جبکہ پاکستان نے ایک وقت میں وہاں کم از کم پانچ ہزار سے زائد سکھوں کے بیٹھنے‘ رہنے اور کھانے پینے کے انتظامات کر رکھے ہیں ۔