سننے میں آیا ہے کہ نریندر مودی آج کل عرب دنیا سمیت مختلف ممالک کے سربراہوں سے بھیک مانگتا پھر رہا ہے کہ بھگوان کے لیے عمران خان کو مجبور کریں کہ وہ اسے ''ہٹلر‘‘ کہہ کر نہ پکاریں کیونکہ ہٹلر کے خطاب سے دنیا بھر میں اس کا امیج خراب ہو رہا ہے۔ یہ بات کہاں تک درست ہے‘ اس بارے میں تو وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ نریندر مودی کو ہٹلر کا خطاب وزیر اعظم عمران خان نے تو ایک ڈیڑھ ماہ پہلے دیا‘ جبکہ راقم آج سے تین سال قبل دو ستمبر 2016 کو ''آج کا ہٹلر‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے کالم میں مودی کو یہ خطاب دے چکا ہے۔ 13 ستمبر کو مظفر آباد کے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے نریندر مودی پر اپنے بچپن ہی سے بھارت کی دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کا بنیادی رکن ہونے کا جو الزام لگایا‘ وہ سو فیصد درست اور سچ پر مبنی ہے۔ میری آج کی تحریر کا موضوع بھی یہی ہے۔ یہ نریندر مودی کی پیدائش سے لے کر اب تک کی کہانی ہے۔ یہ بیان کہ راشٹریہ سیوک سنگھ میں رہتے ہوئے مودی کیسی دہشت گردی کے مرتکب ہوتا رہا۔ پانچ اگست سے تا حال وادیٔ کشمیر پر سخت ترین کرفیو کا جبر ٹھونسنے والا نریندر مودی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کیلئے اگلے ہفتے امریکہ پہنچنے والا ہے۔ کیا یورپی یونین، انگریز اشرافیہ‘ امریکی اراکین سینیٹ اور کانگریس سمیت فری میڈیا اور ہیومن رائٹس کی درجنوں تنظیمیں کسی ایسے شخص کی پذیرائی کرتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کریں گی‘ جس نے کرکٹ سمیت دنیا کے ہر کھیل کو راشٹریہ سیوک سنگھ کی انتہا پسندی کا شکار بنا رکھا ہے؟ نریندر مودی اپنی سکیورٹی فورسز کے آٹھ لاکھ سے زائد جنونیوں کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جبر اور انسانیت سوزی کی نئی داستان رقم کر رہا ہے۔ ایسے میں جاپان‘ کینیڈا اور ان جیسے دوسرے مہذب اور انسانی حقوق کا احترام کرنے والے معاشرے مودی جیسے قاتل کو اپنے پہلو میں جگہ دینا کس طرح پسند کریں گے؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کا سربراہ امیت شاہ بھارتی سپریم کورٹ کے ذریعے 69 افراد کے قتل کا ذمہ دار قرار پا چکا ہے۔ ایسے شخص کو بھارت کا وزیر داخلہ بنانے والے کو ملکہ برطانیہ اور ہیروشیما اور ناگاساکی جیسی قیامتوں کا سامنا کرنے والی مہذب جاپانی قوم کس طرح قبول کرے گی؟ ایک ایسا شخص جو 1969 تا 1973‘ پانچ سال زیر زمین دہشت گردی میں ملوث رہا ہو‘ اسے اقوام متحدہ کس حوالے سے خوش آمدید کہنے کی ہمت کرے گی؟ ایک ایسا شخص‘ جس کی جماعت آر ایس ایس بھارت میں بسنے والے مسلمانوں، عیسائیوں‘ دلتوں اور دوسری اقلیتوں کو جانوروں سے بھی بد تر سمجھتی ہو‘ تہذیب یافتہ قوموں کے لیے کیسے قابلِ قبول ہو سکتا ہے؟
17 ستمبر 1950 کو شمالی گجرات (انڈیا) کے گائوں وید نگر کے ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے نریندر مودی کا باپ تیلی تھا۔ وہ دیہات کی گلیوں میں پھیری لگا کر سرسوں کا تیل بیچتا تھا۔ گھر میں مفلسی کا راج تھا؛ چنانچہ اخراجات پورے کرنے کیلئے مودی سکول سے چھٹی ہونے کے بعد اپنے بڑے بھائی کے ساتھ گائوں سے کچھ فاصلے پر واقع بس سٹاپ پر چائے بنا کر بیچا کرتا تھا۔ مودی کے سکول ریکارڈ کے مطابق وہ ایک عام سے ذہن کا طالب علم تھا؛ البتہ ڈراموں اور تقریری مقابلوں میں اس کی کارکردگی بہترین ہوتی تھی اور یہی اداکاری‘ ناٹک بازی اور تقریری تجربہ اسے پہلے وزیر اعلیٰ اور پھر وزیر اعظم کی مسند تک لانے میں معاون بنا۔ 13 سال کی عمر میں ہی نریندر مودی کو انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کی ذیلی طلبا تنظیم ''اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘‘ میں شامل کر لیا گیا تھا۔ جیسے ہی وہ مڈل سکول تک پہنچا تو راشٹریہ سیوک سنگھ نے اسے اپنی باقاعدہ رکنیت دیتے ہوئے اپنے پروپیگنڈا سیل میں شامل کر لیا‘ جہاں اسے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کرنے اور ہندو ازم کے پمفلٹ تقسیم کرنے کا فرض سونپ دیا گیا۔ نریندر مودی جب 18 سال کا ہوا تو اس کے گھر والوں نے اس کی شادی کر دی لیکن وہ شادی کے صرف تین ماہ بعد ہی اپنی نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر گھر سے بھاگ گیا۔ سسرال کی بڑی عورتوں اور گائوں کے لڑکوں اور مردوں کے روز روز کے طعنوں سے بھاگ کر وہ راجکوٹ میں رام کشن مشن میں شامل ہو گیا۔ کچھ عرصہ راجکوٹ میں رہنے کے بعد اس نے 1970 میں Belur Math مغربی بنگال کو اپنا ٹھکانہ بنایا اور کوئی دو سال یہاں رہنے کے بعد پھر ہمالیہ میں آر ایس ایس کے زیر زمین کیمپوں میں جا بسا‘ جہاں اسے سخت گوریلا ٹریننگ کے مراحل سے گزارا گیا۔ نریندر مودی مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کی شکل میں پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا کارروائیوں میں شامل رہا۔ اپنی چند تقریروں میں وہ اس طرف اشارہ بھی کر چکا ہے کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی میں ہم سب (آر ایس ایس والوں) کا کوئی نہ کوئی حصہ ہے۔ نریندر مودی نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کے حوالے سے آر ایس ایس کیلئے انتہائی مشکل اور اہم ترین خدمات انجام دیں۔ اس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آر ایس ایس نے اسے ہمالیہ سے نئی دہلی بھجوا دیا۔ نریندر مودی کی زندگی کے یہ پانچ سال جو اس نے مغربی بنگال اور ہمالیہ میں گزارے انتہائی پراسرار سمجھے جاتے ہیں کیونکہ مشہور ہے کہ ان پانچ سالوں میں اس نے گوریلا جنگ کی مہارت حاصل کرنے کے بعد راشٹریہ سیوک سنگھ کی ہدایات پر کیرالہ، آسام، پنجاب، مہاراشٹر، بہار اور اتر پردیش میں سکھ، عیسائی اور مسلم کمیونٹی کے خلاف دہشت گردی کے بہت سے خطرناک مشن مکمل کئے اور ان خدمات کی وجہ سے اسے آر ایس ایس کی سیکرٹ سنٹرل کمیٹی کا رکن بنا دیا گیا۔ 1974 میں ایک دن اچانک نریندر مودی نئی دہلی جا پہنچا لیکن اندرا گاندھی کی جانب سے ایمرجنسی کا نفاذ ہوتے ہی سب سے پہلے ان کی سرکار نے آر ایس ایس پر پابندیاں عائد کر دیں‘ جس سے اس انتہا پسند ہندو تنظیم کے دوسرے کئی لوگوں کی طرح نریندر مودی کو بھی 1975-77 کے عرصے میں انڈر گرائونڈ جانا پڑ گیا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد جب حالات معمول پر آنے لگے تو نریندر مودی کو دہلی یونیورسٹی میں داخل کرا دیا گیا‘ جہاں سے اس نے پولیٹیکل سائنس میںگریجوایشن اور پھر 1983 میں گجرات یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔
راشٹریہ سیوک سنگھ کیلئے اس کی انجام دی جانے والی خطرناک مہمات اور سونپے جانے والے انتہائی خفیہ مشنوں میں اس کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے 1987 میں نریندر مودی کو آر ایس ایس کا آرگنائزنگ سیکرٹری اور پھر 1995 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا سیکرٹری نامزد کر دیا گیا۔ 1998 میں نریندر مودی کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنا مرکزی سیکرٹری اور پھر صرف تین سال بعد 2001 میں گجرات اسمبلی کے انتخابات جیتنے کے بعد گجرات کے وزیر اعلیٰ کیلے اپنا امیدوار نامزد کر دیا۔ گجرات کی وزارت اعلیٰ سنبھالنے کے ایک سال بعد 2002 میں مودی نے اپنی نگرانی میں مسلمانوں کے خلاف گجرات کے بدنام زمانہ فسادات کروا کر تین ہزار سے زائد مسلمان بچوں، عورتوں اور مردوں کا قتل عام کرایا تھا۔ ان فسادات نے اسے ہندو ذہنیت کا بھگوان بنا دیا اور اسی انتہا پسندی کی آگ نے 2014 میں اسے بھارت کے وزیر اعظم کی مسند پر لا بٹھایا۔ یہ حقیقت ہے کہ گجرات کے فسادات نہ کرائے جاتے تو مودی کبھی بھی بھارت کی انتہا پسندانہ ہندو سوچ کے بل بوتے پر ایل کے ایڈوانی کی جگہ وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد نہ ہوتا۔
اندرا گاندھی نے جب ایمرجنسی کا نفاذ کیا تھا تو نریندر مودی نے آر ایس ایس کے ساتھیوں کے ہمراہ زیر زمین سرگرمیاں شروع کر دیں تھیں۔ ''ایمرجنسی ان گجرات‘‘ کے عنوان سے اس نے کتاب بھی لکھی‘ لیکن ان دنوں کشمیر میں مودی کی بربریت اور نازی ازم جیسی بد ترین ایمرجنسی اور کرفیو پر کل کو لکھی جانے والی کسی کتاب کیلئے تاریخ اپنا ریکارڈ محفوظ کر رہی ہے۔ (جاری)