"MABC" (space) message & send to 7575

فارن فنڈنگ

پاکستان میں سبھی نے دیکھا کہ2013ء کے انتخابات میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے اوور سیز پاکستانی جہاز بھر بھر کرپاکستان پہنچے تھے۔لاکھوں روپے خرچ کر کے صرف ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے بیرون ملک سے آئے ہوئے پاکستانی سخت گرمی میں اپنے اپنے پولنگ سٹیشنوں پر پہنچ گئے اور صبح سویر ے ہی قطاروں میں لگ کر کھڑے ہو گئے۔ اب کون نہیں جانتا کہ سمندر پار پاکستانیوں میں اکثریت کس جماعت کی حامی تھی؛ چنانچہ ایک شخص اگر اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے تین چار لاکھ روپے خرچ کرکے امریکہ یا کسی یورپی ملک سے پاکستان آ سکتا ہے تو وہ اپنی من پسند جماعت کو پانچ دس لاکھ چندہ بھی یقینادے سکتا ہے۔ یہ صرف پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور پاکستانی نژاد سمندر پار بسنے والے شہریوں تک محدود نہیں بلکہ بھارت اور بنگلہ دیش کی سیاسی جماعتیں بھی اپنے سمندر پار شہریوں میں مقبولیت بڑھانے کے لیے تگ و دو کرتی ہیں اور ان سے چندے بھی وصول کئے جاتے ہیں۔میری رائے میں پاکستان تحریک انصاف کو اس سلسلے میں کوئی اختصاص حاصل نہیں ہے۔
دوسری جانب یہ مد نظر رہے کہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ کے سامنے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ڈس کوالیفکیشن کیلئے دلائل دئیے جا رہے تھے تو یکم اگست 2017 ء کو دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ تحریک انصاف کو ملنے والے فنڈز''Prohibited sources‘‘ سے وصول ہوئے ہیں تو صرف اتنا ہو گا کہ وہ فنڈز بحق سرکار ضبط ہو سکتے ہیں۔ اس لیے یہ کنفیوژن دور ہو جا نی چاہئے کہ اگر تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ میں کسی قسم کی کوتاہی ثابت ہو جاتی ہے تو اس کی سزا اس کی حکومت کا خاتمہ ہو گی۔
اپوزیشن نے جوتاثر پھیلارکھا ہے کہ اس سے پاکستان کی نوے فیصد سے زائد آبادی یہی سمجھے جا رہی ہے کہ فارن فنڈنگ میں فیصلہ اگر تحریک انصاف کے خلاف آیا تو حکومت ختم ہو جائے گی۔ پی ٹی آئی کی مخالف جماعتیں بھی یہی تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں ‘جبکہ ماہرین قانون پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ ایسا کوئی قانون ہی نہیں کہ فارن فنڈنگ کے کسی فیصلے سے حکومتیں ختم ہو جائیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں 16 دسمبر 2017ء کا اُس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم بینچ کا دیا جانے والا وہ فیصلہ بڑے غور سے پڑھنا ہو گا جو حنیف عباسی نے عمران خان کے خلاف غلط حلفیہ بیان دینے کے سلسلے میں دائر کر رکھا تھا۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے Foreign-Aided' Party and Prohibited Fundsکی تفریق کرتے ہوئے اسےProhibited سے نکال دیا تھا۔ اگر فارن فنڈنگ کی جانچ پڑتال چل ہی پڑی ہے تو کئی برس پرانا واقعہ دُہرانے میں بھی کیا حرج ہے‘ کہ اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے مبینہ طور پر اپنے دورہ پاکستان کے دوران پشاور میں ایک سیا سی جماعت کے سربراہ سے خصوصی طور پر ملاقات کرتے ہوئے روپوں کی ایک تھیلی ان کی نذر کی تھی‘ جس کی تصاویر آج بھی پی ٹی وی کے آر کائیو میں موجود ہوں گی۔ یہ خبر اس وقت یادوں کے دریچوں سے نکل کر سامنے آگئی جب اس سیا سی جماعت کے لیڈرز کو اپو زیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کا مقدمہ روزانہ کی بنیاد پر چلانے کیلئے مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
کیا پاکستان میں ایسا کوئی قانون اس وقت تھا یا اب ہے کہ کسی دوسرے ملک کا سربراہ پاکستان کی کسی سیا سی جماعت یا اس کے سربراہ کو بریف کیس یا تھیلیاں تھمائے اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو؟کیا اس تھیلی کا پاکستان کے کسی سرکاری ادارے کے پاس ریکارڈ مو جود ہے؟ کیا اس تھیلی کا آڈٹ ریکارڈ اس پارٹی کے دفتر میں دیکھا جا سکتا ہے؟ کیا قانون اس کی اجا زت دے سکتا ہے کہ چار پانچ سیا سی جماعتیں مل کر اپنی کسی مخالف جماعت کے خلاف مظاہرہ کریں تو اس کے دبائو میں آ کر کوئی فیصلہ کر دیا جائے؟ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے لیے ارکان اسمبلی کو خریدنے کے لیے ایک سیا سی جماعت کے لیڈر کو مبینہ طور پر غیر معمولی رقوم دی گئی تھیں۔کیا کبھی اس پر ایکشن ہو گا؟گو کہ اس فنڈنگ کے دو چشم دید گواہ اس دنیا میں نہیں رہے‘ لیکن تیسرا گواہ جو ایک انگریزی اخبار کا سابق چیف ایڈیٹر تھا ابھی زندہ و سلامت ہے ۔ اس وقت سخت حیرت ہوتی ہے جب ایسے دانشور اور قلم کار‘ جو آج ایک سیا سی جماعت کے ترجمان بنے ہوئے ہیں‘ عدم اعتماد کے کھیل کے دنوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے کیمپ میں تھے اور ان کی وہ تحریریں اگر اکٹھی کی جائیں تو اس فارن فنڈنگ کے چرچے کرتی نظر آئیں گی۔
سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کیوں ہے کہ صرف ایک جماعت کو نشانہ بنایا جائے۔یہ جو درجنوں کی تعداد میں منی لانڈرنگ اور بے نامی اکائونٹس کے ذریعے اربوں روپوں کی تفصیلات سامنے آ رہی ہیںان سے نمٹنا بھی ضروری ہے۔بیرونِ ملک سے اگر کوئی ٹی ٹی کسی سیا سی جماعت کے سربراہ یا س کے خاندان کے کسی فرد کے ذاتی اکائونٹ میں آتی رہی ہے یا کسی جماعت کے بے نامی اکائونٹس کی بھر مار سامنے آتی ہے تو کیا اسے جائز کہا جا سکتا ہے؟کیا تحریک انصاف کی جانب سے دی جانے والی درخواست پر ان سیا سی پارٹیوں کے لیے کی جانے والی فنڈنگ کی چھان بین نہیں کی جا سکتی؟فرانس کے صدر سر کوزی کو اس کی انتخابی مہم کے لیے لیبیا کے صدر معمر قذافی نے فنڈنگ کی تھی اور معمر قذافی کی زندگی اور حکمرانی کے دور ہی میں پاکستان کی ایک مذہبی سیا سی جماعت کے سربراہ نے طرابلس کے متعدد نجی دورے کئے‘ جہاں سے ایک اطلاع کے مطا بق لاکھوں ڈالر بطور عطیہ وصول کئے گئے۔ اب اگر کسی بھی سیا سی جماعت کا کوئی ذیلی ادارہ‘ اگر اس کی فارن فنڈنگ سامنے آ جائے تو‘ اس فنڈنگ کا ریکارڈ الیکشن کمیشن کے لیے دیکھنا واجب ہو جاتا ہے تو پھر ایسی کسی بھی جماعت کے اکاونٹس کی چھان بین کیوں نہیں کی جا سکتی؟
پی ٹی آئی کے منحرف رکن اکبر ایس با بر‘ جنہوں نے2014ء میں عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کی یہ درخواست دائر کر رکھی ہے‘ جو اپنے پروفائل کے مطا بق تحریک انصاف کے ترجمان اور انفارمیشن سیکرٹری کے علا وہ ان کے پاس پارٹی کے اعلیٰ ترین عہدے بھی رہے‘ الیکشن مہم کے کلی طور پر انچارج بھی رہے۔ وہ جنرل مشرف کے کرائے گئے عام انتخابات کے دوران تحریک انصاف اسلام آباد کے دفتر میں مختارِ کل بھی رہے‘ ان کی مشکوک سر گرمیوں پر احمد رضا قصوری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ‘جو پی ٹی آئی کے اس وقت مرکزی لیڈر تھے‘ اکبر ایس با بر کے کمرے میں داخل ہو ئے جہاں وہ کسی سے فنڈنگ کے نام پر مشکوک گفتگو کر رہے تھے ۔ بلا اجازت کمرے میں داخل ہونے پر ان دونوں میں جھگڑا بھی ہوا تھا۔ احمد رضا قصوری کے بقول اکبر با بر پارٹی فنڈنگ کو اپنے ذاتی استعمال میں لاتا تھا۔ بظاہر اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک انصاف کی صفوں میں موجود'' دشمن کے ایجنٹوں‘ جاسوسوں اور آلہ کاروں‘‘نے ہی بظاہر ان مشکوک فنڈنگ کا بندو بست کیا ہو گا۔ہو سکتا ہے یہ سب کچھ اکبر با بر کے در پردہ گٹھ جوڑ کی بنا پر کھیلا گیا کھیل ہو۔ ایف آئی اے یا کوئی اور قومی ادارہ اکبر ایس بابر سے تفتیش کر کے اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر ے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں