مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس پر دبیا بھر میں بھارتی قیادت پر لعن طعن کی جارہی ہے ‘ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی‘ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ بھارت کے سرکاری ٹی چینل دُور درشن پر گزشتہ دنوں Kashmir Truth کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم دکھاتے ہوئے دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ اس کے زیر قبضہ کشمیر میں ہر طرف امن و امان کا راج ہے اور تمام لوگ اپنے کام کاج کے سلسلے میں آزادی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا آ رہے ہیں ‘ یعنی پوری وادی میں کہیں بھی کسی بھی جگہ پر کسی بھی قسم کی کوئی ریلی یا جلوس نظر نہیں آ رہا‘ لوگ بھارتی فوج اور پولیس سے مکمل تعاون کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دُور درشن چینل کیلئے خصوصی طور پر تیار کی گئی‘ یہ دستاویزی فلم دکھانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس پروگرام کے چند دن بعد‘ پاکستان اور دنیا بھر کے آزادی پسند لوگ‘ ہر ملک کے بڑے شہر میں 27اکتوبر کو یوم سیاہ کے طورپر مناتے ہوئے بھارت کے کشمیر پر قبضے کیخلاف سیمینارز منعقد کریںا ور ریلیاں نکالیں گے ‘ تو اُس کو بھارت کیخلاف محض پروپیگنڈا قرار دیا جا سکے‘ اس تناظر میںبھارتی سرکار نے فیصلہ کیا کہ ان ریلیوں‘ جلوسوں اور سیمیناروںسے پہلے ہی اپنی وزارتِ اطلاعات ‘ وزارتِ خارجہ اور خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے تیار کی گئی‘ اس دستاویزی فلم کو دنیا بھر کے میڈیا ہائوسز تک پہنچا دیا جائے‘تاکہ اس کی تشہیر سے بھارت کے اصل چہرے جو نہایت کریہہ ہے‘ کو چھپایا جا سکے‘ لیکن ایسا کرتے ہوئے بھارت ‘بھول جاتا ہے کہ اس کے زیر قبضہ کشمیر کی اصل صورتحال آج دنیا کے آدھے سے زیا دہ لوگوں کے سمارٹ فونز میں موجود ہے۔
کشمیری یہ دن اس لیے مناتے ہیں کہ آج سے 72 برس قبل 27 اکتوبر کو بھارت نے جموں و کشمیر کے ایک حصے پر قبضہ کر لیا تھا‘ جو اب تک برقرار ہے۔ امسال جب پاکستان کا سفارت خانہ‘ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر کابل میں اپنی عمارت کے اندر عالمی میڈیا‘سفارت کاروں اور افغانستان کے دانشوروں کی موجو دگی میں اس 27 اکتوبر کی مناسبت سے ایک تقریب کا انعقاد کر رہا تھا‘ تو بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس کے احسانوں کا بدلہ اتارنے کیلئے این ڈی ایس نے مبینہ طور پر افغان پولیس اوربھارت میں تعلیم حاصل کرنے والے کمیونسٹ طلبا کو پاکستانی سفارت خانے کے باہر مظاہرہ کرنے کیلئے بھجوا دیا‘ تاکہ تقریب میں آنے والے افراد کو سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔ جس قسم کی بد تمیزی اور ہلڑ بازی کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے باہرمذکورہ بالا تقریب میں آنے والے مہمانوں اور پاکستان کے اہل کاروں سے کی گئی ‘وہ سفارتی آداب اور قوانین کی توہین کے زمرے میں آتی ہے۔ انتہائی بد تمیزی اور ہراساں کیے جانے کے با وجود پاکستانی عملے نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور نہایت احترام اور احتیاط سے افغان خفیہ تنظیم کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی‘ لیکن ان کا رویہ زیا دہ جارحانہ ہو تا چلا گیا۔انہوں نے پاکستانی پرچم کو جلانا شروع کر دیا‘ تو اس بے حرمتی کو دیکھ کر بھی پاکستانی عملے اور سکیورٹی پر مامور اہلکاروں نے افغانوں کیلئے اپنے دلوں میں احترام کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ کابل ا ور جلال آباد سمیت افغانستان کے مختلف حصوں میں پاکستانیوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک کوئی ایک نئی بات نہیں‘ بلکہ بھارتی خفیہ ایجنسی '' راء‘‘ کے تربیت یافتہ ایجنٹ آئے دن پاکستانیوں کو ہراساں کرتے رہتے ہیں ۔
دو دن ہوئے ایک پاکستانی ڈاکٹر کو اغوا کر لیا اور اس سے چند ہفتے قبل‘ پاکستان سے ملازمت کے سلسلے میں افغانستان گئے ہوئے ایک انجینئر کو بھی اغوا کیا گیا تھا ۔ ابھی تک ان دونوں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔پاکستان کی وزارتِ خارجہ بار بار پاکستانی ڈاکٹر اور انجینئر کے اغواء ہونے پر افغان حکومت سے احتجاج کر چکی‘ لیکن افغان حکام اسے ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔کابل میں موجود مختلف ممالک کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پرافغان اداروں کی جانب سے پاکستانی طلبا ‘ کابل میں ملازمت کے حصول کیلئے آنیوالوں اور یہاں موجود دنیا کے مختلف اداروں میں کا م کرنے والے پاکستانیوں کا اغواء اور انہیں ہراساں کرنے کی اصل وجہ بھارت کے دیئے گئے اربوں ڈالر ہیں۔افغانستان پر بھارتی عنایتوں کا اندازہ اس بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی چند دن ہوئے بھارت کی جانب سے افغان وزارتِ دفاع کو MI-24V دوگن شپ ہیلی کاپٹر زتحفے میں دئیے گئے۔گمان یہ ہے کہ ان سے پاک افغان سرحدی علا قے میں ایک طرف جہاں پاکستان کو باڑ لگانے سے روکا جائے گا‘ تو دوسری جانب بھارتی مفادات اور منصوبوں کیلئے وبال جان بنے ہوئے افغان طالبان کو نشانہ بنایا جائے گا ‘ لیکن کابل میں موجود مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے ڈیفنس اتاشی اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ ہیلی کاپٹر‘ز‘ بلوچستان اور کے پی کے سمیت اس کے قبائلی علاقوں میں پاکستانی پوسٹوں کو نشانہ بنانے اور افغان طالبان کی جا سوسی کیلئے استعمال کیے جائیں گے۔
بھارت کا افغان عوام کو تحفے میں دیئے جانے والے ان ہیلی کاپٹروں کا مقصد بظاہر یہ بتایا گیا کہ خطے میں امن و امان قائم کرنے کیلئے افغانستان کی بھر پور مدد کی جائے‘ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے پہلے سے ہی ہمیں بطور تحفہ دیئے گئے چار ہیلی کاپٹروں کی مو جودگی کے با وجود یہ نئے اور جدید دو گن شپ ہیلی کاپٹر زمہیا کر دیئے ہیں ۔ اس تقریب کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ پہلے سے دیئے گئے وہ چار ہیلی کاپٹرز اب کہاں ہیں تو اسد اﷲ خالد کوئی جواب دینے کی بجائے چپکے سے تقریب سے روانہ ہو گئے‘ جبکہ اس تقریب میںغیر ملکی میڈیا دعوے سے کہہ رہا تھا کہ بھارت کے یہ چاروں ہیلی کاپٹر افغان طالبان نے مختلف حملوں میں گرا دیئے ہیں۔بھارت کی جانب سے افغان حکومت کوتین ارب ڈالر کی بطور تحفہ دی جانے والی بھاری رقم‘ جس میں سے آدھی سے زائد مبینہ طور پر اشرف غنی ‘عبد اﷲ عبد اﷲ سمیت افغان فوج اور این ڈی ایس کے اعلیٰ افسران کے ذاتی اکائونٹس میں امریکہ اور امارات سے جمع کروائی جا چکی ہے اور یہی وہ پانچ درجن سے زائد شخصیات ہیں ‘جو نہ تو افغان طالبان سے امن مذاکرات کے حامی ہیں اور نہ ہی پاکستان سے اچھے تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیںاور یہی وہ لوگ تھے‘ جنہوں نے ستائیس اکتوبر کو ‘جب دنیا بھر میں بھارت کے کشمیر پر 72 برس قبل کئے گئے غاصبانہ قبضے کیخلاف یوم سیاہ منا رہے تھے‘ کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے اندر ہونے والی تقریب کو سبو تاژ کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
اس وقت طالبان جہاں ایک طرف امریکہ سے پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ امن مذاکرات میں اپنی بہت سی شرائط کو در گزر کرتے ہوئے آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں ‘تو اس مر حلے پر انہیں اپنے دل و دماغ سمیت آنکھوں کو بھی کھولے رکھنا ہو گا ‘کیونکہ بھارت‘ تحریک طالبان پاکستان اورNDS سمیت افغان نیشنل آرمی میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے دن رات ایک کئے جا رہا ہے ۔اس لیے طالبان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تمام خفیہ ایجنسیوں کو بھی اپنے ارد گرد سخت نگرانی کرنا ہو گی‘ کیونکہ اجیت ڈوول کئی مرتبہ کھلے عام کہہ چکے کہ وہ پاکستان پر با قاعدہ فوجی حملہ کرنے کے حق میں نہیں‘ بلکہ اس کے اندر پیسہ پھینک کرتماشا دیکھنے کے کا قائل ہیں‘ لہٰذا ایسے پاکستان دشمنوں کی سازشوں کے قلع قمع کیلئے ٹھوس پالیسی بنانا ہو گی‘ تاکہ پاکستان کو کمزور کرنے کے خواہش مندوں کی خواہشوں کو حسرتوں میں تبدیل کیا جا سکے!