'' اے یرو شلم‘ اگر میں تجھے بھلا دوں تو اپنے تن بدن سے محروم ہو جائوں‘‘یہ الفاظ ہر یہودی کی آواز اور عبا دت کا حصہ ہیں اور سات دہائیاں گزرنے کے با وجود یہ فقرہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے یہودی کے دل کی آواز بن چکا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور سرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے گٹھ جوڑ سے شرق ِ اوسط کے امن کے نام سے پیش کی جانے والی ڈیل میں ''القدس ‘‘کیلئے ''یروشلم‘ اور '' مسجد اقصیٰ‘‘کیلئے ''جبل ہیکل‘‘ جبکہ دریائے اردن کے مغربی کنارے کیلئے ''الخلیل شہر‘‘جیسے الفاظ کا استعما ل واضح کرتا ہے کہ یہ فارمولہ متعصب اور انتہا پسند صیہونی سوچ نے تیار کیا ہے‘ کیونکہ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی پریس کانفرنس میں ''مسجد اقصیٰ‘‘ کی بجائے ''معبد‘‘ کا لفظ استعمال کیا ‘ جو در اصل ان کی سوچ اور انتہا پسندی کا اشارہ ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ کھڑے ہو کر تنازع فلسطین کے متعلق جو نام نہاد امن منصوبہ پیش کیا ہے‘ اس میں یروشلم(بیت المقدس) کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت قرار دیا گیا ہے۔
180 صفحات پر مشتمل اس مجوزہ معاہدے کو‘جس کا ڈرافٹ صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے اسرائیلی حکام کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے '' ڈیل آف دی سنچری‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔صدر ٹرمپ اسے تاریخی معاہدہ قرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اگر اس کے تحت بھی اسرائیل فلسطین تنازعے کا حل نہیں نکل سکا تو پھر یہ مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہو سکے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے برسر اقتدار آتے ہی اس معاہدے پر کام شروع کرنے کا عندیہ دے دیا تھا۔ فلسطین اور اسرائیل کا تنازع کوئی آج کی بات نہیں‘بلکہ اب تو اسے طویل ترین تنازعے کی حیثیت حاصل ہو چکی اور اب تک اس مسئلے کو حل کر نے کیلئے ہی معاہدے بھی کئے جا چکے‘ لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو ئے۔ 1917ء میں پہلی عالمی جنگ کے بعد برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا تھا‘ اور پھر اسی سال نومبر میں بالفور اعلامیے کے تحت یہودیوں کوفلسطین میں ''اپنا گھر‘‘ بنانے کی خوشخبری سنا دی۔
یہودیوں کے تسلط سے آزاد ہونے کیلئے اہل ِ فلسطین نے 1919ء میں جدوجہد کا آغاز کیا۔اس یہودی عرب تنازعے کو طے کرنے کیلئے1948ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد کی منظور دی اور ساتھ ہی ساتھ یروشلم کو بین الاقوامی کنٹرول میں لے لیا۔ تقسیم کے نتیجے میں ویسٹ بینک اور مشرقی یروشلم اردن‘ جبکہ غزہ پٹی مصر کا حصہ بن گئی۔1948ء کے بعد1967ء میں اسرائیل فلسطین جنگ ہوئی اور اسرائیل نے فلسطین کے بیشتر حصہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ مشرقی یروشلم‘ ویسٹ بینک‘ غزہ کی پٹی اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا تھا۔ویسٹ بینک میں اسرائیل نے آباد کاری شروع کر دی اوردرجنوں یہودی بستیاں قائم ہوگئیں۔ ویسٹ بینک میں اس وقت چار لاکھ اسرائیلی‘ جبکہ 26 لاکھ فلسطینی موجود ہیں‘ لیکن فلسطینی‘ اسرائیلیوں کی مرضی سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
واضح رہے کہ کہ عالمی سطح پر یہ آباد کاری ناجائز قرار دی جا چکی‘یہی اسرائیل اور فلسطین کے مابین کسی بھی معاہدے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکہ کے سوا تمام ممبران کیخلاف قرارداد کے حق میں ووٹ دے چکے ‘لیکن صدر ٹرمپ کا پلان ان آباد کاریوں کو جائز قرار دے رہا ہے‘ جس کے مطابق کسی فلسطینی یا اسرائیلی کو اپنے گھر سے بے دخل نہیں کیا جائے گا‘جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ عالمی قوانین کے تحت غیر قانونی مانی جانے والی اسرائیل کی تعمیر کردہ ان بستیوں کو ختم نہیں کیا جائے گا‘ بس اسرائیل وہاں اگلے چار سال تک کوئی ترقیاتی کام نہیں کر سکے گا‘ لیکن وہ علاقہ اسی کے زیرانتظام رہے گا‘جن علاقوں کو امریکی صدر ٹرمپ نے فلسطینیوں کیلئے مختص کیا ہے‘ وہ آئندہ چار سال آمد و رفت کے لیے کھلے رہیں گے‘ اس دوران فلسطینیوں کے پاس موقع ہو گا کہ وہ اس پلان کا جائزہ لے لیں‘ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کریں اورخود مختار ریاست کیلئے تعین شدہ پیمانے پر پورا اترجائیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کی ڈیل کے مطابق ‘فلسطین اپنی فوج بھی نہیں بنا سکے گا‘لیکن اگر اسرائیل کو فلسطین میں کسی قسم کی ''دہشت گردی‘‘ کے آثار نظر آئے تو وہ ضرورفلسطینی علاقے میں کارروائی کا مجاز ہو گا۔امریکی صدر ٹرمپ نے اس منصوبے کواس صدی کا بہترین منصوبہ قرار دیا ہے‘ جبکہ تنازع فلسطین کے اس حساس مسئلے کیلئے پیش کئے گئے اس منصوبے کو اگر بندر بانٹ کا نام دیا جائے‘ تو میری نظر میں زیادہ بہترہو گا ۔ برطانوی اخبار'' دی گارڈین‘‘ نے امریکی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد کیا خوب لکھا ہے '' اس منصوبے سے اسرائیل کی آزادی مکمل ہوئی ہے‘ فلسطین کی نہیں‘‘۔
فلسطین چاہتا ہے کہ یروشلم کی 1967ء سے پہلے والی حیثیت بحال کی جائے۔یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرا ر دینا کسی کیلئے بھی قابل ِ قبول نہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کے اس معاہدے پر اگر عمل کیا جائے تو 1948ء کی جنگ کے نتیجے میں جوقریباً 700,000 فلسطینی بے گھر ہو گئے تھے‘ اگر وہ چاہیں تو بھی واپس فلسطین آ کر بس نہیں سکتے۔ سوال یہ ہے کہ فلسطینی ریاست میں فلسطینیوں کو واپسی کے حق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے؟اہم بات یہ ہے کہ اس ''ڈیل آف دی سنچری‘‘ میں اہل ِفلسطین کی رائے کوہی مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیاہے ‘یعنی ان سے پوچھے بغیر ہی اسرائیل اور امریکہ کی منشا کے مطابق‘ ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔یوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پیش کی جانے والی یکطرفہ ڈیل سے صرف اسرائیل کی جارحیت کو ہی تقویت مل سکتی ہے۔یہ بات واضح ہے کہ یکطرفہ طور پر پیش کی گئی کسی بھی ڈیل یا معاہدے سے خطے میں امن قائم ہونے کی بجائے بدامنی پھیلنے کے امکانات زیادہ ہیں۔اس دیرینہ مسئلے کے حل کیلئے فلسطین اور اسرائیل کو مذاکرات کا ہی راستہ چننا پڑے گا‘فریقین کی منشاء و مرضی کے مطابق ہی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
امریکی صدرکو سمجھنا چاہئے کہ طے شدہ تقسیم کے منصوبے کے تحت ہی دو ریاستوں کا قیام عمل میں آ سکتا ہے‘ فلسطینی اکثریتی علاقے ویسٹ بینک اور غزہ پٹی کو ریاست فلسطین کا حصہ ہونا چاہیے‘ نیز صدی کی ڈیل کے نام سے فلسطینیوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی دونوں شخصیات کو جلد ہی عوامی رائے عامہ کے فیصلوں کا انتظار ہے‘ کیونکہ2 مارچ کو اسرائیل میں نئے انتخابات ہونے جا رہے ہیں ‘تو نومبر میں صدر ٹرمپ اپنی دوسری صدارتی ٹرم کیلئے زور آزمائی کرنے والا ہے‘ ایسے میں امریکہ جیسے بڑے ملک کیلئے یہ کسی طور بھی منا سب نہیں تھا کہ وہ سات دہائیوں سے الجھے ہوئے مسئلہ فلسطین کیلئے ایسے وقت میں کوئی فارمولا سامنے رکھ دیں۔نیتن یاہو کو کرپشن اور مالی بد عنوانیوں کے سنگین الزامات کا سامنا ہے تو ایسے میں کیا امریکی صدر ٹرمپ نے اس کو ''بیل آئوٹ‘‘ کرنے کی کوشش کی ہے۔اس پر '' الجزیرہ‘‘ دلچسپ فقرہ کستے ہوئے کہاہے کہ:
The devil is not in the details of the deal of the century, its the bluff of the millennium.