"MABC" (space) message & send to 7575

امریکہ‘ ٹرمپ اور تنازع کشمیر

دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور‘ جس کا دھوم مچاتا ہوا پینٹا گان‘ ہوائوں اور فضائوں میں شور مچاتی ہوئی سیٹیلائٹس‘ زمینی‘ بحری اور فضائی ٹیکنالوجی کا ادارہ ‘ خفیہ کارروائیوں سے تہلکہ مچا دینے والی سی آئی اے اور ایف بی آئی اور دنیا بھر کی حکومتیں الٹا کر اپنی مرضی اور خواہش کے مطا بق‘ تشکیل دینے والا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور ریپبلکن جیسی سیاسی جماعت ‘جو سوویت یونین جیسی دنیا کی دوسری بڑی طاقت کو ٹکڑوں میں تقسیم کر نے کا دعویٰ کرتی ہے ۔اور وہ امریکہ جو کل تک دنیا کی معاشی اور سیا سی پالیسیاں تشکیل دیا کرتا تھا‘ وہ امریکہ جو اپنے کسی بھی گستاخ کو دنیا کے کسی بھی کونے سے اٹھا کر لے آیا کرتا تھا۔ وہ امریکہ جو اپنے ایک حکم سے کسی بھی ملک کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے وسائل اور دولت کو منجمد کروا دیتا ہے ‘اس امریکہ کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ آنے والے انتخابات میں اپنی کامیابی کیلئے دنیا کی انتہا پسند ہندو جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس )کے ووٹرز کا محتاج ہو گیا۔ امریکہ کا وہ صدر جو دنیا بھرکی قوموں کی قسمت کے فیصلہ کیا کرتا تھا ‘وہ صدر ایک ایسے شخص کی آنکھ کے اشارے کا محتاج ہو گیا‘ جسے ''گجرات کے قصاب‘‘ کے نام سے سینکڑوں مسلمانوں کا قتل ِعام کرنے پر اسی امریکہ نے اپنے ملک کا ویزہ یہ کہتے ہوئے دینے سے انکار کر دیا تھا کہ ایسا شخص ‘جس کے ہاتھ معصوم بچوں اور عورتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہوں‘ ایسے شخص کو جو گجرات کے ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کی بربریت سے بچنے کیلئے بیکری میں پناہ لئے260 مسلمانوں کو زندہ جلاکر قہقہے لگا تا رہا‘ اسے امریکہ کیسے انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کیلئے اپنی حدود داخل میںہونے کی اجا زت دے سکتا ہے؟ 
کرۂ ارض کے ایک نئے ہٹلر اور نئی نازی پارٹی کی جانشین نریندر مودی کے سامنے امریکہ کا طاقتور صدر ایسے بھیکی بلی بنا رہا‘ جیسے جیتا جاگتا انسان نہیں ‘بلکہ کوئی روبوٹ ہو۔کیا امریکہ کا کوئی شہری کوئی جنرل اور ڈپلومیٹ اس کی کسی بھی ایجنسی کا چیف یا ڈائریکٹر تو دور کی بات ہے‘ کوئی امریکی شہری ‘دنیا کے کسی ہوائی مستقر پر اپنے سامنے کھڑے شخص کے سامنے سر اٹھا کر بات کر سکے گا؟ جب ان میں سے کسی ایک کو آئینہ دکھاتے ہوئے بتایا جائے گا کہ یہ دیکھو تمہاری حالت اب یہ ہو چکی ہے کہ تمہارے ملک(امریکہ) جس کا تم نے پاسپورٹ اٹھایا ہوا ہے‘ اس امریکہ کی قسمت کے فیصلے اب امریکی عوام نہیں‘ بلکہ اس سے ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھے انتہا پسند آر ایس ایس جیسی تنظیم کے دہشت گرد کریں گے؟
امریکی صدر نے ہیوسٹن کی جلسہ گاہ میں پچاس ہزار انتہا پسند ہندوئوں کو خوش کرنے کیلئے اﷲ کے پسندیدہ دین ِاسلام پر دہشت گرد کا الزام لگاکر انتہا پسندوں کی ہمدردیاں تو سمیٹ لیں ‘لیکن یہ نہ دیکھ سکا کہ دنیا بھر میں بسنے والے ایک ارب سے زائد مسلمانوں تک یہ پیغام پہنچا کہ ان کا دین اسلامRadical ہے؟( نعوذ باﷲ )۔
کس قدر بد قسمتی ہے کہ سوا ارب سے زائد مسلمانوں میں سے صرف دو اسلامی ریاستوں ترکی اور پاکستان نے امریکہ کی ہی سر زمین پر کھڑے ہوکر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی ہرزہ سرائی پر جنونیوں کی طرح تالیاں پیٹنے والے کو للکارتے ہوئے کہا :اسلام امن‘ بھائی چارے اور پیار و احترام کا درس دینے والا سب سے عظیم مذہب ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیکساس ہیوسٹن میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے انتہا پسندوں کے جلسہ عام شرکت‘ اقوام متحدہ کے قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے ۔ مسلمانوں کے دین ِاسلام کے متعلق توہین آمیز کلمات کہنے پر انہوں نے سخت ترین الفاظ میں احتجاج کرتے ہوئے‘ ٹرمپ سے اپنے الفاظ پر معذرت کرنے اور انہیں واپس لینے کا کہا اور ان کی اس باہمی ملاقات کے دوران ان دونوں رہنمائوں کے درمیان اس مسئلہ پر پیدا ہونے والی تلخی سے کچھ ایسے اندیشے جنم لینا شروع ہو چکے‘ جو ہو سکتا ہے کہ کل کسی بھی مرحلے پر کوئی اور رخ اختیار کر لیں اور اب تک جو اطلاعات اور اشارے موصول ہوئے ہیں‘ اس سے مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی دقت محسوس نہیں ہو رہی کہ ٹرمپ ‘عمران ملاقات ناکام ہو چکی اور اس کی وجہ وزیر اعظم عمران خان اور ٹرمپ میں کچھ سخت الفاظ کا تبادلہ ہونا ہے۔
یقینا آپ حیران ہو سکتے ہیں‘ کیونکہ امریکی صدر ٹرمپ نے یہ ملاقات ختم ہونے کے بعد میڈیا کے سامنے وزیر اعظم عمران خان کو اچھادوست ‘ایک عظیم ایتھلیٹ اور بہترین وزیر اعظم کہا اوراتنی تعریفوں کے بعد کیسے یقین کیا جا سکتا ہے کہ دونوں رہنمائوں میں سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ہو گا؟ لیکن میری اس خبر کو ایک مفروضہ سمجھتے ہوئے فی الحال اسے سچ سمجھ لیجئے کہ ایسا ہو چکا اور وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر کے اس حصے پر سخت احتجاج بھی کیا اور اسی احتجاج کا نتیجہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو معذرت خواہانہ انداز میں کہنا پڑا کہ ان کا مطلب پاکستان نہیں ‘بلکہ یہ تھا کہ ایران دہشت گرد ہے۔کیا کسی عام سی سوچ اور عقل رکھنے والے آدمی کی سمجھ میں ٹرمپ کے یہ فقرے سن کر ہنسی نہیں آئی ہو گی کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان ا ور بھارت کے درمیان ثالثی کرانے کیلئے تیار ہے ‘لیکن اس کیلئے ضروری ہو گا کہ پہلے دونوں فریق اس ثالثی کیلئے تیار ہوںاور دوسرا فریق ثانی ‘جو مودی کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے ‘جو راشٹریہ سیوک سنگھ کا بنیادی رکن ہے‘ وہ کشمیر پر ثالثی کا اختیار دینے کی ہمت اور جرأت کر سکتا ہے؟
امریکی صدرٹرمپ نے اقوام عالم سمیت اپنی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ امریکہ سپر پاور ہونے کے ناتے کشمیر کے72 برسوں سے سلگتے ہوئے مسئلے کو حل کرتے ہوئے دو ایٹمی قوتیں جو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں‘ ان میں تنائو کم کر نے کی کوشش کر رہا ہے ‘ لیکن زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ یہ سب غلط ہے ‘کیونکہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر کیلئے سنجیدہ ہوتے ‘اگر وہ اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے وقت تک پچاس دنوں سے محصور ایک کروڑ کے قریب کشمیریوں کیلئے ہمدردی کی ذرا سی بھی رمق رکھتے ‘اگر وہ نسلی اور مذہبی تعصب کی عینک اتارتے ہوئے ایک کروڑبنی نوع انسان کی بھوک اور پیاس سے بلکتی ہوئی آوازیں سنتے‘ اگر وہ انسانی حقوق کا ذرا سا بھی حترام رکھتے‘ تو جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں '' ایک کروڑ بوڑھوں‘ بچوں ‘عورتوں کو پچاس دن کی جبری قید کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ‘لیکن وہ جو خود اپنی کرسی کیلئے کئی لاکھ انتہا پسند ہند ووٹرز کا محتاج ہو‘ اس کیلئے خون ِمسلم ارزاں کیوں نہ ہو؟ 
شاید کسی کو یاد رہ گیا ہو کہ کچھ برس پہلے ٹرمپ نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان بھی ثالثی کی پیشکش کی تھی اوریہ ثالثی اس طرح ادا کی کہ دنیا واہ واہ کرتے ہوئے دنگ رہ گئی اور ٹرمپ کی ثالثی کا دیا گیا یہ فیصلہ دیکھنے اور سننے کے بعد ایسا لگا امریکہ اور فلسطین فریق تھے اور ثالثی کا کردار اسرائیل نے ادا کیا ہے۔ ٹرمپ نے ثالثی نہیں ‘بلکہ فلسطینیوںکی پیٹھ میں نہیں‘بلکہ دل میں خنجر گھونپتے ہوئے نا صرف تل ابیب میں امریکی سفارتخانہ قائم کرنے کاا علان کر دیا‘ بلکہ شام کی گولان ہائٹس پر اسرائیل کے1967 ء میں کئے گئے غاصبانہ قبضے کو جائز قرار دیتے ہوئے ثالثی کے زہر میں بھجا ہوا خنجرصرف فلسطینیوں کے کلیجے میں ہی نہیں اتارا ‘بلکہ شام کی گولان ہائٹس بھی چھین کر اسرائیل کے سپرد کر دیں۔ اب‘ ایک لمحے کیلئے سوچئے کہ کل کو ثالث کا فریضہ ادا کرتے ہوئے‘ امریکہ اگر یہ فیصلہ کر دے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا قانونی حصہ رہے گا تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں؟اس لئے ٹرمپ کی ثالثی قبول کرنے سے پہلے سب سے پہلے اس ثالثی کا ایجنڈہ طے کرنا ہوگا‘ لہٰذا خود ہی فیصلہ کر لیجئے کہ72 برسوں سے ایک لاکھ کشمیری مردوں اور عورتوں کی قربانیوں کو ٹرمپ جیسے لا ابالی شخص کے سپر دکرنا کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں