گرو نانک جی کے خاندان کے لیے آج سے پانچ سو پینتیس برس قبل 1485ء میں اپنی جاگیر وقف کرنے والے رائے بلار بھٹی کے خاندان کی اٹھارہویں نسل کے فرزند رائے محمد اکرم بھٹی سابق صدر ننکانہ بار کی رہائش گاہ پر عشائیہ میں مہمان سکھ برادری کی خواتین و حضرات پاکستان کے لیے ممنونیت سے لبریز جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے: ہم انڈین آرمی میں اپنی سکھ کمیونٹی کو پیغام دے رہے ہیں کہ وہ آئندہ گرو نانک جی کی دوست اور ان سے عقیدت رکھنے والی دھرتی کی جانب گولی مت چلائیں‘ کیونکہ کرتار پور اور ننکانہ صاحب کے رکھوالے پاکستان پر چلائے گئے گولے سے بابا گرو نانک جی کو دلی دکھ ہو گا۔جالندھر کے کئی گھروں پر بھی'' کرتار پور لاہنگا ‘‘کھولنے پر پاکستان کے قومی پرچموں نے دنیا کو بہت بڑا پیغام دے دیا ہے اور یہ تو ابھی ابتدا ہے۔ بھارت سے باہر دنیا بھر میں مستقل طور پر مقیم سکھوں کا پاکستان سے بڑھتا ہوا پیار دیکھ کر نریندر مودی اور اجیت ڈوول آگ میں جلنے کے با جود خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے‘ اس خاموشی کو انہوں نے ا س وقت توڑا جب اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کرتار پور راہداری کھولنے پر عمران خان پر گرجنا برسنا شروع ہو گئے۔
کرتار پور راہداری کھولنے کا جب ابتدائی اعلان ہوا تو بھارت کی راکھشس قیا دت کو اس وقت سے ہی یہ منصوبہ ہضم نہیں ہو رہاتھا۔ اسے روکنے اور ملتوی کرنے کی انہوں نے ہر ممکن کوشش کی لیکن ناکام رہے‘ کیونکہ جیسے جیسے اس راہداری کے افتتاح کی خبریں انڈین آرمی کی یونٹوں میں سمارٹ فون سے دیکھی جا رہی تھیں‘ بھارت کی ملٹری انٹیلی جنس کے کلبوں اور لنگر گپ سے حاصل ہونے والی رپورٹس خبردار کررہی تھیں کہ سکھ جوانوں اور جونیئر افسران میں پاکستان کے لیے اچھے جذبات ابھر رہے ہیں اور کل کو یہ سلسلہ اس وقت بڑھ بھی سکتا ہے جب کرتار پور سے واپس جانے والے سکھ یاتری انہیں اپنی آنکھوں دیکھی گرو نانک جی کی آخری آرام گاہ کی شان اور نظارے سنائیں گے ۔
نریندر مودی اور کانگریس سمیت راشٹریہ سیوک سنگھ سکھوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے کرتار پور راہداری کو کسی نہ کسی طرح ناکام بنانا چاہتے تھے ‘اس سلسلے میں انڈین فوج نے سب سے پہلے 27 فروری کو اپنے دو بمبار جہاز بھیج کر کوشش کی‘ لیکن خالی ٹارگٹ اور اپنی شکست کی وجہ سے ناکام رہے۔پھر گزشتہ پانچ چھ ماہ سے لگاتار لائن آف کنٹرول پر تعینات پاکستان آرمی اور آزاد کشمیر کے شہریوں کو مارٹر گولوں اور مشین گنوں سے نشانے پرلیے رکھا‘تا کہ پاکستان غصے میں آ کر با قاعدہ جھڑپیں شروع کر دے‘ جسے بھارت پوری لائن آف کنٹرول تک پھیلادے ۔ پاکستان نے اس کے یہ مذموم منصوبے ناکام بنا تے ہوئے اپنی توجہ کرتار پور راہداری کی تکمیل کے لیے وقف کئے رکھی۔جب اجیت ڈوول کایہ منصوبہ ناکام ہونے لگا تو اس نے اپنی زبان اور خیالات کے لیے کسی اور کی زبان کا اسی طرح سہارا لیا جس طرح اس نے گزشتہ چالیس برسوں سے پاکستان کے غریبوںکے لیے خوشیوں اور مسرتوں سے بھرے ہوئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف لے رکھا ہے۔
کرتار پور پر صرف چہرہ بدلا ہے ۔ ایک عام پاکستانی مزدور ‘ کسان ‘ ریڑھی بان‘ طالب علم‘ وکیل یا استاد سے پوچھا جائے کہ محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی یا حاصل بزنجو کی تو سمجھ آتی ہے‘ لیکن مولانا فضل الرحمن ‘ پی پی پی اور نواز لیگ کرتار پور راہداری کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ آخر اس بے جا مخالفت کی کیا وجہ ہے؟کرتار پور سے بھارت کو پہنچنے والے سفارتی‘ سیا سی اور معاشرتی نقصان کا انہیں دکھ کیوں ہو رہا ہے؟ دکھ تکلیف تو بھارت کو ہو رہی ہے۔ '' کرتار پور لاہنگے‘‘ سے پریشان اور ہلکان تو مودی سرکار اور راشٹریہ سیوک سنگھ ہو رہی ہے ۔بھارت کا برہمن اپنے میڈیا پر دن رات چیخنا چلانا اور شور مچانا شروع ہو چکا ہے۔ کرتار پور راہداری کی مخالفت تو بھارت کو کرنی چاہئے ‘الٹاپاکستان میں کرتار پور پر بھارت کی زبان کچھ لوگ کیوں بولے جا رہے ہیں؟ کرتار پور کی مخالفت کرنے کے پس پردہ مقاصد خدا نخواستہ کہیں یہ تو نہیں کہ سکھوں سمیت دنیا بھر کو پیغام پہنچا دیا جائے کہ ''کرتار پور لاہنگا‘‘ صرف عمران خان کا ہے‘ اس سے مولانا فضل الرحمن سمیت نواز لیگ‘ پی پی پی‘ اچکزئی اور اسفند یار سمیت شیر پائو کا کوئی تعلق نہیں؟ اسلام آباد میں مولانا صاحب ہر رات جب دھرنے کے حاضرین سے خطاب کے لیے وہاں تشریف لاتے ہیں تو ان کی زبان پر ایک ہی فقرے کی تکرار رہتی ہے کہ کرتار پور کیوں کھولا جا رہا ہے اور ا ن کا دوسرا موضوع وہ مزاحیہ فقرہ ہوتا ہے جس میں وہ واشگاف الفاظ میں بتاتے ہیں کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے دور حکومت میں جب وہ دس سال کشمیر کمیٹی کے چیئر مین رہے تو ان کے دورمیں کسی کو کشمیر کا سودا کرنے کی جرأت نہیں تھی‘ لیکن اب عمران خان نے وزیر اعظم بنتے ہی کشمیر کا'' سودا‘‘ کر لیا ہے۔ یہ الزام اکیلے مولانا ہی نہیں بلکہ ان کے دھرنے کے لیے نان نفقہ دینے والی نواز لیگ اور اس کے تمام لیڈر وں کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری اورپی پی پی کی تمام قیادت تسلسل سے اپنے بیانات میں لگائے جا رہی ہے۔آئی ایس پی آر نے ان تمام سیاستدانوں کو جواب دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ کشمیر کا سودا کرنے کی بات جہالت سے زیا دہ کچھ نہیں۔ الزمات لگانے والے شاید نہیں جانتے کہ عمران خان کی ذاتی کوششوں سے ترکی کے صدر طیب اردوان نے مسئلہ کشمیر پر جنرل اسمبلی اور اس کے باہر ہونے والے مشترکہ سیمینارز میں کشمیر پر جو سٹینڈ لیا اس کاپہلے تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا اور کشمیریوںکے لیے دنیا بھر کے سامنے ترکی کے صدر نے مظلوم و محکوم کشمیریوںکے لیے کردار ادا کیا تو چند ہفتوں بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلے سے طے شدہ ترکی کادورہ منسوخ کر دیا ۔ ترکی کے صدر طیب اردوان کی عمران خان کے ساتھ ہر سیمینار میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے خم ٹھونک کر کھڑا ہو جانا مدتوں یاد رکھا جائے گا ۔ مگرکس قدر افسوس کا مقام ہے کہ گونگی بہری سیا سی جماعتیں اس کا اعتراف کرنے سے جھجک رہی ہیں یا ان میں اپنے سے کچھ دور تک دیکھنے اور محسوس کرنے کی سکت نہیں رہی ‘ورنہ وہ جان لیتے کہ مسئلہ کشمیر پر طیب اردوان کے دوٹوک رویے کی سزا دینے کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ترکی کا دورہ منسوخ کیا ۔طیب اردوان نے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو کر کہا تھا کہ دنیا کا امن مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر ممکن نہیں اور72 برسوں سے بھارتی فوج کشمیریوں پر جو ظلم و جبر کر رہی ہے وہ اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی انسانی حقوق کی تنظیموںکے لیے کھلا چیلنج ہے ۔ عمران خان کے کندھے سے کندھا ملاتے ہوئے نیو یارک میں بولے گئے ان کے یہ تاریخی الفاظ بھارت کو ایک نوکیلئے خنجر کی طرح چبھے جس سے وہ تلملا کر رہ گیا ۔ ایسے میں کشمیر کا سودا کرنے جیسی بے سرو پا باتیں کرنے سے پہلے ان لوگوں کو کچھ تو سوچنا چاہئے کہ ان کے الزامات سے مقبوضہ کشمیر کے85 لاکھ سے زائد اسیر مسلمانوں پر کیا بیت رہی ہو گی ۔ کچھ دور بیٹھا اجیت ڈوول یقیناًقہقہے لگا تا ہوا کہہ رہا ہو گا '' میں نیئں بولدی ایندے اچ میرا یار بولدا ‘‘۔