یہ1971 کی ایک دوپہر تھی‘ جب ادب سے سر جھکائے سپیشل سروسز گروپ کا جانباز لیفٹیننٹ کرنل محمدسلمان محبت اور عقیدت سے اپنی ماں کے پائوں چھو رہا تھا اور اس کی ماں نے بیٹے کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا تھا '' جا پتر! اﷲ دے حوالے‘ ہن واپس غازی یا شہید بن کے آنا‘‘۔گزشتہ دنوں دنیا کو خیرباد کہنے والے اکہتر کی جنگ کے ہیرو کرنل محمد سلیمان ‘ناصرف ایک عظیم کمانڈو تھے ‘بلکہ انہوں نے اپنی زندگی میں جرأت و شجاعت کی بے شمار داستانیں بھی رقم کیں۔وہ جنرل پرویز مشرف کے کورس میٹ رہے اورانہوں نے اکہترکی جنگ کے دوران گولہ بارود ختم ہو جانے کے باوجود دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا تھا‘ جبکہ مشکل ترین حالات میں اپنے زخمی ساتھی میجر پی ڈی خان کو محفوظ مقام پر پہنچایا تھا۔
لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان کو ''دی میگنیفیشنٹ‘‘کیوں کہا جاتا ہے؟اس ضمن میں ذہن نشین رہے کہ سلطنت عثمانیہ کے سب سے بڑے حکمران سلیمان اعظم کی شان و شوکت اور جرأت و بہادری کی وجہ سے انہیں '' سلیمان:دی میگنیفیشنٹ‘‘ یعنی سلیمان عالی شان کہا جاتا ہے۔1971ء کی جنگ میں لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان نے بہادری کی ایک ایسی داستان رقم کی‘ جس نے ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند کردیا۔ اکہتر کی جنگ کے دنوں کی بات ہے کہ ایک رات ایک بنکر میں دو کمانڈوز ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی چُہل کر رہے تھے‘ تاکہ اپنا حوصلہ بلند رکھ سکیں۔ایسے میںایس ایس جی میجربلال رانا اپنے دوست اور ساتھی محمد سلیمان کی طرف متوجہ ہوا اورکہا کہ ' 'یار ‘ میرا بلاوا آگیا ہے‘ لیکن مجھ سے اس بات کا وعدہ کرو اور میرا یہ دستی بم لے لو‘ اگر دشمن قریب آجائے تو دستی بم استعمال کرلینا ‘لیکن کبھی مجھے ان کے قبضہ میں نہ جانے دینا اور ایک آخری بات‘ اگر تمہارے گھر بیٹا پیدا ہو تو اس کانام 'بلال ‘ رکھنا‘‘۔بات ختم ہوئی تو دونوں ہی قہقہے لگانے لگے۔ 10دسمبر 1971ء کوایک مشن کے دوران میجر رانا بلال نے بہادری سے لڑائی کی اور شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے۔پاکستان کی تاریخ کے اس سیاہ دن‘ یعنی 16 دسمبر 1971ء کو جنرل نیازی نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا اور''سقوط ڈھاکہ‘‘ کی خبریں پھیل گئیں۔ لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان کو جب ان خبروں کا پتا چلا تو انہیں اپنے دوست محمد بلال سے کیا وعدہ یاد آگیا۔ وہ ڈھاکہ کینٹ میں اپنی بھری ہوئی کلاشنکوف رائفل کو لے کر غصے سے باہر آئے۔ ان کی آنکھوں میں ہتھیار ڈالنے کے احکامات کو قبول کرنے سے صاف انکار نظر آرہا تھا۔
16 دسمبر1971ء پاکستان کی تاریخ میں ایک دکھ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا‘ کیونکہ جب کمانڈر ایسٹرن کمانڈ جنرل نیازی نے 39 ہزار فوجیوں اور پچاس ہزار سے زائد سول اداروں میں سرکاری فرائض کی انجام دہی کیلئے مغربی پاکستان سے آئے ہوئے سرکاری ملازمین اور بدر و شمس کی صورت میں محب وطن بنگالیوں کو مکتی باہنی اور بھارتی فوج کے ہاتھوں تہہ تیغ ہونے سے بچانے کی خاطر ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا ‘تو ایس ایس جی کے لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان‘ جسے اس کی ماں نے حکم دیا تھا ''پتر غازی یا شہید بن کر گھر واپس آنا‘‘ اپنی ماں سے کئے اس وعدے کو نبھانے کیلئے اس جانباز نے اپنے عہد کو اس طرح نبھایا کہ دنیا کی فوجی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر ہو گیا۔
بد قسمتی کہہ لیجئے کرنل محمد سلمان کا نام ان کی موت کے بعد ہی پاکستان بھر کے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی زینت بنا‘ جبکہ کروڑوں ہم وطن اس دلیر اور بہترین کمانڈو کی زندگی میں ان کے نام سے نا آشنا رہے۔ڈھاکہ چھائونی کے زمین دوز کشتی کے بنکر میں کھڑے سلمان نے جنرل نیازی کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کلاشنکوف نیچے رکھنے سے انکار کیا تو جنرل نیازی نے کہا؛ میں تمہارا کمانڈر ہوں اور میرا حکم ہے کہ ہتھیار پھینک دو‘ جس پر سلمان نے تاریخی جملہ بولتے ہوئے کہا ؛ آپ نے شکست تسلیم کرلی ہے اور اخلاقی طور پر اب‘ آپ ہماری کمانڈ کا حق کھو چکے ہیں ؛میری ماں مجھے غازی یا شہید دیکھنے کی آرزو مند ہے‘ بطور جنگی قیدی نہیں۔ میں یہاں سے نکل رہا ہوں اور آپ جان لیں گے کہ اپنی جان دے دوں گا‘ لیکن دشمن کا قیدی نہیں بنوں گا۔ میںیہاں دشمن سے جنگ کرنے کیلئے آیا ہوں جنگی قیدی بن کر ہتھیار پھینکنے کیلئے نہیں‘‘۔
لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان جب سی ایم ایچ‘ لاہور میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے تو ان کے سامنے17 دسمبر1971ء کی وہ سرد اور تاریک شام آ گئی جب وہ ایک چھلاوے کی صورت میںڈھاکہ چھائونی میںاپنی پناہ گاہ سے نکلے اور چپے چپے پر پھیلی ہوئی مکتی باہنی ‘ بھارت کے فوجی دستے‘ فضا میں چکر لگاتے ہوئے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے جہازوں کے علا وہ سڑکوں اور گلیوں میں جگہ جگہ جشن مناتے ہوئے لاکھوں عوامی لیگی کارکنوں سے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے اس طرح برماپہنچ گئے کہ دریائوں اور سمندروں میں بھارت کی طاقتور نیوی بھی انہیں قابو کرنے میں ناکام ہو گئی تھی‘ جس نے بھی سنا کہ لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان برما سے پاکستان پہنچ گئے ہیں‘ تو کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ کسی چھلاوے کا کام ہو سکتا ہے‘ کسی انسان کا نہیں‘ جبکہ اس کی کمر پر ایک زخمی جوان میجر کا بوجھ بھی تھا۔ لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان کے ڈھاکہ سے برما فرار کا سن کر انڈین آرمی اور نیوی کے کمانڈوز اور بنگالی نوجوان دم بخود رہ گئے‘ کیونکہ لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان نے بہت سے کمانڈو آپریشنز میں مکتی باہنی اور انڈین آرمی کو سخت نقصان پہنچایا تھا اور وہ سب ایک غیر منظم فو ج کی طرح لوٹ مار کرنے کی نیت سے ادھر ادھر بھاگتے ہوئے پاکستانی فوجیوں ‘ان کے اہل خانہ اور ہر غیر بنگالی کی بو سونگھتے پھر رہے تھے۔
17دسمبر1971ء کی رات کو لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان اندھیرے میں غائب ہو گئے اور دشمن کو دوبارہ نظر نہیں آئے‘ لیکن جب انہوں نے ہیڈکوارٹر ایسٹرن کمانڈ چھوڑا تو وہ اکیلے نہیں تھے‘ بلکہ میجر پی ڈی خان بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ میجر پی ڈی خان کے گھٹنے میں گولی لگی ہوئی تھی اور وہ سی ایم ایچ میں موجود تھے۔کرنل سلیمان سی ایم ایچ پہنچے اور پی ڈی خان سے کہا کہ '' وہ بھی ان کے ساتھ چلیں۔ پی ڈی خان نے اس کی وضاحت کی وہ بری طرح سے زخمی ہیں اور وہ ان کے فرار ہونے میں مشکل بن سکتے ہیں۔اس وضاحت پر لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان نے پی ڈی خان کے سر میں ایک ضرب لگائی‘ جس سے وہ بے ہوش ہو گئے اور انہوں نے پی ڈی خان کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور وہاں سے فرار ہو گئے اور اپنے گھر لے آئے جو کہ ایک محفوظ مقام تھا۔ اس کے بعد وہ لیفٹیننٹ جنرل پی ڈی خان بنے اور مشہور 10 کور چکلالہ کی کمانڈ کی۔کرنل سلیمان نے دشمن کو اپنی خاکی وردی پر داغ نہیں لگانے دیا۔ انہوں نے اپنے دوست میجر بلال رانا سے کیے وعدے کو بھی نبھایا اوراپنی ماں سے کیے ہوئے وعدے کو بھی نبھایا اور غازی بن کر وطن لوٹے۔میجر بلال رانا سے کئے وعدے کے مطابق ‘جنرل پرویز مشرف اور لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان نے اپنے بیٹوں کا نام شہید رانا بلا ل کے نام پر 'بلال ‘ رکھا۔ان کی بہادری اور عظمت کے پیش نظر جنرل پرویزمشرف اور پاک آرمی میں بہت سے لوگ اب بھی انہیں '' لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیمان: دی میگنیفیشنٹ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔