"MABC" (space) message & send to 7575

راشٹریہ سیوک سنگھ کا آتنک وادی …(2)

نریندر مودی نے کچھ نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی حیثیت کسی عام سے شاعر کی شاعری سے زیادہ نہیں۔ امیت شاہ‘ جسے پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کا جنرل سیکرٹری بعد میں صدر اور اب بھارت کے وزیر داخلہ جیسی انتہائی اہم ذمہ داری سونپ دی گئی ہے‘ وہ شخص ہے جس نے نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں گجرات کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے 2002 سے 2006 کے دوران یعنی چار برسوں میں 22 جعلی پولیس مقابلے کرائے تھے۔ 2004 میں عشرت جہاں اور اس کے تین ساتھیوں کو پاکستان کے جاسوس ظاہر کرتے ہوئے دن دہاڑے قتل کرانے کے واقعہ کی جب تحقیقات ہوئیں تو سپریم کورٹ کے حکم سے 2010 میں اسے وزارت داخلہ سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ اب یہ دونوں بھارتی حکومت کا حصہ ہیں تو نا جانے اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ بھارت میں ہجوم کی جانب سے اقلیتوں خصوصی طور پر مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ مودی حکومت میں پہلے کی نسبت تیز ہو چکا ہے۔ آر ایس ایس میں نریندر مودی کے ان ساتھیوں‘ جو آج اس کی حکومت میں اعلیٰ اور حساس عہدوں پر فائض ہیں‘ کی منصوبہ بندی کے تحت ہی گودھرا کے ریلوے سٹیشن پر ٹرین کی بوگیوں کو آگ لگانے کے بعد ہندوئوں میں پوری منصوبہ بندی سے اشتعال پھیلایا گیا اور پھر گجرات میں وہ خوفناک اور بد ترین ہندو مسلم فسادات کرائے گئے جن کی وجہ سے آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی نفرت کی آگ نے نریندر مودی کو مسلم دشمنی کا سرخیل بنا دیا۔ نریندر مودی کی اسی ''کارکردگی‘‘ کے نتیجے میں اسے ایک بار پھر اگلی ٹرم کے گجرات اسمبلی کے انتخابات میں واضح کامیابی دلا کر دوسری مرتبہ وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ گجرات میں مسلم کش فسادات کی وجہ سے امریکہ نے مودی کے اپنے ہاں داخلے پر پابندی عاید کر رکھی تھی۔ اب انتہا پسندانہ ذہنیت والے ہندو لیڈر ایک بار پھر مودی حکومت میں جمع ہو رہے ہیں۔ اگر نریندر مودی کی بطور وزیر اعلیٰ گجرات اور پھر بطور وزیر اعظم بھارت کی جانے والی تقریریں سنیں تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اس کے اندازِ بیان میں وہی الفاظ اور لہجہ ابل رہا ہے جو راشٹریہ سیوک سنگھ کی پہچان چلی آ رہی ہے۔
جیسا کہ پہلی قسط میں بیان کر چکا ہوں‘ نریندر مودی کی اٹھارہ سال کی عمر میں شادی کر دی گئی تھی‘ لیکن وہ اپنی بیوی جاشودہ سے علیحدہ ہی رہا۔ جتنا عرصہ وہ گجرات کا وزیر اعلیٰ رہا نہ تو مودی نے اپنے ریکارڈ یا کاغذات میں اپنی بیوی کا ذکر کیا‘ اور نہ ہی اس کی بیوی کبھی اس کے ساتھ وزیر اعلیٰ ہائوس میں اس کے ساتھ رہی‘ لیکن جب نریندر مودی نے وزیر اعظم بھارت کا عہدہ سنبھالا تو پھر اس کی بیوی جاشودہ کا گجرات سرکار کو خط ملا کہ اسے سکیورٹی فراہم کی جائے۔ مودی کی بیوی کے حوالے سے میڈیا جب اس تک پہنچا‘ جو ایک پرائمری سکول کی ٹیچر تھی‘ تو ہی مودی کی بھولی بسری بیوی کا نام شہ سرخیوں کا موضوع بنا۔ نریندر مودی کے خواتین سے راہ و رسم اور کسی بھی قسم کے تعلقات کی بات کی جائے تو پھر ایک نام فوراً ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ نریندر مودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ اعتماد نندی پٹیل پر کرتے ہیں۔ وہ تین مرتبہ گجرات اسمبلی کی متواتر رکن منتخب ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ نریندر مودی جب وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچا تو اسی نندی پٹیل کو اپنی جگہ گجرات کی وزارت اعلیٰ کا منصب سونپنا مناسب سمجھا۔ 
نریندر مودی کے بچپن کے دوستوں اور ارد گرد کے دیہات کے با اثر لوگوں اور وید نگر کے بوڑھے مردوں اور عورتوں سے جب میڈیا کے کچھ لوگوں نے رابطے کئے تو اکثر نے مودی کی طاقت اور عہدے کی وجہ سے خاموشی اختیار کئے رکھی‘ لیکن چند بہت ہی ضعیف‘ غریب ترین عورتوں نے مودی کے بارے میں بہت سی باتیں بتا دیں‘ جن سے پتا چلتا ہے کہ مودی کس ذہنیت کا آدمی ہے۔ نریندر مودی کو مغربی ممالک کی تیار کی ہوئی نایاب اور انتہائی قیمتی گھڑیوں کا بہت شوق ہے۔ جب اس نے نئی دہلی میں اپنی پہلی بار حلف برداری کی تقریب میں ہونے والی ملاقات میں میاں نواز شریف کے ہاتھ پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھی تو کافی دیر تک اس گھڑی کو دیکھ کر اس کی تعریفیں کرتا رہا۔
نریندر مودی ظاہری طور پر اپنے امیج کو بہتر بنانے کے لیے جو بھی انداز اور الفاظ اختیار کرے لیکن اپنی نجی محفلوں میں وہ انتہائی قدامت پسند اور خاص طور پر خواتین اور اپنی فیملی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سخت رویہ روا رکھتا ہے۔ جو باتیں وہ اپنی ان محفلوں میں کرتا ہے اس کی اگر بھنک بھی باہر چلی جائے تو دنیا بھر میں بھارت کا روشن چہرہ گہنا کر رہ جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے اندر سے انتہا پسند ہندتوا نکلنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ نریندر مودی میں نسل پرستی اور مذہبی منافرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ گجرات اسمبلی کے تینوں انتخابات کو سامنے رکھیں تو ہر الیکشن میں کامیابی کیلئے مودی نے Communal politics کا نسخہ ہی آزما کر کامیابیاں سمیٹیں۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کے اثرات اس کی ذاتی زندگی پر اس حد تک مرتب ہو چکے ہیں کہ کانگریس سمیت بھارت کی تمام اپوزیشن جماعتیں اسے ''راشٹریہ پرچارک‘‘ کے نام سے پکارنا شروع ہو گئی ہیں۔ سوامی ویوک نند کی تعلیمات نریندر مودی کے دل پر نقش ہو چکی ہیں‘ جس کی Vedanta ہندو فلاسفی اور یوگا نے مغربی دنیا کو ہندو ازم کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکی عوام نے امریکہ کی مختلف ریاستوں میں اس کی ہندو فلاسفی کے لیکچروں سے متاثرہ سینکڑوں کی تعداد میں امریکیوں کو سوامی ویوک نند کی نگرانی میں یوگا کی مشقیں کرتے دیکھا ہو گا۔
نریندر مودی کی ایک بات جو اسے دنیا کے اسی فیصد سربراہان سے منفرد کرتی ہے وہ ہر صبح اٹھتے ہی انٹرنیٹ کا باقاعدہ استعمال ہے۔ اس کے بعد وہ ان تمام اخبارات کے وہ تراشے عمیق نظروں سے دیکھتا ہے جن میں ملکی اور بین الاقوامی پالیسیوں اور اس کی حکومت کے کسی اہلکار پر تنقید کی گئی ہوتی ہے۔ نریندر مودی ایک بہترین ماڈل کی طرح اداکاری کرتا ہوا سیاست کے ریمپ پر واک کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ اپنی تصویروں کا اسے اس حد تک خیال ہوتا ہے کہ وزارت اطلاعات کی جانب سے اپنی کسی بھی کوریج کیلئے تیار کی جانے والی تصاویر کو خود دیکھنے کے بعد فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی تصویر میڈیا کو جاری کی جانی چاہیے اور کون سی جاری نہیں کی جانی چاہیے۔ ممکن ہے یہ سن کر آپ حیران ہوں کہ نریندر مودی کی جیب میں ہر وقت آپ کو سیاہ رنگ کی ایک کنگھی ملے گی جس سے وہ کسی بھی تقریب یا میٹنگ میں آتے جاتے ہوئے بال درست کرنا نہیں بھولتا۔ پتا نہیں یہ کوئی ٹوٹکا ہے یا کوئی جادو گنڈا۔ نریندر مودی جس گاڑی میں بھی سفر کرتے ہیں اپنے ساتھ آدھی درجن کے قریب چادریں ضرور رکھتے ہیں اور ان کا خدمات گار اس سلسلے میں خصوصی خیال رکھتا ہے اور سکول کے زمانے میں اداکاری کا ماہر نریندر مودی یہ تمام چادریں ایک ہی قیمت کی نہیں رکھتا بلکہ مختلف معیار کی ہوتی ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ جس قسم کی تقریب میں اس نے شرکت کرنا ہوتی ہے اسی طرح کے لوگوں کو دیکھ کر چادر گاڑی سے اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ لیتا ہے یعنی گر گٹ کی طرح رنگ بدلنا اس کی خصلت میں شامل ہے۔
جموں و کشمیر کی بات کی جائے تو اس ریاست کو خصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی باتیں نریندر مودی اکثر کرتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ 2014 اور پھر امسال 2019 میں اس آرٹیکل کو ختم کرنا اس کی انتخابی مہم کے منشور کا حصہ رہا ہے۔ مودی نے 2014 تا 2019 بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں امن اور سکون پیدا نہیں ہونے دیا تھا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کے اس آتنک وادی نے نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ اس پورے خطے کو ایک خوفناک صورتحال سے دوچار کر دیا ہے‘ لیکن وہ یہ بات بھول رہا ہے کہ جبر سے کبھی کوئی کسی کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکا۔ آج نہیں تو کل جموں و کشمیر کے لوگ خود پر ہونے والے مظالم کا بدلہ راشٹریہ سیوک سنگھ کے اس آتنک وادی سے ضرور لیں گے۔ (ختم)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں