ہوسِ ملک گیری نہ پہلے کم تھی‘ نہ اب ہے ‘لیکن پہلے کی جنگیں کم ازکم دو چار قوموں تک ہی رہتی تھیں‘ جبکہ اب تو اگر کوئی قوم کسی جنگ کا حصہ نہ بھی بنے‘ تو اس سے بہت سارے حوالوں سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان‘ ایسے خطے میں واقع ہے جہاں‘ اگر خوش قسمتی سے کوئی علاقائی جنگ نہ بھی ہو رہی ہو تو‘ کوئی نہ کوئی عالمی طاقت کسی بھی وقت اس طرف آنکلتی ہے اور کوئی جنگ چھڑ جاتی ہے۔
پاکستان کا ہمسایہ ملک افغانستان تو خیر ہر وقت کسی نہ کسی عالمی قوت کا میدانِ جنگ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے پاک افغان سرحد (ڈیورنڈ لائن )پر خاردارباڑ لگانے کا عمل شروع کیا‘ جو قریباً قریباً مکمل ہو چکا‘ جس کے باعث اب ‘سرحد پر دراندازی‘ سمگلنگ اور دیگر غیر قانونی آمدو رفت بہت حد تک کم ہو چکی ہے‘ مگر یہ بات وطن ِعزیز کے دشمنوں کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔
گزشتہ دنوں پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر نے پاکستان کو براہِ راست دھمکیاںدیتے ہوئے اعلان ِ ِبغاوت کر دیا ہے اور اس جلسے میں حیران کن طور پر اپنے جسموں کے ارد گرد افغانستان کا پرچم لپیٹے ہوئے بہت سے ازبک اور افغانی بھی دیکھے گئے‘ جنہوں نے پاکستان کے خلاف شدید قسم کی نعرے بازی کی اور اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے سے ذرا بھی اجتناب نہیں کیا۔ شاید انہیں کچھ ایسے لوگوں نے یقین دہانی کرا دی گئی ہے کہ آپ کوپی ٹی ایم کے علی وزیر اور محسن داوڑ کی طرح قانون کی پکڑ سے آزادی دلا دی جائے گی۔ علی وزیر اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے آنے والوںکو تمام بارڈر ز پوائنٹ پر اس لئے ویزہ دیاجاتا ہے کہ وہ قانونی طریقوں سے پاکستان داخل ہوتے ہیں‘ لیکن افغان ہمیشہ پاک افغان بارڈر کے کسی بھی حصے سے جب چاہا بغیر کسی کو بتائے پاکستان داخل ہوتے رہے ہیں اور قریباً ایک لاکھ کے قریب اپنی جانیں گنوا چکے اب‘ اگر پاکستان انہیں قاعدے قانون کا پابند بنانا چاہتا ہے تو اس میں غلط کیاہے؟
پاک افغان سرحد پر آہنی باڑ صرف دہشت گردوں‘ اسلحہ اور منشیات فروشوں کے علا وہ اغوا برائے تاوان کے مجرموں کو روکنے کیلئے لگائی گئی ہے اور یہ ہر آزاد ملک کا قانونی اور عالمی حق ہے۔ کیا امریکا نے میکسیکو کی سرحدوں پر باڑ نہیں لگائی؟کون نہیں جانتا کہ گزشتہ پندرہ برسوں سے پاکستان بھر میں دہشت گردی کا طوفان برپا کرنے میں افغانستان کا ہاتھ رہا ہے۔ان دہشت گردانہ کارروائیوں میں مبینہ دہشت گردوں نے ناصرف 80 ہزار سے زائدبے گناہ پاکستانیوں کو قتل کیا‘ بلکہ دس ہزار سے زائدسکیورٹی اداروں کے جوان اور افسر شہید کیے‘لہٰذا اب جو بھی افغانستان سے آنا چاہتا ہے‘ اسے اپنی مکمل جانچ پڑتال کروا کر آنے کی اجا زت بین الاقوامی قانون کے عین مطا بق ملے گی۔اب ‘یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ملکی سرحدوں پر کھڑے ہوئے قومی محافظ چھپ کر گھات لگا کر پاکستان میں داخل ہونے والوں کیلئے پھولوں کے ہار لئے کھڑے رہیں‘ اسی طرح ہندوستان یا دنیا کے کسی بھی حصے سے ننکانہ صاحب‘ حسن ابدال‘ لاہور یا کرتار پور آنے والے سکھوں کو کھلی چھٹی تو نہیں‘ بلکہ انہیں پاسپورٹ اور بیس ڈالر ویزہ فیس دے کر آنا پڑتا ہے۔
ادھربھارت کے آرمی چیف جنرل منوج موکند نرونے نے آزاد کشمیر پر قبضے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بھارتی پارلیمنٹ اجازت دے تو پاکستان سے آزاد کشمیر لینے کیلئے کارروائی کرسکتے ہیں۔یہی نہیں ‘بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دہلی حکومت نے بھی حسب ِ روایت پاکستان پر الزام لگایا کہ پاکستان کے راستے 60 کے قریب افغان دہشت گرد بھارت اورمقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے ہیں‘ جس کی وجہ سے پاک بھارت سرحد پر بی ایس ایف کے جوانوں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔۔مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی آرمی چیف نئے ہو ں یا پرانے پاکستان کو دھمکیاں دینا ‘ان کا ''محبوب مشغلہ‘‘ ہے۔سبکدوش ہونے والے آرمی چیف نے بھی جاتے جاتے پاکستان کو ''خبردار‘‘ کیا تھا کہ وہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی سے باز رہے‘ ورنہ لائن آف کنڑول پرحالات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ بھارتی حکام ہر وقت‘ اٹھتے بیٹھتے پاکستان پر ایل او سی کی خلاف ورزی کا الزام دھر دیتے ہیں‘ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔گزشتہ برس بھارتی فوج کی جانب سے سیز فائر معاہدے کی تین ہزار سے زائد خلاف ورزیاں کی گئیں‘جن میں تین سو کے قریب کشمیری شہری شہید ہوئے۔
ایک رپورٹ کے مطابق‘ 2019ء میں بھارتی فائرنگ سے آزاد کشمیر میں 105گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے‘ جبکہ 622 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔یہی نہیں بھارتی گولہ باری سے ڈی ایچ کیو ہسپتال اورچھ سکولوں کوبھی نقصان پہنچا اور وادی جہلم کی مسجد بھی محفوظ نہ رہی۔ بھارت کی بد فطرت سب کے سامنے ہے‘لیکن ہر کوئی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔وہ خود سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور پھر سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے‘ جس میں اسے منہ کی ہی کھانا پڑتی ہے‘ لیکن پھر بھی وہ باز نہیں آتا۔وہ نت نئے حربے استعمال کر تا رہتا ہے‘ ابھی فروری 2019ء میں اس نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ پر کامیاب حملے کا اعلان کر کے افراتفری پھیلانے کی کوشش کی‘پلوامہ حملے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی‘ یہی نہیں‘بلکہ بھارت ایک بار ''سرجیکل سٹرائیک‘‘ کا ڈراما بھی رچا چکا اور تو اور دسمبر میں اس نے وادی کیرن پر قبضہ کرنے کا جھوٹا دعویٰ بھی کیا تھا۔ بھارت‘ لائن آف کنٹرول پر تو جو آگ برسا رہا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا سر کچلنے کیلئے اپنے ہی آئین کے ساتھ کھلواڑ بھی کر رہاہے۔
آر ایس ایس نظرئیے کی بنیاد مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کیخلاف نفرت اورنسلی بالادستی پر ہے‘ نسلی تعصب کا یہ جن جب بھی بوتل سے باہر آیا‘ خونریزی کا باعث بنا۔ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک سے عالمی برادری باخبر ہونے کے باوجود بھارت کے ساتھ معاشی مفادات کی وجہ سے خاموش ہے۔ آر ایس ایس کا تو فلسفہ ہی یہ ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤںکا ہے۔ کیا عالمی دنیا میں آر ایس ایس کے اس نظرئیے کی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟
ضروری ہے کہ بھارت کی جانب سے دی جانے والی مذکورہ بالادھمکیوں پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور آزاد کشمیر کے عوام کو حالات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں چوکس رہنے کی تلقین کی جائے۔ پاک فوج‘ اگرچہ ہر طرح کے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے ‘لیکن حالات کی سنگینی کے پیش نظر ضروری ہے کہ مشرقی سرحد پر اضافی نفری تعینات کی جائے‘ کیونکہ نئے بھارتی آرمی چیف منوج موکند نرونے اور ضمانت پر رہا ہونے والے پی ٹی ایم کے علی وزیر اور محسن داوڑ جیسے رہنما ‘جو پاکستان سے زیادہ افغانستان اور بھارت کے مخلص ہیں‘ کسی بھی قسم کی دشمنی نکال سکتے ہیں ۔
الغرض یہ لوگ دو ایٹمی طاقت کے حامل ممالک کو ایک خطر ناک اور پوری دنیا کے لیے تباہی کا باعث بننے والی جنگ کا محرک و ایندھن بن سکتے ہیں۔