گزشتہ ماہ ملک بھر میں اشیائے خورونوش کے بحران پر عوام حیران تھے کہ اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ آٹا اور چینی بازاروں سے غائب ہونے لگی اور قیمتوں کو جیسے آگ لگ گئی؟ اگر پچھلے ایک برس کی اخباری رپورٹس ہی دیکھ لی جائیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ یہ بحران اچانک پیدا نہیں ہوا‘ بلکہ گزشتہ ایک‘ ڈیڑھ برس سے یہ لاوا پک رہا تھا۔ قریباً ہر معاملے کی طرح یہاں بھی فیصلہ سازی کا فقدان نظر آتا ہے۔ کبھی گندم کو برآمد کرنے کا فیصلہ تو کبھی درآمد‘ دیکھنے والے حیران ہیں کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ ایک تو پالیسیوں کا کوئی سر پیر نہیں ‘اوپر سے حکومت کی انتظامی صلاحیت سونے پر سہاگہ‘ جب گندم کی برآمد روکنے کا فیصلہ کرلیا گیا تو پھر بھی یہ دھڑا دھڑ ملک سے باہر کیسے جاتی رہی؟کیا اعلیٰ حکومتی سطح پر ملی بھگت کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا؟
دریں اثنا ہر ٹی وی چینلز سے واویلا مچایا جانے لگا کہ کہاں ہے آٹا؟ کدھر چلا گیا آٹا؟اور حکومت پر بھر پور تنقید کی جانے لگی ‘ جبکہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ یا کہ آٹے کا یہ بحران کیسے اور کیوں پیدا ہوا؟ آخر پنجاب جو گندم کی پیدا وار کیلئے جا نا جاتا ہے‘ اس کی گندم اور آٹے کو کیا ہوا ؟ عوام بے چارے ‘جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان تھے‘ اب ایک کلو آٹے کو ترسنے لگے۔ اپوزیشن جماعتوں اور ان کے لیڈروں کی جانب سے ڈھول پیٹے جانے لگے کہ آٹا70 روپے کلو میں فروخت ہو رہا ہے اور غریب جو پہلے ہی آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان تھے ‘بازاروں میں خالی ہاتھ گھوم رہے ہیں اور ہر گھر میں روٹی کیلئے دو سے تین دفعہ روزانہ استعمال ہونیوالے آٹے کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں ‘لیکن آٹا ہے کہ ملنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ہر جگہ آٹے کے حصول میں مشکلات کا رونا رویا جا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ میڈیا نے وہی بات کرنی تھی ‘جس کا شکار اس ملک کی عوام ہو رہے تھے‘ کوئی بھی میڈیا ہائوس عوام کی مشکلات پر آنکھیں بند کر کے تو نہیں بیٹھ سکتا‘ اس نے وہی کچھ دکھا نا ہوتا ہے‘ جو ہر سڑک ‘ بازار اور گلی میں پیش آ رہا ہوتا ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ دو برس گندم کی اضافی پیداوار کے بعد فروری 2019ء میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ پانچ لاکھ ٹن گندم برآمد کردی جائے‘تاکہ قریباً 11 کروڑ ڈالر زر مبادلہ کمایا جاسکے۔ اس کے بعد گندم کی افغانستان برآمد شروع کردی گئی۔ جون 2019ء میں وزارت ِنیشنل فوڈ سکیورٹی نے 2018-19ء کے سیزن میں گندم کی کم پیداوار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے برآمد پر پابندی عائد کرنے کی تجویز دی۔ ستمبر 2019ء میں یہ پابندی عائد کردی گئی ‘تاہم گندم سمگل ہوکر افغانستان جاتی رہی کہ وہاں پر اس کی قیمت قریباً دُگنی مل رہی تھی۔ نتیجتاً پاکستان میں گندم کی کمی واضح ہونے لگی اور اکتوبر 2019ء میں خیبرپختونخوا میں 85 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 500 روپے سے بڑھ کر 4500 روپے تک جاپہنچی۔ اس دوران میڈیا میں شور اٹھنے لگا‘تو حکومت نے حسب ِروایت اسے مخالفین کا پراپیگنڈہ قرار دے دیا‘ جبکہ دوسری جانب ملک بھر میں آٹے کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا‘ یہ بات بڑھی اور یہاں تک پہنچی کہ بازاروں میں آٹا نایاب ہوگیا‘ دکانوں کے باہر لمبی لمبی قطاریں نظر آنے لگیں‘ حکومت نے قیمتیں بڑھانے کی اجازت نہ دی تو ملک بھرکے نان بائی ہڑتال پر چلے گئے۔ (گو کہ ایک 'سیانے ‘وزیر صاحب نے نان نائیوں کو یہ مضحکہ خیز مشورہ بھی دیا کہ روٹی کا سائز چھوٹا کرلیں‘ قیمت نہ بڑھائیں)
بالآخر گزشتہ ماہ کی 19 تاریخ کو حکومت خواب خرگوش سے ہڑبڑا کر اُٹھی‘ وزیراعظم عمران خان نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم جاری کردیا۔ ذخیرہ اندوز اس حکومتی کاوش سے اس قدر ''متاثر‘‘ ہوئے کہ آٹے کے بعد اب ‘چینی و گھی کے بحران نے بھی جنم لے لیا ہے اور ان کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ آٹے کی قلت کی خبروں کے دوسرے دن کچھ سیا سی معاملات اس طرح سامنے آنا شروع ہو ئے کہ ایسا لگا کہ آٹا اس ڈرامے اور کھیل کا مرکزی کردار تھا‘ جو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف کھیلا جانے والا ہے ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی وزارت ِعظمیٰ چار بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے اور جیسے ہی آٹے کے بحران نے تحریک انصاف کو مشین میں گوندھ کر رکھ دیا تو سب سے پہلے ایم کیو ایم پاکستان‘ بہادر آباد نے اعلان کر دیا کہ ان کے مطالبات چونکہ پورے نہیں کئے جا رہے ‘اس لیے ان کی جماعت نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ وہ حکومتی عہدوں سے علیحدہ ہو جائیں۔
ادھرابھی بہادر آباد والوں کی پریس کانفرنس ختم نہیں ہوئی تھی کہ سردار اختر مینگل کی صورت میں دوسری بیساکھی نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کے ساتھ کئے گئے وعدے بھی پورے نہیں کئے جا رہے‘ اس لیے وہ بھی حکومت سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں اور میڈیاابھی ان کی بریکنگ نیوز چلا کر فارغ بھی نہیں ہوا تھا کہ مسلم لیگ( ق) نے ڈھول پیٹنا شروع کر دیا کہ ان کے ساتھ کیے گئے وعدے بھی پورے نہیں کئے جا رہے‘ اس لئے ان کے پاس اب کوئی چارہ نہیں کہ اپنے رستے الگ کر لئے جائیں۔ ادھرمسلم لیگ (ق) کے چوہدری صاحبان اور ان کے ترجمان طارق بشیر چیمہ میڈیا پر اپنا ڈھول پیٹ رہے تھے کہ سندھ سے چوتھی بیساکھی جی ڈے اے نے کھڑاک کر دیا کہ ان کی بھی کوئی بات نہیں مانی جا رہی ہے ‘ا س لیے انہوں نے سوچا ہے کہ جب ہماری قدر ہی نہیں کی جا رہی ‘ہماری باتیں ہی نہیں تسلیم کی جا رہیں ‘تو پھر اس حکومت میں رہنے کا کیا فائدہ؟'' یعنی وزیر اعظم عمران خان کو چاروں جانب سے گھیر ا جا رہاہے‘لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کس لئے کیا جا رہا ہے؟ کیا ان سے کوئی خاص فیصلہ کروانا مقصود تو نہیں؟
مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم بہادر آباد کے رہنمائوں نے کہا کہ تحریک انصاف جس کی حکومت کا ہم حصہ ہیں‘ اس نے اس قدر مہنگائی کر دی ہے کہ لوگ ہمارے گریبان پکڑ رہے ہیں‘ اگر یہی صورت حال رہی تو اگلے الیکشن میں ہم اپنے حلقے میں کیا منہ لے کر جائیں گے‘ اس لئے ہمیں اپنی سیا ست زندہ رکھنے کیلئے حکومت سے الگ ہونا پڑے گا‘ تاکہ اس مہنگائی کا ہم پر کوئی الزام نہ آ سکے‘ نیز گزشتہ دنوں چوہدری شجاعت حسین نے وزیر اعظم عمران خان کے اعصاب پر سوار ہو کر یہ رٹ لگا رکھی تھی کہ میاں نواز شریف کو فوراً جہاز میں سوار کرا کے لندن بھیجا جائے‘ ورنہ ان کی صحت کی جو صورت ِحال ہے‘ اگر خدا نخواستہ کوئی حادثہ ہو گیا تو اس سے زندگی بھر کیلئے وزیر اعظم عمران خان اس الزام سے جان نہیں چھڑاسکیں گے ۔ چوہدری شجاعت نے میاں نواز شریف کی بیماری کی اس قدر پریشان کن تصویر کھینچی کہ سننے والے بھی اپنی جگہ لرز کر رہ گئے اور پھر وزیر اعظم عمران خان کو وہ فیصلہ کرنا پڑا‘ جس پراب وہ زندگی بھر افسوس کرتے رہیں گے ‘لیکن اس غلطی کا مداوا نہیں ہو سکے گا‘ کیونکہ ان کایہ عمل ان کی سیا سی زندگی اور تحریک انصاف کے منشور اور نعرۂ احتساب کی مکمل نفی کر گیا۔الغرض جس طرح شریف برادران کولندن بھجوایا گیا اور جس طرح حکومت کے اتحادی ایکسپوز ہو رہے ہیں ‘ اس سے سبھی کردار کھل رہے ہیں کہ کس نے کیا کردار ادا کیا اور کون کیا کردار ادا کر رہا ہے۔