'' گرو جی نے مجھے حکم دیا ہے کہ شاہین باغ پہنچو اور وہاں دھرنے کیلئے جمع ہونے والی خواتین اور ان کے بچوں کیلئے لنگر کا بندو بست کرو‘‘ یہ الفاظ ایڈووکیٹ ڈی ایس بھنڈرا کے ہیں‘ جو ویسے تو پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور کارکر ڈوم کورٹ میں وکالت کرتے ہیں‘ لیکن ان دنوں انہوں نے اپنا مسکن شاہین باغ‘ دہلی کے ساتھ ایک پل کے نیچے بنا رکھا ہے اور شاہین باغ کے دھرنے میں موجود مسلم خواتین کے لنگر کے تمام انتظامات بھارت کی سکھ کمیونٹی کی جانب سے کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ شاہین باغ اب محض ایک جگہ کا نام نہیں‘ بلکہ اس کی ایک پوری تاریخ ہے اور یہ وہ تاریخ ہے‘ جس کا سلسلہ 1857ء کی جنگ ِآزادی سے ملتا ہے۔ 1857ء میں جس طرح انگریزوں کے مظالم اور ناانصافی کے خلاف بہادر شاہ ظفرؔ کی قیادت لوگ اکٹھے ہوئے تھے‘ ویسے ہی بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی( نئے دور کا ہٹلر) کے خلاف شاہین باغ میں یہ خواتین دھرنا دئیے بیٹھی ہیں اور جیسے 1857ء کی جنگ ِآزادی نے دہلی سے پھیل کر سارے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا‘ ویسے ہی شاہین باغ سے شروع ہونے والی یہ تحریک بھی ہندوستان کے شہر شہر پھیل چکی ہے۔ 1857ء میں بھی آزادی کی جنگ تھی اور شاہین باغ کی تحریک بھی کسی جنگ ِآزادی سے کم نہیں ۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت علم ِ بغاوت مردوں کے ہاتھوں میں تھا اور آج علم بردار خواتین ہیں۔
شاہین باغ ‘بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن چکا ‘ لہٰذا پہلے تو ڈرا دھمکا کر دھرنا دینے والی خواتین کو ہٹانے کی کوشش کی گئی‘ اس کے بعد ایک جعلی ویڈیو بناکر اسے روپیوں کے بل پر چلنے والی تحریک کہہ کر بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی گئی‘ اس سے شاہین باغ تو بدنام نہیں ہوا ‘ الٹا بی جے پی ‘آئی ٹی سیل کے امت مالویہ کے اوپر ہتک عزت کا ایک کروڑ کا مقدمہ دائر ہو گیا۔ یہ معاملہ انتخاب کے قریب آتے ہی اور بھی سنگین ہوگیا۔ ایسے میں دہلی کے بی جے پی رہنما کپل مشرا نے اسے '' چھوٹا پاکستان‘‘ قرار دے دیا‘ تاہم یہ چال بھی الٹی پڑی‘ کیونکہ الیکشن کمیشن نے اس پر ان پر 18 گھنٹے کی پابندی لگاکر دہلی میں بی جے پی کے چہرے پرکالک پوت دی۔ اس کے بعد رام دیو بابا نے شاہین باغ جانے کا ارادہ کیا ‘تو وہاں کے لوگوں کی طرف سے اسے دھتکار دیا۔ یوں یکے بعد دیگرے اپنے ہتھکنڈوں کو ناکام ہوتا ہوا دیکھ کر بی جے پی نے اپنے متنازع ترجمان سمبت پاترا کو میدان میں اتارا۔ انہوں نے میڈیا کی توجہ ہٹانے کے لیے سی اے اے مخالف احتجاج کو ''توہین باغ ‘‘قرار دے دیا۔ سمبت پاترا کو پتا ہونا چاہیے کہ دنیا ردیف قافیہ سے نہیں چلتی ہے اور اب لوگ اس طرح کی جملہ بازی میں نہیں آتے۔سمبت پاترا نے دعویٰ کیا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ویڈیو کے مطابق‘ ہندوستان کی آزادی کو ختم کرنے کیلئے شاہین باغ میں سازش کی جا رہی ہے۔ ویڈیو میں ایک مقرر لوگوں سے آسام کا ملک کے باقی حصوں سے رابطہ توڑنے کی اپیل کر رہا ہے۔ دراصل شرجیل امام نامی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالبعلم کا یہ ویڈیو شاہین باغ کا نہیں ‘ بلکہ علی گڑھ کا ہے اور اس تقریر یا شرجیل کا شاہین باغ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ادھرآسام کے وزیر ہیمنت بسو شرما کے خلاف‘ جنہوں نے اپنے صوبے میں سی اے اے کے خلاف بی جے پی کے لوگوں کو گھر میں گھس کر مارنے کی بات کہی‘ ان کے خلاف ان مہاشے جی کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا۔ جو آر ایس ایس کے دفتر کو جلنے سے نہیں بچا سکے‘ اب شرجیل کے خلاف میدان میں آگئے اور مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دی ہے۔ بسوا کو پتا ہونا چاہیے کہ آسام میں ''الفا‘‘ نامی ایک علیحدگی پسند پرتشدد تحریک 1979ء سے چل رہی ہے اور اس نے اب تک 20 ہزار سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا ہے۔ ان میں اگر ہمت ہے تو ''الفا ‘‘کے خلاف مقدمہ درج کرائیں‘ تو انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔ الغرض اب شاہین باغ کا ڈنکا پوری دنیا میں بج چکا ہے۔
ہندوستان کے اقتدار پر قابض آر ایس ایس کے مذہبی جنونیوں اور اس کی اتحادی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کے مرکزی وزیر انو راگ ٹھاکر نے دہلی میں ایک ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا '' بھارتی آئین میں کی جانے والے ترمیم کا کوئی غدار تمہیں کہیں بھی اور کسی بھی جگہ نظر آئے تو وہ غدار موت کا حق دار بنا دو‘‘ انو راگ ٹھاکر کے بھاشن کے بعد ٹھیک دوسرے دن جب جامعہ ملیہ کے طلبا مودی سرکار کے متعارف کرائے این آر سی اور سی اے اے کے خلاف احتجاج کیلئے باہر نکلے تو راشٹریہ کے ایک انتہا پسند نے تیس جنوری کی دوپہر '' یہ لو آزادی‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ر انو راگ ٹھاکر کے حکم کو دہراتے ہوئے ان طلبا پر سیدھی فائرنگ شروع کر دی‘ جس سے ایک طالب علم شدید زخمی ہو گیا اور یہ سب کچھ پولیس نے اسے آسانی سے فرار کا موقع بھی فراہم کیا۔وہ تیس جنوری کا ہی دن تھا‘ جب 72برس قبل30 جنوری1948ء کو اسی راشٹریہ سیوک سنگھ کے ایک انتہا پسند ہندو نے گاندھی جی کا قتل کیا تھا ۔ ابھی تیس جنوری کی انتہا پسند راشٹریہ کی فائرنگ کی باز گشت گونج ہی رہی تھی کہ اس کے دو دن بعد ایک اور واقعہ ہو گیا جب شاہین باغ میں دھرنا دیئے بیٹھی ہوئی خواتین کی حفاظت کیلئے دائرے میں کھڑے ہوئے نو جوانوں پر ایک ہندو انتہا پسند نے یہ چلاتے ہوئے فائرنگ شروع کر دی کہ '' ہندوستان میں صرف ہندو بن کر رہنا پڑے گا اور جو ہندو نہیں‘ وہ یہاں سے بھاگ جائے ‘ورنہ اسے ختم کر دیں گے‘‘۔اس کے بر عکس پاکستان میں سرکاری سطح پر مذہبی رواداری کا اندازہ کیجئے کہ بھارت کا مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر جیسا بھاشن دینا تو بہت دُو رکی بات ہے ‘پنجاب کے ایک صوبائی وزیر کو انڈیا کے حوالے سے ہندوئوں کے خلاف ایک معمولی سا بیان دینے پر اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا‘ کیونکہ پاکستان میں مقیم ہندو برادری نے سمجھاتھاکہ یہ الفاظ اُن کو کہے گئے تھے۔
راشٹریہ سیوک سنگھ اوربھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے فائرنگ اور دھمکیوں کے بعد کیٹرنگ کمپنیاں جہاںسے شاہین باغ میں بیٹھی ہوئی خواتین کیلئے کھانا خریدا جاتا تھا ‘انہیں دہلی پولیس اور انتظامیہ کی دھمکیوں کے بعد ان ہوٹلوں اور کیٹرنگ کمپنیوں نے جب کھانا فراہم کرنا بند کر دیا‘ تو ان کے لنگر کی ذمہ داری سکھوں کی تنظیم نے سنبھال لی اور اب ڈی ایس بھنڈرا ایڈووکیٹ نے سی اے اے کے خلاف دھرنے سے چند گز دُور اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ایک اوور ہیڈ برج کے نیچے لنگر خانہ قائم کر رکھا ہے۔ڈی ایس بھنڈرا کو یقین ہے کہ گرو جی نے اسے لنگر کا جو حکم دیا ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ان کی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ پورے بھارت سے سکھ شاہین باغ پہنچ رہے ہیں۔ادھر آر ایس ایس اور مودی سرکاران کی گوشمالی کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں‘ کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ شاہین باغ ان کیلئے نیا جلیانوالہ باغ نہ بن جائے ۔