بھارت کی سپریم کورٹ میں گزشتہ چالیس دنوں سے مقبوضہ کشمیر میںکرفیو کیخلاف پٹیشن زیر سماعت ہے کہ قابض بھارتی فورسز نے80لاکھ سے زائد نہتے کشمیریوں کو حبس بیجا میں رکھا ہوا ہے‘ لیکن دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت والے ملک کی سپریم کورٹ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ۔بھارتی سپریم کورٹ نے ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصے سے اس پٹیشن کا فیصلہ کرنے کی بجائے ایک مرتبہ پھر اسے 14 نومبر تک ملتوی کر دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے 80 لاکھ سے زائد اُن بچوں‘ بوڑھوں اور خواتین کو ایک آزاد فضا میں‘ ایک آزاد انسان کی طرح باہر نکلنے کی اجا زت دینے کا حکم نہیں دیا گیا ۔ایسا لگتا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ میں کوئی جج نہیں‘ بلکہ راشٹریہ سیوک سنگھ کے کارکن بیٹھے ہوئے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے 80 لاکھ سے زائد مقید انسانوں میں کئی کینسر اور گردوں کی بیماری میں مبتلا ہیں‘ ان میں سے سینکڑوں کی تعداد میں حاملہ خواتین شامل ہیں۔ ان میں نہ جانے کتنے ہزار لوگ شدید قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہیں‘ جن میں بزرگ مرد و خواتین بھی شامل ہیں ‘لیکن بھارت کی سپریم کورٹ کو کسی بیمار کی بیماری کا خیال نہیں‘ اسے کسی معصوم بچے کی بگڑتی ہوئی حالت کا احساس تک نہیں ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا راگ الاپنے والے بھارت اورا س کی اعلیٰ عدلیہ تو دور کی بات ہے‘ کسی ایک عام سی عدالت کو بھی احساس نہیں کہ دودھ کی خاطر بلکتے نوزائیدہ بچے‘ جو اس کی جمہوریت تلے پنپنے والی فوج نے قید کر رکھے ہیں‘ انہیں بھوک بھی لگتی ہے ‘ انہیں علاج کی بھی ضرورت ہے ‘ جبکہ دنیا کی اس سب سے بڑی نام نہادجمہوریت کے مقابلے میں پاکستان کی عدالتیں ہیں‘ جو80 لاکھ نہیں ‘بلکہ صرف ایک انسان کی بیماری کے باعث‘ ایک ایسا شخص کو جو قانون کی عدالت سے سزا یافتہ بھی ہے‘ اس کی بیماری کو پوری انسانیت کی بیماری سمجھ کر لمحہ بھر میں آزاد کرنے کا حکم جاری کر دیتی ہے۔ معززپاکستانی عدلیہ کی طرح ہمارے سیا ستدانوں کے دل بھی اپنی متحارب جماعتوں کے لیڈران کیلئے رحم اور محبت سے بھرے رہتے ہیں ۔پاکستان کے بزرگ اور انتہائی وضع دار سیاسی شخصیت کے طور پر تسلیم کئے جانے والے مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی میڈیکل گرائونڈز پر لاہور ہائیکورٹ اور پھر اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز بنچ کی طرف سے احتساب عدالت کی سنائی گئی سزا کی عبوری معطلی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ '' میاں نواز شریف کیخلاف مالی بد عنوانی کا مقدمہ ہے‘ خدا نخواستہ کوئی ملک دشمنی کا تو نہیں ہے؟ اس لئے وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ انہیں علاج کیلئے بیرون ملک جانے میں رکاوٹ ڈالنے کی بجائے‘ جہاں وہ جاناچاہیں‘ جانے کی کھلی اجا زت دینے کے علا وہ‘ ان کے علاج کے سلسلے میں ان کی ہر ممکن مدد بھی کرنی چاہیے‘‘۔
مذکورہ بالا قسم کے بر وقت اور انسان دوستی پر مشتمل بہترین اور دور اندیشی پر مبنی مشورے چوہدری شجاعت حسین جیسا شخص ہی دے سکتا ہے یا ہمارے ملک کے انتہائی غمگسار قسم کے میڈیا اینکرز اور دانشوروں کو اﷲ نے یہ شرف دے رکھا ہے کہ وہ اپنے مربی اور محسن کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتے ہیں ۔چوہدری شجاعت اور دانشوروں کے ایک ہجوم کی جانب سے دیئے جانے والے ان بہترین مشوروں میں کہا جا رہا کہ وزیر اعظم عمران خان‘ اگر اپنی ضد پر قائم رہتے ہوئے پاکستان کے کسی بھی ادارے میں کی گئی مالی بد عنوانیوں پر سزاجاری رکھنے کے اعلانات اور دھمکیاں دیتے رہیں گے تو جلد ہی وہ وقت آ جائے گا کہ اس پورے میدان میں وہ اکیلے ہی رہ جائیں گے اور باقی سارا ملک جیلوں کے اندر ہو گا‘ کیونکہ کون ہے ‘جو بد عنوان نہیں؟ اور چوہدری صاحبان کے بقول؛ کئی قومی سطح کے انشورنس اداروں سمیت کسی بھی قومی ادارے میں کی جانے والی بد عنوانی کو قومی جرم نہیں‘ بلکہ اسے اخلاقی جرم کے طور پرلیا جانا چاہیے اور یہ بد عنوانیاں یا منی لانڈرنگ معاشرتی جرائم میں آتا ہے‘ کسی غداری جیسے مکروہ اور خطرناک جرم کے زمرے میں نہیںکہ جس کی ضمانت ہی نہیں ہو سکتی یا جس کے ساتھ نرم سلوک نہیں کیا جا سکتا‘ کیونکہ اگر منی لانڈرنگ کا جرم ملک دشمنی کے زمرے میں آتا توڈالر گرل آیان علی‘ آج ملک سے باہر بیٹھی قہقہے نہ لگا رہی ہوتی!
چوہدری شجاعت حسین جیسی نرم خو اور دور اندیش شخصیت کا بیان دیکھنے اور سننے کے بعد ایسے ہی چند سوالات ذہن میں آنا شروع ہوگئے ‘جو اپنے ملک کے تمام مصلحت پسند سیا ستدانوں اور دانشوروں سے پوچھنے کی کوشش کروں گا کہ اگر مالی بد عنوانی ان کے نزدیک کوئی بڑا جرم نہیں تو چین ‘جاپان اور جنوبی شمالی کوریا میں اس کے مرتکب افسروں اور وزیروں کو پھانسی یا فائرنگ سکواڈ کے سامنے کیوں کھڑا کیا جاتا ہے؟ جنوبی کوریا اور ملائیشیاء ‘ سنگا پورکے سابق صدور کے ساتھ کرپشن کے جرائم پر جو سلوک کیا گیا‘ وہ بھی تو سب کے سامنے ہے۔ مثال کے طور پر کسی سرکاری ٹھیکیدار نے کسی محکمے کے چیف انجینئر یا وزیر اور وزیر اعلیٰ کے کہنے پر دو چار ارب روپے کی لاگت سے کوئی عمارت یا پل تعمیر کیا ہو اور ایک دن وہ پل اور عمارت یک دم دھڑام سے نیچے جا گرے ‘جس سے پانچ دس یا اس سے زیا دہ انسانی جانیں موت کی وادی میں چلی جائیں‘ تو کیا اس پل کو تعمیر کرنے والا ٹھیکیدار‘ اس کے بڑے انجینئر اور دیکھ بھال کرنے والے نگران اہلکار اس محکمے کا وزیر اور حکومت‘ جس نے ان پراجیکٹس کیلئے اربوں روپوں کی ادائیگیاں کی تھیں‘ وہ ملک دشمنی نہیں؟ پل اور عمارت کے گرنے سے اپنی جان سے ہاتھ دھونے والی ہر انسانی جان کا ایک خاندان ہو تا ہے‘ جن میں اس کی بیوی ‘بچے ‘ماں باپ اور بہن بھائی ہو سکتے ہیں تو ایک شخص کی موت سے گھر کے کتنے لوگ دکھ تکلیف بھوک اور پریشانی کا شکار ہوئے ہوں گے تو کیا اس ناقص پل کی تعمیر میں شامل تمام ذمہ داروں قومی مجرم نہیں؟ پل گرنے سے کئی مہینوں تک لوگوں کو آنے جانے کی جو تکالیف برداشت کرنی ہوں گی‘ کیا یہ قومی نقصان نہیں؟جبکہ اس پل کی دوبارہ تعمیر اور مرمت پر جو کروڑوں روپے خرچ ہوں گے‘ اس سے کئی ہسپتالوں کیلئے مہنگی ادویات اور مشینری بھی خریدی جا سکتی تھی‘ اس سے ایک نیا اور بہترین پرائمری سکول تعمیر کیا جا سکتا تھا‘ اس سے سکیورٹی فورسز کیلئے کچھ نیا اسلحہ خریدا جا سکتا تھا۔ کوئی بھی شخص ‘جو منی لانڈنگ سے اس ملک کے قیمتی زرِ مبادلہ کو ملک کے وسائل کو چاٹ کر باہر لے جائے‘ اسے کیا نام دیا جانا چاہیے؟ ایسے کسی بھی مجرم کو یہ کہتے ہوئے کہ جہاں وہ چاہیں جانے دیا جائے کہ خیر ہے کہ پاکستان کا پندرہ بیس ارب یا دو چار کھرب روپیہ لوٹنا کوئی ملک دشمنی تھوڑی ہے ؟
چوہدری شجاعت حسین کے اس ہمدردانہ مشورے کے بعد اگلے روز ایک برادر اسلامی ملک کے سفیر نے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی‘ جس میں چوہدری پرویز الہٰی بھی شامل تھے اور یقینا اس برادر اسلامی ملک کے سفیر نے بھی چوہدری صاحبان کے دلوں میں ابھرنے والی ہمدردی کی تعریف کرنے کے بعد انسانی ہمدردی کے اگلے مراحل کیلئے بات چیت کی ہو گی ۔یقینا ہمارے ملک کو چوہدری شجاعت حسین ‘جیسی سیاسی شخصیات کی ضرورت ہے ‘جو بد قسمتی سے دن بدن کم ہوتی جا رہی ہیں ۔ مالی بد عنوانی کو معمولی جرم کہنے پر چوہدری شجاعت حسین کا بیان اپنی جگہ‘ لیکن میرا ان سے ایک سوال ہے کہ کیاآپ جرمنی‘ سپین‘ برطانیہ‘ ناروے یاا مریکہ میں قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہوئے زیا دہ نہیں‘ صرف دس ڈالر ٹیکس بچا کر دکھا سکتے ہیں؟