"MABC" (space) message & send to 7575

یہ لوگ اور ادارے

کچھ فطری قوانین کڑوے ضرور لگتے ہیں لیکن سچائی اور حقیقت کی زبان سمجھے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پراگر کھیت میں بیج نہ بویا جائے تو قدرت اس کھیت کو گھاس پھونس سے بھر دیتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص‘ کسی کھلاڑی‘ کسی سپاہی یا ملک کے کسی بھی ادارے کی ا چھی کار کردگی اور ایمانی قوت کے ساتھ مظلوم کی داد رسی کرنے والوں کو اچھے الفاظ اور اچھے القاب سے نہ پکارا جائے تو کج فکری ‘ اقربا پروری‘ بد دیانتی اور لوٹ مار اُس ملک کو اپنا مسکن بنا لیتی ہے ‘اورجہاں بد دیانتی اور لوٹ مار کا مسکن ہو گا‘ جہاں کرپشن کے محلات سر اٹھائیںگے وہ ملک‘ وہ معاشرہ دیمک زدہ درخت سے بھی زیا دہ کھوکھلا ہو جایا کرتا ہے۔ دیکھنے میں تو ایسا معاشرہ اور ملک قائم دکھائی دیتا ہے‘ لیکن اصل میں چند اٹکی ہوئی سانسیں اس کے کمزور اور نڈھال جسم کو لئے پھرتی ہیں ۔ 
اﷲ کے نزدیک بہترین انسان وہ ہے جس کا وجود دوسروں کیلئے فائدہ مند ہو۔ ایسے لوگ ماہر طب‘ سائنسدان‘ عالم اور فنی تعلیم کے ماہر ہوں یا قومی اداروں کے ذمہ دار‘ ہمیشہ اچھے لفظوں کے ساتھ یاد کئے جاتے ہیں‘ لیکن نہ جانے ہمارے ملک میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟بلکہ یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جو اس ملک کے مجبور‘ بے بس اور غریب‘ فریب خوردہ‘مافیا کے ہاتھوں ڈسے ہوئے لوگوں کے سروں پر ہاتھ رکھتا اور ظالم مافیا کو قانون کے کٹہرے میں لا تا ہے‘ اسے نشانے پر لیتے ہوئے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ''سٹیٹس کو‘‘ سے مت ٹکرائے‘ کیونکہ اس کے مقابلے میں مافیا پہاڑ کی طرح مضبوط اور اختیارات میں فولاد کی طرح سخت ہے۔ بد قسمت ہوتی ہیں ایسی قومیں جواپنے محسنوں‘ اپنے ہیروز کو چند دن یاد رکھنے کے بعد ہمیشہ کیلئے ایسے بھلا دیتی ہیں جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا ۔ ہم میں ایک خامی یہ بھی ہے کہ درد مند دل رکھنے والے‘ انصاف کے ترازو کو قائم و دائم رکھنے والے اور ملک کے لٹے ہوئے خزانوں کی ایک ایک پائی کو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر واپس قومی خزانے میں جمع کرانے والے کی تعریف کرنے کی بجائے مافیا کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر ایسے شخص کی خامیاں تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ نہ جانے ہم اپنی قوم کے محسنوں پر ناز کرنے کی بجائے حسد کی آگ میں کیوں جلنے لگتے ہیں۔
کوئی ایک دو برس ہوئے کہ جب بھی پریس کلب لاہور کے سامنے سے گزرہوتا تو لاہور اور پنجاب کے مختلف علاقوں کی فراڈ قسم کی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے ہاتھوں لٹے ہوئے خواتین و حضرات کے احتجاج کی وجہ سے پریس کلب کے اطراف میں کئی گھنٹے چاروں جانب بے تحاشا ٹیڑھی میڑھی کھڑی کی گئی گاڑیوں کی طویل قطاروں کی نا قابل برداشت زحمت سے گزرنا پڑتا۔اُس وقت ڈیوس روڈ سے گزرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چلا تھا۔ کئی ہفتے وزیر اعظم عمران خان کی لاہور آمد پر ان کی رہائش گاہ اور نہر کے دوسری جانب سینکڑوں کی تعداد میں مرد و خواتین اپنے بچوں کے ہمراہ پلے کارڈ اٹھائے ان نام نہاد ہائوسنگ سوسائٹیز کے خلاف احتجاج کرتے دکھائے دیتے رہے۔ ان احتجاج کرنے والوں کو روکنے کیلئے پولیس کی بھی بھاری نفری تعینات ہوتی‘ جس سے نہر کی ٹریفک بھی درہم برہم ہوجاتی‘ لیکن پھرنہ جانے اچانک کیا ہوا کہ ان احتجاجی مظاہروں میں پہلے تو کچھ کمی آئی اور پھر ان کا سلسلہ بالکل ہی ختم ہو گیا۔ خیال آتا کہ شاید جعلی ہائوسنگ سوسائٹیز کے ہاتھوں لٹنے والے یہ بے چارے سفید پوش مظلوم ‘کئی کئی سال سے شدید گرمی اور دانت بجاتی سردی میں سڑکوں کو بلاک کرتے ہوئے جگہ جگہ رونے اور چیخنے چلانے والے یہ تمام متاثرین شاید مایوس اور نا اُمید ہو نے کے بعد تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں ۔
قومی احتساب کا ادارہ‘ سولہ نومبر1999ء کو قائم کیا گیاتھا ‘ اس کے مختلف ادوار میں لوگوں کو اس سے شکایات بھی رہی ہیں ‘مگراس ادارے سے ایک جائز شکایت ہمیشہ رہے گی کہ اپنے آغاز سے ہی یہ ادارہ اگر وطن کے لوٹے گئے وسائل کے خلاف اسی طرح جدوجہد کرتا جیسے آج کر رہا ہے تو وطن عزیز کو کسی بھی میدان میں شرمساری کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ تو ہمارے ہسپتال‘ سکول‘ کالج ویران ہوتے اور نہ ہی کسی محکمے میں کرپشن اور کمیشن مافیا ملک کو تباہ و برباد کرنے میں کامیاب ہوتا ۔آج پاکستان اور اس کے غریب عوام کو جن تکالیف و مصائب کا سامنا ہے اس میں سب سے زیا دہ کردار ان منصب داروں کا ہے جو اگر اپنے حصے کا کام پوری دیانت سے کرتے تو مسائل حل ہو سکتے تھے۔ ہائوسنگ سیکٹر ہی کی مثال لے لیں کہ نومبر99 ء سے 2016ء تک ہاؤسنگ سیکٹر میں احتساب ادارے کی کارکردگی کی رفتار کچھوے کی رفتار کے برابر تھی۔اس دوران فراڈ ہائوسنگ سکیموں کے کل ایک سو ایک کیس پنجاب میں سامنے آئے‘ جن میں سے ایک سو کیسز کی انکوائری مکمل کرتے ہوئے24ریفرنسز فائل کئے گئے اور اس کے ملزمان سے350 ملین روپے وصولی کا وعدہ لینے کے بعد338 ملین وصول کرکے متاثرین میں تقسیم کئے گئے۔ ان سترہ برسوں میںاحتساب ادارے نے پنجاب میں کل251 ملین کی ڈائریکٹ ریکوری بھی کی‘ تاہم جنوری 2017ء میں جب میجر(ر) شہزاد سلیم بحیثیت ڈائریکٹر جنرل نیب پنجاب تعینات ہوئے تو اُس وقت سے ستمبر2019ء تک ان کے پاس ہائوسنگ سکیموں کے75 کیسز آئے‘ جن میں سے پچاس مکمل نمٹائے جا چکے ہیں اور ان پچاس میں سے چودہ کے ریفرنس احتساب عدالت میں بھیجنے کے علا وہ ان پونے تین برسوں میں6427ملین روپے ان سکیموں کے مالکان سے عوام کو واپس دینے کا معاہدہ کرنے کے بعد ہزاروں سفید پوش سرکاری اور نجی ملازمین اور دیگر لوگ‘ جنہوں نے گھر بھر کی جمع پونجیاں بیچ کر قسطیں ادا کی تھیں ان کو2241 ملین روپے واپس ادا کئے جا چکے ہیں۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ نہیں ہیں جنہیں ان ہائوسنگ سوسائٹیز میں دس دس برس سے دھکے کھانے کے بعد اپنے حصے کے پلاٹ مل چکے ہیں۔ اپنے گم شدہ پلاٹ اور لٹا ہوا سرمایہ واپس پانے والوں میں کئی ہزار وہ اوور سیز پاکستانی بھی شامل ہیں جن کو ایک بار پھر اپنے ملک میں سرمایہ کاری کا اعتماد بحال ہو نے لگا ہے۔
گزشتہ ایک سال سے لاہور پریس کلب کے باہر فراڈ ہائوسنگ سوسائٹیزکے ڈسے ہوئے مرد و خواتین کے دھرنے نہ پا کر ذہنوں میں جو سوال اٹھ رہا تھا‘اس کا جواب کئی برسوں سے اپنی فیملی کے ہمراہ برطانیہ میں مقیم اپنے ایک دوست کا اچانک فون آنے پر ملا '' یار شکر ہے میرے بوڑھے ماں باپ کی تکلیف کم ہوئی ‘کیونکہ میرے دو پلاٹس کیلئے وہ متاثرین کے ساتھ شملہ پہاڑی پریس کلب اور زمان پارک میں کبھی دھوپ میں جھلستے تو کبھی سردی میں ٹھٹھراکر تے تھے جس پر مجھے شرمندگی بھی ہوتی تھی کہ اپنے کمزور اور بوڑھے والدین کو جب ان کے آرام کرنے کے دن ہیں کس مصیبت میں ڈال رکھا ہے ۔ یہ سن کر میرے لئے یہ خبر حیران کن نہیں بلکہ نا قابل یقین تھی کہ ایسا کس طرح ہو سکتا ہے؟ایسا معاشرہ جہاں رشوت لینا حق سمجھا جاتاہو ‘جہاں کوئی کل ہی سیدھی نہیں‘ وہاں قومی احتساب کے ادارے نے صرف پونے تین سال میں33571 ملین روپے کی ان ڈائریکٹ ریکوری بھی کر لی ہو؟ایسے لوگ صرف قابل ستائش ہی نہیں ہیں بلکہ شاباش کا مستحق بھی قرار دیا جانا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں