معاصر دنیا میں بحری دفاع کسی بھی ملک کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ بحری دفاع تمام چھوٹے بڑے ممالک کی اہم ترجیح ہے۔مگر بحری طاقت کا موازنہ کرتے ہوئے اگر کوئی یہ تاثر دے کہ بھارت پاکستان پر غالب ہے تو پھر سوال یہ بھی ہو گا کہ پرشین اپنی طاقت سے سکندر اعظم کو شکست کیوں نہ دے سکے؟ رومن Hannibalپر فتح کیوں حاصل نہ کر سکے ؟Gauls جولیس سیزر کو آسانی سے اپنے قدموں میں کیوں ڈھیر نہ کر سکے؟ چینی منگولوں کو کیوں نہ بھگاسکے؟کیااس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ تعداد کبھی بھی جذبے اور استعداد کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہو سکتی؟
بھارت دنیا کے ہر ملک سے دوستی کی خواہش اور تمنا رکھتا ہے‘ سوائے پاکستان کے‘ اور کسی بھی دوسرے ملک کے قریب آنے کی درخواست کرتے ہوئے یہ شرط رکھ دیتا ہے کہ وہ پاکستان سے دور رہے یا اس سے بس اتنے تعلقات رکھے جن سے بھارت کے مفادات پر کوئی زد نہ آئے‘ لیکن کسی بھی بین الاقوامی فورم پر دفاعی ہتھیاروں کی درخواست کرتے ہوئے بھارت تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی سمندری حدود چونکہ کم از کم 22 ممالک کے ساتھ لنک کرتی ہیں ‘اس لیے اسے اپنے سمندری اڈوں کی حفاظت اور چین کا مقابلہ کرنے کیلئے دفاعی سازو سامان کی شدید ضرورت ہے ۔ بھارت کے دفاعی ماہرین اور تھنک ٹینکس جب اپنی سمندری حدود کی بات کریں گے تو دنیا کو دکھانے کیلئے بھارتی حکومت اور اس کا میڈیا چین کا ہوّا کھڑا کرتے ہوئے دنیا بھر کو اپنی''معصوم اور مظلوم‘‘ شکل دکھاتے ہوئے رحم اور مدد کی بھیک مانگے گا ‘لیکن آج تک اس کا چین کے ساتھ سوائے1962ء کے کوئی بھی ٹاکرا نہیں ہو ا‘اور وہ بھی بھارت کی سیکرٹ دستاویزات اور کتابوں سے واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک سے اسلحے کا ڈھیر اکٹھا کرنے کیلئے ڈرامہ کیا گیا تھا کہ کمیونسٹ چین کے ممکنہ حملے سے بھارت کی حفاظت کرنی ہے ۔ امریکہ نے اپنی شیطانی چالوں سے جنگ کو یورپ سے نکال کر ایشیا اور خلیج میں پھینک دیا ہے‘ جس کے نتائج مڈل ایسٹ میں دیکھے جا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کاروں نے بحر ہند کے نام سے تیسرے بڑے سمندر کو جو ایشیا‘ افریقہ اور آسٹریلیا سے ملحق ہے اسے The bed of future conflictsکا نام دے دیا ہے۔
دیکھا جائے تو بھارت اور چین کی آپس میں کسی بھی جگہ سمندری حدود نہیں ملتیںاور ان دونوں ممالک کا ٹکرائو جب بھی ہوا تو وہ بھارت کی ویسٹرن نیول کمانڈ سے ہو گا‘ جبکہ بھارت اور پاکستان کی نیول فورسز سمندر میں جگہ جگہ ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ بھارت کی نیول سر گرمیاں دیکھیں تو وہ حیران کن طور پرکینیا‘ ممباسہ‘ سری لنکا‘ سنگا پور‘ ملائیشیااور انڈونیشیاسمیت تمام بحری روٹس اور سمندروں کو اپنی نگرانی میں دیکھنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ پلوامہ سے چند دن پہلے ہی بھارت Vikramaditya INS اور نیوی کے 60جنگی جہازوں کو تیاریوں کے ساتھ سمندر میں لے آیا تھا‘ جسے انتہائی حیرانی سے دیکھا گیا‘ کیونکہ ان کی کوئی نیول مشقیں بھی انائونس نہیں کی تھیں ۔
امریکہ کو یہ حفظ ہو چکا ہے کہ بھارت دنیا میں برطانیہ اور جاپان کے بعد اس کا سب سے بڑا اتحادی رہے گا‘ اس لیے امریکہ بھارت کو چین اور اس کے اتحادی یا دوست ممالک کی سمندری حدود کا'' ڈان‘‘ بنانا اپنی ذمہ داری میں شامل کر چکا ہے‘ کیونکہ امریکہ کی کوشش ہے کہ گوادر سے شروع ہونے والے سی پیک سے افریقہ تک وہ چین کی ہر سمندری گزر گاہ میں کانٹے بکھیر کر رکھ دے؛چنانچہ امریکہ گوادر اور سی پیک کے روٹس کو ناکام بنانے کیلئے کہیں بحر ہند میں اڈے بنا رہا ہے تو کہیں بھارت ا ور تائیوان کی سمندری لہروں کو آپس میں جوڑ رہا ہے۔ ساتھ ہی بھارت کسی بھی فورم پر چین کے مقابلے کیلئے اپنے سر پرستوں کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے یہ تاثر مضبوط کرنے لگتا ہے کہ انرجی اور تجارت کا معیشت اور اقتصادیات کے ساتھ گہرا تعلق ہے‘ اور کسی بھی ملک کی مضبوط معیشت اور اس کی دفاعی خود مختاری کا لازمی جزو بن جاتی ہے‘ اس لیے امریکہ اگر چاہتا ہے کہ چین کا ان تمام شعبوں میں راستہ روکنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں ا س کے قدم پھیلنے سے روک دیئے جائیں تو اس کیلئے بھارتی بحریہ کی مضبوطی اور دفاعی اعتماد ضرورت بن چکا ہے‘ کیونکہ دنیا کی ایک تہائی آبادی بھارت کی سمندری حدود سے متصل ہے اوردنیا کی انرجی کا پانچواں حصہ مغرب میں خلیج فارس ‘ مشرق میں انڈیا‘ جاپان اور چین کی سمندروں سے گزرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ خلیج بنگال‘بحیرہ عرب اور خلیج فارس میںجھڑپیں ایک عام سی روٹین بن چکی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارت کے پاکستان کے ساتھ بہت سے سمندری حدود کے جھگڑے بھی کسی وقت سر اٹھا سکتے ہیں۔
پاکستانی بحریہ کو اپنے کم وسائل اور محدود دفاعی بجٹ کے ساتھ بھارت جیسے توسیع پسند ملک کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمہ وقت چوکس اور ہوشیار رہنا پڑتاہے۔ بھارت کو ان تمام قوتوں کی حمایت حاصل ہے ‘جو پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو اپنے مقاصد کیلئے یا دوسرے لفظوں میں اپنی حاکمیت کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔اس لے پاکستانی بحریہ اپنے محدود وسائل اور بھارت کے مقابلے میںکئی درجے کم دفاعی بجٹ کے ساتھ اپنی فنی ا ور حربی صلاحیتوں کو ابھارنے اور ان میں مہارت پیدا کرنے کی جانب بھر پور توجہ دے رہی ہے۔ گزشتہ بر س کو سامنے رکھا جائے تو جنوری سے لے کر دسمبر تک شمالی بحیرہ عرب میں کروز میزائل کی فائرنگ پاور کے علا وہ پاکستان نیوی نے اپنی فیلڈ کمانڈز اور پاکستان ائیر فورس کے ساتھ انتہائی کامیاب مشترکہ مشقیں کیں۔ستمبر میں'' رباط مشقوں‘‘ میں میزائل فائرنگ اورسپیشل آپریشن فورسز نے پیشہ ورانہ مہارت کے مظاہرے کئے اور پھر نومبر میں بحریہ نے زمین سے اینٹی شپ میزائل کی کامیاب مشقیں کیںاور سمندری جنگ میں اس Zarb weapon systemکو پاکستانی بحریہ کیHigh level operational مہارت کہا جاتا ہے۔مارچ 2019ء میں پاکستانی بحریہ کے P3C اورین طیارے نے بھارت کی آبدوز کا سراغ لگا کر اسے پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہونے سے روکتے ہوئے دنیا بھر کو چونکا دیا اور عالمی دفاعی ماہرین پاکستان نیوی کی اس مہارت کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے ۔علاوہ ازیں بھارت کو ہر جگہ اپنی موجودگی اور تیاریوں سے با خبر رکھنے کیلئے بھارت کی سمندری حدود کے بالمقابل اپنی آبدوزوں کو بھی متعین کئے رکھا۔
جب بھارت نے پلوامہ کا ڈرامہ رچایا تو پاکستان کی ائیر فورس اور بری افواج کے ساتھ ساتھ بحریہ نے بھی بھر پور تیاریاں کر رکھی تھیں ۔ بھارت کی کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے ہر شعبہ حالت جنگ میں آ گیا‘ بھارت 21 روز تک پاکستانی آبدوزوں کی تلاش میں رہا اور اس کیلئے دن رات گجرات‘ مہاراشٹر اور دوسری ساحلی ریا ستوں میں P-81s استعمال کرنے کے با وجود انہیں ڈھونڈنے میںمکمل نا کام رہا اور پاکستان کی آگسٹا آبدوز کے سائے تک بھی نہ پہنچ سکا۔یہاں تک کہ بھارت نے INS ChkaraاورINS Kalvariکے ذریعے بھی بھر پور کوششیں کیں لیکن اسے بری طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ یہی کسی فوج اور اس کے اہل کاروں کی پیشہ ورانہ مہارت کا اعتراف ہوتا ہے ۔پلوامہ کے بعد بھارت کو ہمہ وقت چکرائے رکھنے میں آگسٹا آبدوز کی کارکردگی یاد رکھی جائے گی۔