مولانا فضل الرحمن کا اسلام آباد میں'' مدرسوں کے دس لاکھ طلبا پر مشتمل‘‘ وہ دھرنا جو اِن کے الٹی میٹم کے مطا بق اکتوبر میں دیا جا نے والا تھا‘ اب کسی خاص شخصیت کے کہنے پر نومبر میں اس وقت دیا جائے گا جب عمران خان کرتار پور راہداری کا افتتاح کریں گے اور با با گرو نانک جی کی550 ویں ولادت کا جشن منانے کیلئے بھارت اور دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں پاکستان پہنچنے والے سکھوں کو خوش آمدید کہنے کی تیا ریاں کی جا رہی ہوں گی۔ اب مزید تفصیل میں جانے یا کچھ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ دھرنا نومبر میں کس کے کہنے پر دیا جائے گا؟ راء کرتار پور راہداری کو لپیٹنے کے ساتھ ساتھ ا ٓزادیٔ کشمیر کی تحریک کو نیا رخ دینے کیلئے بھی سر گرم ہو چکی ہے اور اس کے نظارے ہم سب کے سامنے ان الفاظ اور تقریروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے آنا شروع ہو گئے ہیں کہ آزادیٔ کشمیر کی ریلیوں میں پاکستان کا نہیں آزاد کشمیر کا پرچم لانا ہو گا۔یاد رکھئے گا یہ تھوڑی سی میٹھی گولی ابھی آغاز ہے تاکہ اس اصطلاح سے کہیں لوگ بدک نہ جائیں یا ان کا ہاضمہ خراب نہ ہو جائے ۔
برہان الدین وانی کی شہا دت سے اب تک مقبوضہ کشمیر کی ہر گلی‘ ہر سڑک ہر بازار میں کفار کی فوج کے خلاف سروں پر کفن باندھنے والوں کے ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم اور زبان سے'' کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند ہوتا رہا ہے اور یہ نعرہ بھارتی فوج کے زیر قبضہ کشمیر کی وادیوں سمیت جموں اور کارگل کی گلیوں اور بازاروں میںآج بھی دنیا کو سنائی دے رہا ہے۔ بوڑھا اور استقامت کا پہاڑ سید علی گیلانی اپنی پہلی تقریر سے اب تک ایک ہی نعرہ لگاتاچلا آ رہا ہے '' کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔ بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل370 کو قلا بازی دے کر جب مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کرتے ہوئے چھ لاکھ سے زائد فوج کے با وجود مزید چالیس ہزار مسلح جوان وہاں کی گلیوں‘ چوکوں اور دروازوں پر تعینات کر دیئے ہیں تو کرفیو کے با وجود تب بھی کشمیر کے ہر بند دروازے سے ایک ہی آواز مسلسل سنائی دیتی چلی آ رہی ہے '' کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔بھارتی فوج کی مشین گنوں اور پیلٹ گنوں سے نکلنے والی گولیوں اور کارتوسوں کی بوچھاڑ اپنے چہروں اور جسمو ں پر سہنے والوں کے ہاتھوں میں پاکستان کا پرچم ہی تھا ۔پھر نہ جانے یکا یک کیا ہوا کہ ایک اہم سیاسی شخصیت نے نعرے لگوانے شروع کر دیئے کہ ہم ایک آزاد اور خود مختار کشمیر کی بات کرتے ہیں‘ اور اس کی ابتدا انہوں نے لندن سے اس طرح کرائی کہ جیسے ہی سکھ‘ کشمیری اور پاکستانی مظاہرین انڈین ہائی کمیشن کے سامنے پاکستانی پرچم لے کر پہنچے تو ایک شخص نہ جانے کہاں سے آیا اور اس نے کہا کہ ہم کشمیری تو ایک آزاد کشمیر چاہتے ہیں ۔ وہاں جھگڑا ہونے سے مجمع اکٹھا ہو گیا‘ جس پر لوگوں نے اس شر پسند کو وہاں سے بھگا دیا‘ لیکن اس نے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر ویڈیو فلم بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر تے ہوئے یہ کہانی بیان کرنی شروع کر دی ۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان جب آزاد کشمیر اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب کے بعد وہاں سے روانہ ہوگئے تووزیر اعظم آزاد کشمیر کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ہم کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے نہیں لگائیں گے بلکہ علیحدہ کشمیر کی بات کرتے ہیں۔ ایسا کہتے ہوئے یہ لوگ شاید بھول گئے ہیں کہ شہید برہان الدین وانی کے ہاتھوں میں ہمیشہ پاکستان کا پرچم رہا۔ شہید وانی نے ہمیشہ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ ہی لگایا‘ ان کے ساتھی شہدا نے سری نگر‘ پلوامہ ‘ کپواڑہ‘ جموں کی سڑکوں پر پاکستان کا پرچم ہی تھامتے ہوئے جام شہا دت نوش کیا تھا۔ شہید مدثر احمد پارے کو تو یہ لوگ جانتے ہی نہیں ہوں گے‘ جس نے گیارہ دسمبر2018ء کو بھارتی فوج کے خصوصی دستے سے سری نگر کے نواح میں مقابلہ کرتے ہوئے شہادت پائی تو اس کے سینے پر پاکستانی پرچم لپٹا ہوا تھا۔آج بھارت کی زبان میںکچھ لوگ نہ جانے کون سی خفیہ طاقتوں کے ایجنڈوں کی تکمیل کیلئے کشمیریوں کے ہاتھوں میں تھامے ہوئے پاکستانی پرچم اور ان کے دلوں میںبسنے والے پاکستان کے عشق کو ختم کرنے کیلئے پاکستانی پرچم کو کشمیری حریت پسندوں کے ہاتھوں میں دیکھنے کی بجائے اسے لپیٹنے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔
نریندر مودی اور آر ایس ایس کی زبان بولنے والوںکو تو علم ہی نہیں ہے کہ شہیدِ کشمیر مدثر پارے کی شہا دت کے وقت کتنی عمر تھی؟ مدثر پارے شہادت کے وقت نویں کلاس کا طالب علم تھا اور جب وہ کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتا ہوا شہید ہوا تو اس وقت اس کی عمر چودہ برس تھی۔ کشمیریوں کو پاکستان سے بد ظن کرنے والو‘ کشمیر کا سودا کر نے جیسے غلیظ جھوٹ اور پراپیگنڈے سے کشمیریوں کی ہمت توڑنے والو‘ کسی ماں سے جا کر پوچھو کہ چودہ برس کا بچہ اس کی ممتا کیلئے کیا ہوتا ہے؟اور جا کر دیکھو کہ وہ کیسی ماں تھی جس نے اپنے چودہ بر س کے نو عمر بیٹے کے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم اور زبان پر کشمیر بنے گا پاکستان کا ورد کرتے ہوئے اسے جہاد کیلئے بھیجا تھا؟ ان جیسی ہزاروں مائوں پر کیا گزرے گی جب ان کے کانوں میں راء کے ایجنٹوں کی یہ نئی آواز پڑے گی۔ وہ تمام مائیں ‘ بہنیں‘ بیٹیاں جو آج بھارتی مشین گنوں کے سامنے کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتی ہوئی اپنی جانیں قربان کر رہی ہیں‘ جن کے بیٹوں‘ بیٹیوں کو ان کے گھروں ‘ بازاروں ‘ سکولوں اور کالجوں سے بھارتی فوج کے وحشی درندے زبردستی اٹھا کر لے جا رہے ہیں اور جب راء کی یہ نئی آواز ان کو سنائی دے گی تو کیا بھارتی درندوں کے خلاف سخت مزاحمت کرتے ان کے جسم سن نہیں ہوجائیں گے؟
دس سال تک مسلسل کشمیر کمیٹی کا چیئر مین رہنے والے مولانا فضل الرحمن انتخابات میں اپنی ناکامی پر آگ کا گولہ ہو چکے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس ملک کے ساتھ کیا ہوتا ہے‘ وہ عمران خان کے خلاف بھڑکنے والی آتشِ انتقام میں اس قدر بے خبر ہو چکے ہیں کہ وہ کرتار پور راہداری اور سکھوں کے ایشو پر راء اور بھارت کی ترجمانی پر اتر چکے ہیں ۔ان کی ایک نہیں گزشتہ پندرہ دنوں میں دس سے زیادہ تقریریں وہ الفاظ لئے ہوئے ہیں جو نریندر مودی اور امیت شاہ لیتے ہوئے اس لئے گھبراتے تھے کہ کہیں سکھ برا نہ مان جائیں۔کیا پاکستان کی کسی سیا سی شخصیت کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ'' اگر تم لوگ سکھوں کیلئے راہداری کھولو گے تو وہ سند ھیوں کیلئے راجستھان سے اور افغانستان بلوچوں کیلئے راہداری کھول دے گا۔جب سے کرتار پور راہداری کا عمران خان نے افتتاح کیا ہے یہ بات تو نریندر مودی اور راج ناتھ نے بھی نہیں کہی تھی۔ کیا مولانا صاحب کو اس بات کا دکھ ہونے لگا ہے کہ کرتار پور راہداری کھلنے سے سکھ پاکستان کے قریب آنے لگیں گے؟یہ کس کی زبان ہے؟ ذرا سوچئے تو سہی!ایسے مواقع پر اس قسم کی باتیں کرنے کا مقصد بظاہر یہی ہو سکتا ہے کہ قوم کی یکسو ئی کو منتشر کیا جائے۔ مگر کبھی سوچا کہ یہ کس کی ذہنیت ہے؟ دشمن کی‘ جو سب کا مشترکہ ہے۔ جو کسی گروہ‘ تنظیم یا جماعت کا دشمن نہیں ‘ پاکستان کا اور اس قوم کا دشمن ہے۔ دانشمندی کا ثبوت دیں اور دشمن کے ہاتھ میں استعمال ہونے سے محتاط رہیں۔