''اگر 126 دنوں کا وہ دھرنا دیا جا سکتا ہے‘ تو پھر مولانا فضل الرحمن اور اُن کی تائید کرنیوالی 9جماعتوں کی جانب سے دیئے جانے والے مشترکہ دھرنے پر اعتراض کیوں؟‘‘۔عالمی و نجی میڈیا کی طرف سے اٹھنے والا یہ سوال‘ مکافات ِعمل کے تڑکے کے ساتھ ان دنوں اکثر دیکھنے اور سننے کو مل رہاہے‘ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اُس دھرنے کے پیچھے ایک طرف ‘اگر قومی اسمبلی کے چار حلقوں کی سکروٹنی تھی‘ اور ساتھ ہی تحریک منہاج القرآن ماڈل ٹائون‘ لاہور میں رکاوٹیں ہٹانے کی آڑ میں 14 بے گناہ افراد کا بہیمانہ قتل تھا ‘ تو سوال اٹھانے والے کیا جواب دین گے؟الغرض 2014ء کا وہ دھرنا کسی کی ذاتی محرومی یا دوستوں کو قانون کے فیصلوں سے بچانے کیلئے نہیں ‘ بلکہ قرضوں کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے‘ اس ملک کی ایک ایک پائی کو لوٹنے والوں کیخلاف تھا۔ علاوہ ازیں پاکستان تحریک انصاف اور تحریک منہاج القرآن کا دھرنا کسی کو باہر بھجوانے اور احتساب کے عمل سے بچانے کیلئے نہیں تھا اور نہ ہی انتخابات میں اپنی بدترین شکست کی خفت کا بدلہ لینے کیلئے تھا‘ بلکہ وہ دھرنا اُس ظلم و بر بریت کیخلاف دیا گیا تھا‘ جو اپنے سیا سی مخالفین کو سبق سکھانے کیلئے لاہور ماڈل ٹائون میں کیا گیا تھا ۔
پاکستان تحریک انصاف اور تحریک منہاج القرآن کا وہ دھرنا اپنے خود ساختہ مفروضے یا کسی ثبوت کے بغیر نہیں ‘بلکہ2013 ء کے انتخابات میں کی جانے والی انجینئرڈ دھاندلی کیخلاف دیا گیا تھا اور جس کی گواہی کسی ایرے غیرے نے نہیں‘ بلکہ اُس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے انتخابات کے صرف تین روز بعد بلاول ہائوس ‘لاہور میں سینئر صحافیوں کے سامنے یہ کہتے ہوئے دی تھی کہ میاں نواز شریف کے سر پر کامیابی کے سجائے گئے تاج میں عوام کی نہیں‘ بلکہ آر اوزکی مرضی شامل ہے ۔ اُس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری کی یہ خصوصی پریس کانفرنس آج بھی ہر میڈیا ہائوس کے ریکارڈ میں موجود ہے‘ جس پر کئی درجن پروگرام بھی ہو چکے ہیں ۔ اگر مولانا فضل الرحمن سمجھتے ہیں اور انہیں یہ پورا یقین ہے کہ اُن کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے‘ تو علی امین گنڈا پور‘ جنہوں نے مولانا فضل الرحمن کو اُن کے آبائی حلقے میں شکست دی ہے ‘اپنی کئی پریس کانفرنسوں‘ جلسوں اور ٹی وی پروگراموں میں یہ اعلان کر چکے کہ وہ قومی اسمبلی کی اس نشست سے استعفیٰ دینے کے بعد دوبارہ الیکشن لڑنے کیلئے تیار ہیں ۔ اس پیش کش پر مولانا فضل الرحمن کو تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ انتخابی عمل میں شامل ہونے والی کے پی کے کی تمام سیا سی جماعتیں اس وقت ان کی پشت پر کھڑی ہیں ‘جن کی مدد سے انہیں کامیابی کا پورا یقین ہونا چاہیے۔ کیا یہ منا سب نہیں تھاکہ وہ دھرنے کی بجائے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی امین گنڈا پور کا یہ کھلا چیلنج قبول کر لیتے؟
وزیر اعظم عمران خان کا مخالف میڈیا اور سیا سی جماعتوں کے قریب سمجھے جانے والے اینکرز کا ایک گروہ ٹی وی چینلز پر جب تکرار سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر عمران خان دھرنا کر سکتے تھے‘ تو اب مولانا کے دھرنے میں کیا برائی ہے؟تو ان سے عرض ہے کہ کسی بھی واردات اور عمل کو صرف دیکھ کر نہیں‘ بلکہ اُس کے انداز سے پرکھنا چاہیے۔2014ء کا دھرنا مسلح جتھوں یا نیم عسکری تنظیم پر مشتمل نہیں تھا۔ اُس دھرنے کے سامنے قومی اسمبلی کے چار حلقوں کے محفوظ کئے گئے ‘ ووٹوں کے نتائج سب کے سامنے کھولنے اور ماڈل ٹائون‘ لاہور میں 14 افراد کے قاتلوں کیخلاف ایف آئی آر درج کروا کر ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ تھا۔اگر مولانا فضل الرحمن کو یقین ہے کہ ان کو دھاندلی سے شکست دی گئی ہے‘ تو انہیں علی امین گنڈا پور کی پیشکش قبول کرتے ہوئے ان نشستوں پر دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے کیلئے آگے بڑھنا چاہیے۔
میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سمیت اچکزئی اور اسفند یار ولی خان کی بھر پور مدد کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اور دھرنا دینے کا اعلان کر کے نکلنا‘ نہ جانے کیوں مشکوک سا لگ رہا ہے؟ ایک بار پھر 9 ستاروں والے کھیل کا مفروضہ بھی پیش کیا جا رہا ہے‘ تو کچھ لوگ اسے سی پیک اورکشمیر پر بھارت کی دن بدن کمزور ہوتی پوزیشن کو سہارا دینے کا طریقہ بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ اب‘ ان خدشات یا الزامات میں کتنی سچائی ہے ؟یہ تو جلد ہی سامنے آ جائے گا ‘لیکن اگر یہ دھرنا اور کراچی سے اسلام آباد کی جانب مارچ آتش فشاں کی صورت بھڑکتے کشمیر کی آگ سرد کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے تو اسے بھارت اور اجیت ڈوول کی شاندار تخلیق کہنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے سامنے اس ملک کی زندگی سے وابستہ کالا باغ ڈیم کی مثال موجو دہے کہ چالیس برسوں سے پانی اور بجلی کی شکل میں پاکستان کی منزل سنوارنے کی نشاندہی کر رہا ہے‘ لیکن وہ قوتیں ‘جو آج مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی دامے درمے سخنے مدد کر رہی ہیں‘ انہوں نے تب بھی ایسی ہی رکاوٹیں کھڑی کی تھیں اوراب بھی یہ دشمن کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے ‘جس کی اسے داد دینی پڑے گی!
ذراسوچئے کہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے اندر بیس کروڑ کے قریب مسلمانوں کے خلاف راشٹریہ سیوک سنگھ سمیت بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کے مسلح جتھے تیار ہو رہے ہیں اور کشمیر کی مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں یقین کئے بیٹھی تھیں کہ عمران خان اور پاکستان کی عوام سمیت اس کی سکیورٹی فورسز ہماری مدد کریں گے‘ لیکن آج جب وہ دیکھیں گی کہ وہ پاکستان‘ جہاں ان کی آزادی اور مدد کے فلک شگاف نعرے اور کشمیر کے جھنڈے لہرائے جا رہے تھے‘ وہ پاکستان جو ان کا واحد سہارا ہے‘ اس کے اندر تو افراتفری پھیلی ہوئی ہے‘ وہاں تو کسی کو یہ بھی یقین نہیں رہا کہ کل کو حکمران کون ہو گا؟ تو وہ کیا سوچیں گی ؟
پاکستان کے اندر چاروں جانب جب آگ اور خون کی یہ افرا تفری‘ سری نگر کی وادی اور جموں کے ارد گرد بھارت کی قید میں محصور بیٹھے ہوئے80 لاکھ کشمیری دیکھیں گے اور بھارتی فوجی ان کے سروں پر اپنی سنگینیں چمکاتے ہوئے ‘ان کے عمران بھائی اور پاکستان کیخلاف نعرے اور سوشل میڈیا کی پوسٹیں دیکھ دیکھ کر ان کشمیریوں پر قہقہے لگائیں گے ‘تو محکوم اور مظلوم کشمیریوں کے بھارت کی قابض فوج کیخلاف حریت پسندی کا جذبہ زمین بوس ہو سکتا ہے اور کشمیر کی بیٹیاں اور بچے جو بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں سے ہونے والی بارشوں سے نہیں گھبرائے ‘جن کے قدم بھارتی فوج کی مشین گنوںسے بھی نہیں اکھڑے ‘جب پاکستان کو نریندر مودی اور اجیت ڈوول کے حملے میں گھرا ہوا پائیں گے‘ تو ان کی کیا کیفیت ہو گی ؟انہی حالات کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان نے مولانا فضل الرحمن پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں مظاہروں اور دھرنوں سے ملک کو سنگین نقصان پہنچے گا اور یہ دشمن کی خواہشات پر عمل کرنے کے مترادف ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ دارالحکومت اسلام آباد میں سڑکوں پر مظاہروں سے کشمیر کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے موقف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔