عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی پنگ اپنے دورۂ بھارت کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے دو طرفہ تعلقات پر بات چیت کرنے کیلئے مصروف تھے‘ تو اس دوران لداخ ریجن میں بھارت اور چین کی لائن آف کنٹرول پر Pangog Lake پر پٹرولنگ کرتی ہوئی دونوں ممالک کی فوج جو کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہے اور ان میں وقفے وقفے سے فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ بھی ہوتا چلا آ رہا ہے ۔اس بارے میں خبر آئی کہ چینی فوجی بھارت کی سرحد میں گھس آئے ہیں‘ جس سے چین کے صدر شی پنگ کے بھارت کے دورے کے دوران ہی تلخی پیدا ہو گی۔ قریباً3500 کلومیٹر طویل چین اور بھارت کی سرحد پر لداخ کی اس جھیل کی ملکیت کیلئے دونوں ملکوں کی اپنی اپنی حدود میں پٹرولنگ کرتے فوجیوں کے درمیان کوئی دو ہفتے قبل یہ عجب و غریب قسم کی لڑائی دیکھنے میں آئی ‘جو کسی بھی دو متحارب ممالک کی فوجوں کے درمیان تاریخ کی ایک نئی طرز کی لڑائی کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
اس لڑائی(یدھ) کی خبروں پر دنیا بھر کی فوجی بیرکوں اور مورچوں میں زبردست قہقہے بھی گونجے ہوں گے‘ کیونکہ لداخ سرحد پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے گشت کرتے ایک انڈین سپاہی نے سامنے کھڑے چینی فوجی پر آوازہ کسا‘ تو جواب میں اس چینی سپاہی نے قریب پڑا پتھر اٹھا کر بھارتی فوجی کو دے مارا‘جو ایک خوفناک چیخ مار تے ہوئے جیسے ہی نیچے گرا‘ تو اس کے ساتھ گشت کرتے ہوئے دوسرے بھارتی فوجیوں نے اونچی اونچی آواز سے چینی فوجیوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ بھارتی فوجیوں کی دی گئی گالیوں کی تو چینی فوجیوں کو کچھ زیا دہ سمجھ نہ آرہی تھی‘ تاہم بھارتی فوجیوں کے چہروں پر دکھائی دینے والے غصے نے چینی فوجیوں کو یہ سمجھنے میں مدد دی کہ یہ کوئی انتہائی غلط قسم کے جملے بول رہے ہیں‘ جس پر سب نے اپنے قریب پڑے پتھر اٹھا اٹھا کر بھارتی فوجیوںکو مارنے شروع کر دیئے۔ اب‘ وہاں پر ایک عجب نظارہ دکھائی دے رہا تھا کہ بھارتی فوجی اپنے ساتھی فوجی کے سر پر لگے پتھروں سے بے تحاشا بہنے والے خون کو دیکھ کر چینیوں کی جانب ہاتھ بڑھا بڑھا کر انہیں اپنی علاقائی زبانوں میں اونچی اونچی آواز میں فحش قسم کی گالیاں دے رہے تھے‘ جبکہ چینی فوجی جواب میں ان پر پتھرپھینک رہے تھے۔
یہ کوئی من گھڑت کہانی نہیں ‘بلکہ فنانشل ٹائمز نے اپنی10 اکتوبر کی اشاعت میںچین اور بھارت کے درمیان ہونے والے اس تاریخی قسم کے ''یدھ‘‘ کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ کوئی بیس منٹ سے زائد جاری رہنے والی دونوں ممالک کی یہ تاریخی لڑائی اس وقت اختتام کو پہنچی‘ جب دونوں اطراف کے سینئر افسران نے وہاں پہنچ کر معاملے کو سنبھالا۔گالیوں اور پتھروں کے اس یدھ میں بھارتی سینا کے پانچ جوان گھائل ہو ئے‘ جبکہ چین کا ایک سپاہی بھی زخمی ہوا۔ جب تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ کشمیر کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور پھر جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس اور جنیوا میں ہونے والے ورلڈ ہیومن رائٹس کے اجلاس میں بھارتی افواج کی کشمیری مسلمانوں پر ڈھائے جانے والی قیامت خیز کارروائیوں کی مذمت میں چینی حکومت کے بھر پور کردار کی وجہ سے یہ معاملہ سکیورٹی کونسل تک پہنچنے سے بھارت کو دنیا بھر میں منہ چھپانے پر مجبور کر دیا تھا‘ جس پر بھارتی اندر ہی اندر چین کیخلاف کھولے جا رہے تھے اور چین سے اس کا بدلہ لینے کیلئے بھارت کے پاس اور تو کوئی رستہ نہیںتھا ‘سوانہوں نے اپنا یہ غصہ لداخ کی سرحدوں پر انہیں بھر پور گالیوں سے نوازتے ہوئے اتارنا شروع کر دیا۔
سکیورٹی کونسل‘ ہیومن رائٹس اور پھر جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر کشمیر پر بے مثال اور کبھی نہ بھولنے والے کردار کے تنا ظر میں عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی پنگ جب بھارت کا دورہ کر رہے تھے تو نئی دہلی کی صورتحال یہ تھی کہ ائیر پورٹ پر چینی صدر کا استقبال کرتے ہوئے ان کے چہروں پر بے چینی اور غصے کے آثار صاف دیکھے جا رہے تھے اور نئی دہلی نے سرکاری طو رپر چین کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی فورمز میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہے گئے متعلقہ کے الفاظ پر سخت تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ ٹائمز آف انڈیا نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے تین روزہ دورۂ چین کے بعد چینی صدرکے دورۂ بھارت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس استقبال اور دعوت سے ایسا دکھائی دے رہا ہے‘ جیسے نئی دہلی سرکار نے چین کے مسئلہ کشمیر پر دیئے گئے موقف کو جائز قرار دے دیا ہے۔ اپنی10 اکتوبر کی اشاعت میں ٹائمز آف انڈیا لکھتا ہے کہ چینی صدر شی پنگ کے اس دورے نے ایک طرح سے ثابت کر دیا کہ '' نریندر مودی سرکار کے اقتدار میں بھارت نے مسئلہ کشمیر پر دو روپ دھارے ہوئے ہیں‘‘۔بھارت کے چھوٹے بڑے اخبارات دیکھیں تو پورا بھارتی میڈیا اس وقت وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین کے بعد جاری کئے جانے والے اعلامیہ میں '' بھارت کے زیر قبضہ کشمیر‘‘ میں بھارتی افواج کے ظلم اور دو ماہ سے زائد جبری کرفیو کے نفاذ کے الفاظ پر سخت برہم ہو کر چیخ و پکار کئے جا رہا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ پاکستان حکام ہمیشہ کی طرح میری اس رپورٹ پر بھی کسی قسم کی توجہ نہ دیں‘ لیکن پھر بھی یہ گزارشات ان تک پہچانا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ تحریک طالبان پاکستان اور کئی قسم کی دہشت گرد تنظیموں کیخلاف پاکستا ن کے کامیاب آپریشن کے بعدپاکستان کو اب دفاعی پوزیشن پر نہیں‘ بلکہ فرنٹ فٹ پر آ کر پوری توجہ اور تیاری سے کھیلنا ہو گا ۔کیا ہم بھول گئے کہ بھارت نے FATF میںہمارے خلاف محاذ بنا کر ہماری معیشت اور استحکام کو '' گرے لسٹ‘‘ میں شامل کروایا ہے۔ بھارت نے پاکستان کو کئی برسوں سے گرے لسٹ میں پھنسا کر ہمارے عوام کو غربت کی چکی میں ڈال رکھا ہے۔ آج پاکستان میں نریند ر مودی کی من پسند حکومت نہیں ‘اس لئے 23 ستمبر کو القاعدہ کے انتہائی مطلوب اور خطرناک دہشت گرد ثنا الحق عرف عاصم عمر کی قلعہ موسیٰ ‘افغانستان کے صوبے ہلمند میں امریکہ اور افغان فورسز کی مشترکہ کارروائی میں ہلاکت کے حوالے سے پاکستان کو بھر پور کیس تیار کرنا ہو گا‘ کیونکہ ثنا الحق عرف عاصم عمر کا بھارت سے اسی طرح تعلق ہے‘ جیسے امیت شاہ کا نریندر مودی سے اورعاصم عمر کی ہلاکت اور مشکوک قومیت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے عالمی میڈیا بھی اسے دہشت گردی کیخلاف ایک بہت بڑی کامیابی قرار دے رہا ہے۔
واضح رہے کہ جو بات عاصم عمر کی ہلاکت کے بعد اور پہلے انتہائی جستجو اور شک کی طرف لا جا رہی ہے‘ وہ پہلی مرتبہ القاعدہ کا اپنے کسی بھی عہدے دار کی قومیت کی بھر پور طریقے سے پردہ پوشی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اس کی قومیت ظاہر نہیں کی گئی؟یہی وہ بات ہے‘ جو اپنے اس مضمون میں سامنے لانا چاہوں گا؛ آج تک القاعدہ نے اپنے ہر بڑے لیڈر کی فائل فوٹو اور آڈیو ویڈیو ٹیپ جاری کرنے سے رتی بھر بھی اجتناب نہیں کیا ‘بلکہ بڑھ چڑھ کر اس کی شخصیت اور چہرے کی رونمائی کی‘ تو پھر کیا وجہ ہے کہ عاصم عمر کی اب تک کوئی تصویر تک ریلیز نہیں کی؟کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ عاصم عمر بھارت نژاد ہے‘ جس کی سربراہی میں بر صغیر پاک و ہند میںAQISکی بنیاد رکھی گئی تھی۔کیا یہ وہی ثنا الحق عرف عاصم عمر تو نہیں‘ جس نے افغانستان سے راء اور این ڈی ایس کی نگرانی میں پاکستان کے دو صوبوں بلوچستان اور کے پی کے سمیت وزیرستان اور تمام قبائلی علاقوں میں دہشت گرد گروپوں کو منظم کرتے ہوئے‘ سینکڑوں کارروائیاں کیں۔ بر صغیر پاک و ہند میں القاعدہ کے چیف عاصم عمر کی کارروائیاں اور بھارت سے تعلق اب ڈھکا چھپانہیں ۔