وہ ممالک ‘جن کے بھارت میں سرمایہ کاری کے بھاری منصوبے چل رہے ہیں اور جنہوں نے کشمیر جیسے سلگتے مسئلے پر کبھی بھی کھل کر بھارت کی مخالفت کرنے سے گریز کیا ہے‘ وہ اگر تاریخ میں یا کم از کم کوئی تین دہائیوں کے بعد پہلی مرتبہ تنازع کشمیر کو اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اسلام آباد میں بلائے جانے والے اجلاس میں زیر بحث لاتے ہوئے کشمیریوں پر بھارتی قابض افواج اور اس کے سکیورٹی اداروں کے ظلم و بر بریت کو بے نقاب کریں گے ‘ مظلوم کشمیریوں کی بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہادتوں پرمذمت کریں اور اسلام آباد میں متوقع او آئی سی کے اجلاس میں اقوام متحدہ سمیت امریکا اور یورپی یونین کو اس دیرینہ اور سلگتے مسئلے کی سنگینی کا احساس دلایں گے ‘ کشمیریوں اور پاکستان کے موقف کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں کشمیریوں کی حقیقی آزادی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر یں گے‘ تو سوچئے کیا یہ نعمت ِخداوندی نہیں ہو گی ؟ کیا تنازع کشمیر پر وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کی پہلی مرتبہ یہ بہت بڑی کامیابی نہیں ہو گی؟کیا بھارت کی72 سالہ سفارتی تاریخ میں مسلم امہ کااس پر سب سے پہلا اور کاری حملہ نہیں ہو گا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ کوالالمپور کانفرنس کی تحریک وزیر اعظم عمران خان نے دی اور ان کی خواہش اور درخواست پر ترکی اور ملائیشیا کے صدور نے ستمبر2019ء میں جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اس کانفرنس کے ا نعقاد کا فیصلہ کیا‘ کیونکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 5 اگست2019ء کو کشمیر کوہضم کرنے کیلئے بھارتی آئین کی شق370 کو اپنی عددی طاقت کے بل بوتے پر بلڈوز کرتے ہوئے ختم کیا اور اپنے اس ظالمانہ اور غیر قانونی فیصلے کے ساتھ ہی 8 لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں اور نیم فوجی سکیورٹی اداروں کو پورے مقبوضہ کشمیر میں غیر معینہ مدت تک کیلئے کرفیو اور سیٹیلائٹ کی تمام سہولتوں کو ختم کرتے ہوئے محصور کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کا حکم دے دیا۔ نریندر مودی کے اس آمرانہ فیصلے کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں لگا تار کرفیو اور کشمیر کو اپنا قانونی حصہ ثابت کرنے کے عمل کیخلاف وزیر اعظم عمران خان نے دنیا بھر کو بھارتی افواج کی دہشت گردی کی جانب متوجہ کرنے اور مسلم سربراہوں سے کشمیریوں کی حمایت کرنے کی اپیل کی‘ جسے پاکستان‘ترکی اور ملائیشیا‘ایران اور قطرنے باہم مل کر کامیاب بنانے کی کوششیں شروع کر دیں اور اس کیلئے کوالالمپور میں انیس سے بیس دسمبر کو کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ جس سے اتفاق کرتے ہوئے مسلم ممالک کے سربراہوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کرنے کی حامی بھر لی‘ لیکن حالات نے عجب پلٹا کھایا اور اس کانفرنس سے چند روز پہلے برادر اسلامی ممالک کی طرف سے اس کانفرنس میں پاکستان کی شرکت روکنے کیلئے وزیر اعظم عمران خان پر دبائو بڑھایا گیا۔وزیر اعظم عمران خان نے کانفرنس کا انعقاد روکنے یا اسے کچھ عرصہ کیلئے ملتوی کرنے کی بجائے خود جا کر برادر اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا اور اس ملاقات میں اسلامی دنیا کو آپس میں تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے جو خدمات اور اقدامات کئے گئے‘ وہ کچھ عرصہ تک تو عوام کی نظروں سے اوجھل رہیں گے‘ لیکن جلد ہی وہ وقت آئے گا‘ جب وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کی بوچھاڑ کرنے والے نہ چاہتے ہوئے بھی دل سے ہی سہی‘ ان کی بصیرت اور سفارتی کامیابی پر داد دیئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔
ذہن نشین رہے کہ ان فیصلوں اور تجاویز کے کچھ پہلو ابھی سامنے آ ئے ہیں‘ جن میں 26 دسمبر کو سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان بن عبد اﷲ کادورہ ٔپاکستان اور پھر نائب صدر عرب امارات کی اسلام آباد آمد شامل ہے۔سعودی ولی عہد شاہ سلمان سے ہونے والی ملاقات میں فیصلہ ہوا کہ اس سال اپریل میں اسلام آباد میں عرب ممالک کے وزراء خارجہ کا اجلاس مقبوضہ کشمیر اور کشمیریوں کیلئے مسلم امہ کی آواز بن کر ابھرے گا اور یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ بھارت کی تمام کوششیں اور سفارتی اقدامات ‘ پاکستان سے اٹھنے والی کشمیریوں کی اس آواز سے خاک میں مل کر رہ جائیںگے۔ وزیر اعظم عمران خان کی کوالالمپور کانفرنس میںعدم شرکت کے فیصلے پر جس قدر میڈیا اور اس میں مدعو کئے جانے والے تجزیہ کاروں اور مختلف اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں کی جانب سے سخت تنقید کی گئی‘ اسے دیکھتے اور سنتے ہوئے لگ رہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے شاید بہت ہی سنگین قسم کی کوئی ایسی غلطی کر دی ہے‘ جس سے پاکستان سفارتی سطح پر اکیلا رہ گیا ہے‘ لیکن بھارت کے سابق معروف سفارت کار اور لکھاری ایم کے بھدر کمارنے سعودی عرب کے ولی عہد شاہ سلمان کے اپریل میں کشمیر پر اسلام آباد میں بلائے جانے والے مسلم امہ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ '' شاہ سلمان کے اس فیصلے نے بھارت کو سٹپٹا کر رکھ دیا ہے‘ اگر اپریل میں ایسا ہوجاتا ہے اور کشمیر پر ہونے والی اس کانفرنس میں شریک سب مسلم ممالک مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جبر اور ظلم و بربریت سمیت اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرادادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت اور آزادانہ و منصفانہ رائے شماری کا مطالبہ کرتے ہوئے بھارت کو اس پر عمل کرنے کیلئے دبائو بڑھادیتے ہیں تو کشمیریوں کیلئے اس سے بڑی عمران خان کی کیا کامیابی ہو گی؟‘‘۔
یہی تو وہ اصل دکھ ہے‘ جو بھارت اور نریندر مودی کو پریشان کئے ہوا ہے اور لگ رہا ہے کہ اپریل سے پہلے نریندر مودی یا تو پاکستان کی اندرونی سیا ست کے معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے اپنے دوستوں اور ہمدردوں کے ذریعے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا‘ تو ساتھ ہی پاکستان بھر میں دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے اپنے تنخواہ دار ایجنٹوں کو آگے بڑھائے گا ‘جس کی کوششیں اس نے چند ہفتوں سے شروع کر رکھی ہیں۔اس وقت بھارت کو جس چیز نے سب سے زیا دہ پریشان کر رکھا ہے‘ وہ سعودی حکومت کا‘ رتناگری بھارت میں 70 بلین ڈالر کی آرامکو کی پٹرو کیمیکل پلانٹ لگانے کی وہ میگا سرمایہ کاری ہے ‘جسے مودی حکومت اپنی معیشت کیلئے سب سے بڑا سہارا ثابت کرتے ہوئے اپنی بہت بڑی کامیابی اور بھارت کی ترقی کا ڈھونڈورا پیٹتے ہوئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔
پاکستان اور مسلم برادر ممالک پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ CAB/CAAکے جبری نفاذ اور مسلمانوں کے احتجاج کو اپنے خونی پنجوں سے روکنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کم راشٹریہ سیوک سنگھ حکومت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے بھارت کو اس امر کا احساس دلائیں کہ اگر آپ مسلم ممالک سے تجارتی اور سرمایہ کاری کے ثمرات سمیٹنا چاہتے ہیں‘ تو اس کیلئے اسے بھارتی مسلمانوں سے وہی سلوک اور شہری حقوق دینے ہوں گے‘ جو بھارت میں دوسری قوموں کو حاصل ہیں‘جس طرح بھارتی قیا دت کو دنیا میں کسی بھی ہندو کو تکلیف میں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے‘ اسی طرح مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی بھارتی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر تکلیف پہنچتی ہے۔دنیا بھر کے سفارتی حلقے ‘ تھنک ٹینک اور دانشور وں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے پہلے ایک سال میں ہی نریندر مودی کو وہ نقصان پہنچایا ہے‘ جو اس سے پہلے دور دور تک نہ تو دیکھا اور نہ ہی محسوس کیا گیا ۔ پاکستان کی کوشوں سے بین الاقوامی طور پر مودی کا امیج بری طرح متاثر ہو چکا ہے‘ بلکہ بہت سے دانشوروں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ نریندر مودی کی شخصیت اور بھارتی سرکار کو عمران خان نے سخت نقصان پہنچایا ہے۔