"MABC" (space) message & send to 7575

پروردگار

''بول جے شری رام ‘‘۔ ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا تھپڑ کھانے کے بعد زمین پر گرے ہوئے نحیف ونزار شخص نے جواب میں کہا: ''پروردگار‘‘۔ جس پرپہلے سے بھی زیا دہ زور دار تھپڑ مارتے ہوئے آر ایس ایس کا غنڈہ بولا کہ ''جے شری رام کہو‘‘ لیکن بوڑھے اور مفلوک الحالی سے نچڑے ہوئے وجود کے اندر سے '' پروردگار‘ پروردگار...‘‘ کی صدائیں ہی نکلتی رہیں۔ دلیپ نامی راشٹریہ سیوک سنگھ کا غنڈہ اس کمزو ر بوڑھے مسلمان پر تھپڑوں کی بارش کرتے ہوئے بڑے فخر اور غرور سے ویڈیو بناتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ یہ بوڑھا جب تک جے شری رام کا نعرہ نہیں لگا ئے گا‘ اسے نہیں چھوڑوںگا ‘لیکن قربان جایئے کہ اپنے کمزور جسم پر پڑنے والی ہر ٹھوکر اور چہرے پر پڑنے والے زناٹے دار تھپڑ کے بعد بھی جے شری رام کی بجائے خون آلود چہرے اور مکے کی وجہ سے دانتوں سے بہتے ہوئے خون اور درد کی انتہا کے با وجود اس کی توتلی زبان سے ''پروردگار‘ پروردگار...‘‘ کے الفاظ ہی نکلتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس وقت سب سے زیا دہ وائر ل اس ویڈیو کو دیکھتے ہوئے مجھے ایسا لگا کہ میں تو ابھی ایمان لایا ہی نہیں‘ صرف نام کی حد تک مسلمان ہوں‘ جس مومن کا ذکر قرآن میں آیا ہے‘ وہ مومن تو یہ تھپڑ‘ ٹھوکریں سہنے والا ہے۔ خد اکا سب سے پیارا بندہ تو راشٹریہ سیوک سنگھ کے راج میں تھپڑوں کی مار سہنے والا‘ اگر چاہتا تو بڑی آسانی سے جے شری رام کہہ کر اپنی جان بچا سکتا تھا‘ اپنی بوڑھی ہڈیاں تڑوانے سے محفوظ رہ سکتا تھا‘ عمر کے اس حصے میں اس کے منہ میں جو چند دانت رہ گئے تھے‘ وہ جے شری رام کہہ کر چہرے پر پڑنے والے گھونسے سے منہ تڑوانے سے بچ سکتے تھے‘ لیکن وہ صرف نام کا مسلمان نہیں تھا۔ اس کے اندر ایمان کی قوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس نے تھپڑ اور ٹھوکریں کھاتے ہوئے مکہ کے ابتدائی مسلمانوں پر ہونے والے قریش ِمکہ اور ابو جہل کی بربریت کی یاد تازہ کر دی۔ اس نے چہرے پر پڑنے والے ہر زور دار تھپڑ کے جواب میں ''پروردگار‘‘ کہہ کر حضرتِ بلالؓ کی یاد تازہ کر دی۔ اس نے بدر کے معرکہ حق و باطل کی یاد تازہ کر دی۔اس بوڑھے اور کمزور ہڈیوں والے شخص نے کربلا کی یاد تازہ کرتے ہوئے دنیا کو بتا دیا کہ کس طرح تلواروں اور نیزوں کے سائے میں اذان دی جاتی ہے‘ کس طرح تیروں کی بارش میں قافلۂ حسینی نماز ادا کرتا رہا۔
میں سوچنے لگا کہ پاکستان کے ہر گلی ‘محلے ‘ سوسائٹی اور بلاک کی مساجد سے نماز ادا کر کے اپنے گھروں کی جانب آنے والے بعض افراد راستے میں ملنے والوں کو خود سے کمتر سمجھتے ہیں۔اپنے آپ کو رشتہ داروں‘ دفتروں اور دوستوں میں پانچ وقت کی نماز کا پابندکہتے ہوئے‘ اپنی آواز میں ایک رعب اور گردن میں اکڑاؤ پیدا کر لیتے ہیں۔ حج اور عمرہ کی سعادت ملنے پر اتراتے پھرتے ہیں۔ مسجد کے اندر داخل ہوتے وقت ارد گرد بیٹھے ایسے لوگ ‘جو کبھی کبھار نماز کیلئے دکھائی دیتے ہیں‘ ان پر اپنی بڑائی اور نمازی ہونے کا رعب جماتے ہیں‘ لیکن جب سے میںنے اس کمزور بوڑھے کو بھارت میں ابو جہل کی اولاد کی شکل میں ابھرنے والی راشٹریہ سیوک سنگھ کے نرغے میںتھپڑ اور ٹھوکریں کھاتے دیکھا ہے‘ تو سوچنے لگا ہوں کہ اگر یہ شخص آج سے چودہ سو برس پہلے مکہ میں موجود ہوتا تو اس شخص نے کفارِ مکہ کے مظالم کے باوجود اﷲ کی حاکمیت پر ایمان لاتے ہوئے ‘اﷲ کے فرمان پر سر بسجودہوتے ہوئے تلواروں کے سائے میں بھوک اور پیاس سے تڑپنے کے با وجود‘ محمد مصطفیٰ ﷺ کی نبوت پر ایمان لاتے ہوئے کلمہ حق ادا کرتے رہنا تھا۔ اپنے جسم پر کفار کے پڑنے والے ہر زور دار کوڑے کے ساتھ اس کی زبان سے کسی لات و منات کا نہیں‘ بلکہ صرف اور صرف ''پروردگار‘‘ کا نام ہی نکلنا تھا۔ یہ ویڈیو دیکھتے ہوئے لگا کہ ہم تو ایک مسلمان کے گھر میں پیداہونے کی وجہ سے نام کے مسلمان ہیں ۔ایک آزاد ملک میں جہاں اﷲ کو ماننے والوں کی حاکمیت ہے‘ وہاں کلمہ پڑھ کر جب دل چاہا کسی جگہ کسی مسجد میں جا کر نماز اد اکر لیتے ہیں۔ مجھے فرمان ِخدا یاد آ گیا‘ جس کا مفہوم ہے کہ '' ابھی تو تم مسلمان ہوئے ہو‘ ایمان تو ابھی لانا ہے‘ ابھی تو تم پر مصیبتیں نازل کی جائیں گی‘ ابھی تو تمہارا امتحان لیا جائے گا ‘‘اور مجھے یاد آنے لگا کہ زندگی کے ایک موڑ پر کچھ عرصے کیلئے بے روزگاری اور ناداری دی گئی تو میں اسے برداشت کرنے کی بجائے چند دنوں ہی میں چیخ اٹھا تھا کہ اے اﷲ! یہ میرے بس کی بات نہیں!
یہ ویڈیو دیکھ کر ایسے لگا کہ راشٹریہ سیوک سنگھ سے تھپڑ اور ٹھوکریں کھانے والا یہ بوڑھا‘ ہمارے جیسے کروڑوں نام کے مسلمانوں سے کئی درجے بہتر مسلمان ہے۔ کاش! اس کے منہ پر مارے گئے ہر تھپڑ اور اس کے جسم پر پڑنے والی ہر ٹھوکر کو میں اپنے جسم پر سہہ لیتا۔ اس طرح میرے ایمان کی بھی تھوڑی بہت پہچان ہو جاتی۔ اس ایمان کی پہچان ‘جو مکہ سے مدینے کی جانب ہجرت کی پرُ خطر مسافت کے دوران کی گئی۔ اس ایمان کی پہچان ‘جو شعب ِابی طالب میں اس وقت کی گئی ‘جب کفارِ مکہ نے بنو ہاشم کے ایک ایک فرد کو شہری زندگی سے خارج کر دیا‘ جو محض ایک معاشرتی مقاطع نہیں تھا ‘بلکہ اﷲ کی زمین پر ایذا رسانی کی ایک انتہائی ہولناک سزا تھی ‘جو انسان پر انسان کے ظلم کی ایک بد ترین مثال تھی ۔بنو ہاشم سے ہر قسم کا لین دین ‘شادی بیاہ ممنوع قرار دے دیا گیا‘ کوئی ان کو اپنے پاس بطورِ مہمان نہیں ٹھہرا سکتا تھا ۔روپے پیسے‘ جنس اور اناج‘ نمک ‘شکر کی ایک ڈلی دینے کی بھی کسی کو اجا زت نہیں تھی۔ انہیں ذات برادری‘ تجارت‘ کاروبار‘ دوستی جیسے کسی بھی تعلق سے خارج کر دیا گیا تھا اور یہ تھا؛ مسلمان ہونے والوں کے ایمان کا امتحان۔ ان سب کو پیش کش تھی ‘جو بھی محمدؐ کا ساتھ چھوڑ کر واپس آئے گا‘ اسے ہر سہولت اور مالا مال کر دیا جائے گا۔ شعب ِابی طالب کی گھاٹی میں کھلے آسمان اور صحرا کے تپتے ہوئے سورج تلے دو سال تک کسمپرسی کی زندگی گزارنے والوں کی جانب دھیان کرتے ہوئے سوچتا ہوںکہ یہ کیسے لوگ ہوں گے؟ ان کا کیسا ایمان تھا؟ انہوں نے کلمہ پڑھنے کی اس قدر سزا کس طرح بھگتی ہو گی ؟ اپنے ایمان کا امتحان ان سے بدر میں لیا گیا۔ اس ایمان کی پہچان غزوۂ احد میں ا س وقت ہوئی‘ جب رحمت العالمینؐ کو ایک تیز نوکیلا پتھر لگا کہ وہ زخمی ہو کر گر پڑے‘ انہیں گرتا دیکھ کر ابن قمیہ جو مکہ کا سب سے بڑا تیغ زن سمجھا جاتا تھا‘ گھوڑا دوڑاتا ہواآپؐ پر حملہ آور ہوا تو معمولی نفری کے با وجود ایمان لانے والے اپنے ایمان کی پہچان کروانے کیلئے حضورؐکے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے‘ اپنے ایمان کی پہچان کرواتے ہوئے کلمہ حق کا نعرہ مستانہ ادا کرتے ہوئے تتر بتر ہونے والے مسلمانوں کو کفار کی تلوار سے ٹکراتے ہوئے‘ حضورؐ کی جانب متوجہ کیا۔غزوۂ احد میں مخزوم خاندان سے تعلق رکھنے والے شماس نے جو حضورؐ کے بالکل سامنے تھے‘ رسول عربی کی حفاظت میں کفار کی تلواروں کے اتنے زخم کھائے کہ شہا دت کے رتبے پر پہنچ گئے اور حضور نے انہیں '' زندہ ڈھال‘‘ کے لقب سے نواز ا۔
ادھر راجستھان کا یہ کمزور اورنحیف بوڑھا ‘کفار کا محکوم آر ایس ایس کے غنڈے کا ہرتھپڑ کھانے کے بعد جے شری رام نہیں ‘بلکہ اپنے پروردگار کو پکارتا ہے ۔کتنا عظیم مسلمان ہے! خدا نے اس کی اس ادا کو اتنا پسند کیا کہ اسے دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کا ہیرو بنا دیااورانہیں اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کیلئے رول ماڈل مل گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں