نائن الیون سے اب تک 19 برسوں میں تحریک طالبان پاکستان‘ جند اﷲ اور داعش سمیت ان سب دہشت گرد تنظیموں کے چھ سے زائد ذیلی گروہوں نے بلوچستان‘ پنجاب ‘کراچی اور کے پی کے سمیت اس وقت کے فاٹا پر مشتمل قبائلی علاقوں میں دس بیس نہیں‘ بلکہ دہشت گردی کی سینکڑوں کارروائیاں کیں‘ نیز وزیرستان میں اپنی علیحدہ حکومت قائم کرتے ہوئے ظلم و جبر کا بازار گرم کئے رکھا۔ میر علی‘ وانا‘ سوات مالا کنڈ اور دیر میں جگہ جگہ کھمبوں اور سڑکوں پر پھانسی گھاٹ قائم کیے گئے‘ جہاں ان کے نظریات سے ذرا سا اختلاف کرنے والوں کو کئی کئی دن الٹا لٹکا دیا جاتا تھا۔
کے پی کے کی سر زمین میں جگہ جگہ اتنے خود کش حملے اور بم دھماکے کئے گئے کہ ہر پشتون کا گھر ماتم کدہ بن گیا‘ ان کے سکول ‘ہسپتال اور تعلیمی ادارے ویران ہو کر رہ گئے۔ان انتہا پسندوں نے دہشت گردی کی وہ آندھی چلائی‘ جس میں کسی کی جان اورمال محفوظ نہ رہا۔ گھات لگا کر ہر آنے جانے والے کو کلاشنکوف کے برسٹ چلا کر شہید کیا جانے لگا‘ جس سے ہزاروںکی تعداد میں پشتون شہید ہوئے‘ سکولوں اور کالجوں کے طلبا و طالبات سمیت گلیوں اوربازاروں میں روزمرہ کی اشیاء کی خریداری کیلئے گھروں سے نکلنے والی پشتون مائیں بہنیں اور بیٹیاں ان کے بچے‘ شوہر اور بھائی ٹی ٹی پی اور اس کی فضل اﷲ جیسی ذیلی تنظیموں کے کروائے جانے والے خود کش حملوں‘ بارودی سرنگوں اور بم دھماکوں میں بے قصور مارے گئے‘ لیکن کابل سے ان پشتونوں کے حق میں ایک آواز بھی نہ نکلی‘ بلکہ کے پی کے اور بلوچستان میں ہر دہشت گردی کی خبر ملنے پر کابل میں جشن منائے گئے۔
ادھر خیبر پختونخوا کے ہر گھر میں ہونے والی شہادتوں نے پشتونوں کو زخم خوردہ کر کے رکھ دیا‘ کسی جگہ بوڑھا باپ اگر جواں بیٹے کا لاشہ اٹھائے رو رہا تھا ‘تو کہیں نئی نویلی سہاگن عمر بھر کیلئے اپنی بیوگی کے غم میں چلا رہی تھی‘ کہیں چھوٹے اور معصوم بچے زندگی بھر کیلئے یتیمی کا زخم لئے بلبلا رہے تھے‘ تو کہیں مائیں اپنی خالی گودوں کو دونوں ہاتھوں سے پیٹ رہی تھیں‘ لیکن نہ تو حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دل میں ہلکا سا درد اٹھا اور نہ ہی کابل میں بیٹھے ہوئے پشتونوں کے کسی ہمدرد کے گلے سے ہلکی سی آہ نہیں نکلی‘لیکن جیسے ہی منظور پشتین کو پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے ‘ پاکستان کے خلاف مسلح موومنٹ چلانے پر بار بار کی وارننگ کے بعد تمام قانونی حدود کو پھلانگنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا‘ تو افغان صدر اشرف غنی سمیت کابل میں کمیونسٹ اور بھارتی اثر و رسوخ کے زیر سایہ پھلنے پھولنے والے افغانوں کی آنکھوں سے قہر ابلنا شروع ہو گیا۔ ان کے آنسو جو پچاس ہزار سے زائد پشتونوں کی ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کا نشانہ بننے پر نہ نکلے‘ وہ ایک منظور پشتین کی گرفتاری پر بلک بلک کر بہنا شروع ہو گئے۔یہاں یہ سوال تو بنتا ہے کہ آخر اس کی کوئی وجہ تو ہو گی؟ جو کابل اس قد بے چین ہو چکا‘ جیسے اسے کانٹوں پر بٹھا دیا گیا ہو۔پاکستان اوراس کے قومی اداروں کو گالیوں اور دھمکیوں سے ہمہ وقت لتاڑنے والے منظور پشتین کو پاکستان نے اس قدر کھلی چھٹی دے رکھی تھی کہ وہ بے خوف ہو کر جگہ جگہ گھومتے پھرتے اسے توڑنے‘ ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور تباہ کرنے کی دھمکیاں دینے لگا۔ شاید کچھ لوگوں نے اسے اور اس کے ٹولے کو پکا یقین دلا رکھا تھا کہ گھبرانانہیں ‘ ہم تم کوکچھ نہیں ہونے دیں گے۔
کل تک وہ جنوبی وزیر ستان کا ایک عام سا شخص ‘جس کا جنوری2018ء میں نقیب اﷲ محسود کی رائو انوار کے '' ہاتھوں‘‘ شہادت سے پہلے کہیں نام بھی نہیں تھا ‘یکدم اسے اس قدر چمکایا جانے لگا‘ جیسے پورے پاکستان میں نقیب اﷲ محسود کا یہی چاہنے والا قدر دان ہے۔ دریں اثنا بھارت اور این ڈی ایس کے تربیت یافتہ پشتین کا نام سے بھارتی الیکٹرانک میڈیا پر چمکنا شروع ہو گیا اور جیسے ہی پختون نوجوانوں میں سوشل میڈیا کی مشہورشخصیت نقیب اﷲ کا '' پوشیدہ ہاتھوں‘‘ کے ذریعے قتل ہوا تو کراچی میں اے این پی کے حامیوں پر مشتمل پشتون علا قوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے گروہ احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکل پڑے اور پلک جھپکنے میں منظورمحسود کو کراچی پہنچانے کے ساتھ ہی اس کی شخصیت کو اس قتل کے حوالے سے اس قدر کوریج دی جانے لگی کہ اس وقت کرۂ ارض پر اس سے زیا دہ پختونوں کا کوئی دوسرا ہمدرد اور لیڈر نہیں آ رہا تھا۔
اس وقت اس نے ''محسود تحفظ تحریک ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی‘ جسے بعد میں '' پشتون تحفظ موومنٹ ‘‘کا نام دے دیا گیا اورساتھ ہی اس کے نام سے محسود کا لفظ غائب کرتے ہوئے اسے منظور پشتین کہا جانے لگا اور اسے بڑی پلاننگ سے تیار کی گئی سرخ رنگ کی ٹوپی پہننا دی گئی‘ جسے اس کے ساتھیوں نے بھی اپنی شخصیت کا حصہ بنانا شروع کر دیا۔ اس طرح پی ٹی ایم کی بنیاد رکھتے ہوئے اسے میڈیا پر اس طرح کوریج دی جانے لگی کہ دیکھتے ہی دیکھتے یورپ اور امریکہ برطانیہ سمیت آسٹریلیا میں اس کی ٹوپی اور تصویریں لیے افغان‘ پاکستان کے خلاف احتجاج کرنا شروع ہو گئے ۔الغرض منظور پشتین کے نام کو اس قدر تیزی اور مہارت سے دنیا بھر کے میڈیا کا حصہ بنایا گیا کہ بی بی سی اور الجزیرہ جیسے دنیا بھر کے متعدد ٹی وی چینلز اس کا انٹرویو رکنے کیلئے پشاور اور وزیرستان میں اس کے آگے پیچھے گھومنا شروع ہو گئے۔یوں جیسے جیسے اس کی شہرت بڑھنا شروع ہوئی اس کے مالی وسائل کی بھر مار ہونے لگی اور اس نے وزیرستان کی سات ایجنسیوں میں افغان مہاجرین کی کثیر تعداد کے ہمراہ بڑی بڑی ریلیاں نکالنا شروع کر دیں اور ان ریلیوں میں نقیب اﷲمحسود کے قتل کو اچھالا جانے لگا۔
اس حوالے سے مضحکہ خیزی کی انتہا دیکھئے کہ کراچی‘ جہاںنقیب اللہ کو پولیس حراست میں قتل کیا گیا‘ میں آصف علی زرداری کی صورت میں پی پی پی کی حکومت تھی‘ لیکن پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر صوبے کی قیادت کی پینگیں بڑھانے کیلئے دن رات ایک کر رہے ہیں۔ کیا یہ حیران کن نہیں ؟کیا یہ کسی سازش کے تانے بانے نہیں؟یہی تو وہ پختہ شک ہے ‘جو یہ قیاس کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ نقیب اﷲمحسود کا قتل باقاعدہ ایک منصوبے سے کیا گیا تھا۔اس قتل سے پی ٹی ایم کا وجود باہر آتا ہے اور اس کیس کے ساتھ منظور پشتین کا قدابھرتا ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے کوئی تو ہے‘ جو منظور محسود کے نام سے پکارے جانے والے ایک عام سے شخص کو نقیب محسود کی شہادت کے فوری بعد راتوں رات لیڈر بنا دیتا ہے اور اس کی پی ٹی ایم کے یورپی ممالک میں بھی آفس کھول دیئے جاتے ہیں اور یہ تنظیمیں پاکستانی سفارت خانوں کے سامنے مخالفانہ نعرے لگانے شروع ہو جاتے ہیں اور پاکستان پر الزامات لگانے کا کوئی موقع یہ لوگ اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں۔میری نظر میں دھواں کہیں اور سے اٹھ رہا ہے۔