ممبئی حملوں کو طویل عرصہ ہو چکا‘ لیکن اس سانحے کی بازگشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔ کبھی سرحد کے اس جانب سے کبھی دوسری جانب سے۔ کبھی آرٹیکلز کی صورت میں اور کبھی کتاب کی شکل میں۔ آج اسی حوالے سے لکھی گئی ایک کتاب کا جائزہ لیتے ہیں۔
''پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح سمیر چوہدری جیسا ایکٹ پھر سے دہراتے ہوئے اجمل قصاب کو بھی جیل کے اندر ہی ٹھکانے لگا دیا جائے تاکہ بھارت کے ہاتھ آیا ہوا 26/11 کے ممبئی حملوں کا واحد دہشت گرد ہی غائب کر دیا جائے لیکن انڈین ایجنسیوں کو اطلاعات مل رہی تھیں کہ لشکر طیبہ اور آئی ایس آئی نے دائود ابراہیم نیٹ ورک کے ذریعے اجمل قصاب کو جیل کے اندر قتل کرنے کی پوری پلاننگ کر لی ہے۔ ان کی یہ سب کوششیں ایک ایک کر کے ''را‘‘ نے ناکام بنا دیں‘‘۔
یہ اقتباس ہے ممبئی پولیس کے حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے کمشنر راکیش ماریہ کی ممبئی حملوں پر ''LET ME SAY IT NOW'' کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب سے‘ جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اجمل قصاب کو آئی ایس آئی نے جیل میں ہی اپنے کسی ساتھی کے ذریعے قتل کرانے کی پوری تیاری کر رکھی تھی؛ چنانچہ بھارت سرکار نے اجمل قصاب کو جیل میں ایک ایسی جگہ بند کر دیا جہاں کسی بھی غیر متعلقہ فرد کو آنے جانے کی اجازت نہیں تھی‘ یہاں تک کہ کم درجے کے جیل ملازمین کی ذمہ داریاں بھی اجمل قصاب سے ہٹا لی گئیں۔ صرف با اختیار افسران کو ہی اس کے سیل تک جانے کی اجا زت تھی اور اس کی خوراک سب سے پہلے اس قیدی کو کھلائی جاتی جو اسے (خوراک) لے کر اس کے سیل تک جایا کرتا تھا۔
مضحکہ خیزی ملاحظہ کیجئے کہ ایک جانب تو ممبئی پولیس کمشنر راکیش ماریہ کہتے ہیں کہ لشکر طیبہ اور آئی ایس آئی سے اجمل قصاب کو بچانے کیلئے اسے سخت پہرے میں جیل کے اندر علیحدہ سیل میں رکھا گیا تھا‘ لیکن اپنی اسی کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ ممبئی پولیس اجمل قصاب کو لے کر شیوا جی ٹرمینس پہنچی اور جس جگہ کھڑے ہو کر اس نے کلاشنکوف سے فائرنگ کرتے ہوئے ساٹھ سے زائد افراد کو قتل اور کئی درجن لوگوں کو زخمی کیا تھا وہیں اسے گھٹنوں کے بل جھکا کر فرش پر بار بار اس کی ناک رگڑتے ہوئے اس سے جے ہند کا نعرہ لگوایا گیا اور یہ سلسلہ کئی منٹ تک جاری رکھا گیا۔ اجمل قصاب سے اس دوران متعدد مرتبہ بھارت کی مٹی کو چومنے اور ماتھا رگڑنے کا عمل کرایا جاتا رہا۔
راکیش ماریہ لکھتے ہیں: پاکستان کا منصوبہ یہ تھا کہ اجمل قصاب کو جیل کے اندر قتل کرانے کے بعد میڈیا کے ذریعے ''ہندتوا دہشت گردی‘‘ کا اسی طرح بھرپور پروپیگنڈا کیا جائے جیسا سمیر چوہدری کے منگلور جیل میں قتل کے بعد کیا گیا تھا۔ جس طرح سمیر چوہدری کے انڈین پولیس کی حراست میں قتل کے بعد جعلی شناختی علامات موقع پر پھینکی گئی تھیں‘ اسی طرح دائود ابراہیم کے نیٹ ورک کے ذریعے بھارت کے ہی کچھ لوگوں کے جعلی ایڈریس اور شناختی کارڈ پھینکنے جانے تھے‘ اس طرح یہ تاثر دیا جاتا کہ راشٹریہ سیوک سنگھ کے انتہا پسند اجمل قصاب کو قتل کرنے کے بعد جلدی میں اپنے شناختی کارڈ گرا گئے ہیں۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ ممبئی جیل کے اندر باہر کے لوگ ایسی جگہ پہنچ جاتے جہاں اجمل قصاب کو مبینہ طور پر سخت پہرے میں بند رکھا ہوا تھا؟ اگر راکیش ماریہ دائود ابراہیم کے نیٹ ورک کا ذکر کرتے ہیں یا لشکر طیبہ سمیت پاکستانی خفیہ اداروں کا نام لے رہے ہیں تو جب اجمل قصاب کو ممبئی پولیس شیوا جی ٹرمینس لے جا رہی تھی تو اس وقت راستے میں کسی بھی جگہ اس پر حملہ کیا یا کرایا جا سکتا تھا‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جب شیوا جی ٹرمینس پر اس کی ناک رگڑوائی جا رہی تھی تو وہاں پر اسے نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ راکیش ماریہ کتاب لکھتے ہوئے کچھ عقل سے کام لے لیتے تو اپنی کتاب میں ایسی بے تکی باتوں کا سہارا نہ لیتے۔ راکیش ماریہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ اجمل قصاب کو پاکستان میں برین واشنگ کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ انڈیا میں کسی کو مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی‘ نہ ہی اذان دینے کی اجازت ہے؛ چنانچہ اجمل قصاب کو ممبئی پولیس مسجد میں لے کر گئی تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے کہ ممبئی میں مسلمان کس طرح نماز ادا کرتے ہیں۔ اسے مسجد کے قریب لے جا کر اذان بھی سنوائی گئی تاکہ اس کی یہ غلط فہمی بھی دور کی جا سکے۔ کیا یہ سب لطیفہ بازی نہیں کہ چند دنوں بعد پھانسی دیے جانے والے شخص کو ایک جانب آپ جیل کے اندر سات پہروں میں رکھتے ہیں لیکن دوسری طرف اسے لئے مسجدوں میں پھر رہے ہیں اور شیوا جی ٹرمینس لے جا رہے ہیں۔ اگر آئی ایس آئی کا واقعی اجمل قصاب کو قتل کرانے کا کوئی پروگرام ہوتا تو کیا اس دوران بقول آپ کے دائود ابراہیم کا نیٹ ورک اجمل قصاب کو ٹھکانے لگانے کی کوشش نہ کرتا؟۔
اجمل قصاب کو سزائے موت سنانے والے جج مدن تہلیانی کا 1522 صفحات پر مشتمل فیصلہ پڑھ لیجئے اس میں وہ لکھتے ہیں کہ مجھے اس مقدمے کا فیصلہ کرنے میں اجمل قصاب کی شیوا جی ٹرمینس پر تصویر اتارنے والے اخبار ڈیلی مرر کے فوٹو گرافر ڈی سوزا نے بہت مدد کی کیونکہ اس کی اس تصویر سے مجھے بہت رہنمائی ملی۔ فیصلے میں باقاعدہ اس نے ڈی سوزا کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ لیکن ممبئی پولیس کا وہ کمشنر جس نے اجمل قصاب کو زیر حراست رکھا‘ جس نے اجمل قصاب کی تفتیش کی‘ جس نے اس کا چالان تیار کر کے جج مدن تہلیانی کی عدالت میں پیش کیا‘ وہ اپنی کتاب میں اجمل قصاب کی تصویر بارے کہتے ہیں: ''It was hand work of Central Agencies''۔ راقم اپنے رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہوئے اپنی کتاب ''چھبیس گیارہ اجمل قصاب اور ہیمنت کرکرے‘‘ کے صفحہ 84 کا حوالہ دینا چاہے گا ''کیا یہ کمال نہیں کہ اجمل قصاب اور ابو اسماعیل بقول بھارتی پولیس کے ایک ہی دروازے سے شیوا جی ٹرمینس کے اندر داخل ہوتے ہیں اور اکٹھے ہی ٹرمینل کے مختلف حصوں میں فائرنگ کرتے ہیں اور اکٹھے ہی شیوا جی کے مرکزی دروازے سے باہر نکلتے ہیں‘ لیکن کیا وجہ ہے کہ شیوا جی ٹرمینس پر تصویر صرف اجمل قصاب کی ہی سامنے لائی جاتی ہے؟ ممبئی پولیس چیف راکیش ماریہ اپنی کتاب میں انکشاف کرتے ہیں کہ اجمل قصاب کو ممبئی مشن پر بھیجنے سے پہلے سوا لاکھ روپیہ اور ایک ہفتے کی رخصت دی گئی تھی تاکہ وہ اپنے گھر والوں سے مل سکے اور بقول اجمل قصاب کے اس نے اپنے والدین کو سوا لاکھ روپیہ اپنی بہن کی شادی کیلئے دیا تھا‘‘۔
کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے مگر کیا کہا جائے کہ بھارت کے پاس جھوٹوں کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔ ممبئی کرائمز برانچ کی جانب سے جج مدن تہلیانی کے سامنے پیش کی گئی فرد جرم کو غور سے پڑھئے۔ اس میں اجمل قصاب کے اقبالی بیان کی ریکارڈنگ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ہم سب دس لوگ کراچی میں سخت پہرے میں رکھے جاتے تھے‘ ہمیں کہیں بھی آنے جانے کی اجا زت نہیں تھی اور اسی بڑے سے گھر‘ جہاں ہمیں رکھا گیا تھا‘ سے ہمیں ساحلی علاقے میں لے جا کر کشتی میں سوار کرایا گیا۔ ممبئی کرائمز برانچ کی فرد جرم میں کہیں بھی ذکر نہیں کہ اجمل قصاب کو سات دن کی رخصت دی گئی۔ ممبئی کرائمز برانچ کی فرد جرم‘ جس پر اسے سزائے موت دی گئی‘ کے کسی ایک صفحے پر بھی ذکر نہیں کہ اجمل قصاب اور اس کے ساتھیوں کو کراچی کی اس عمارت سے باہر اکیلے دکیلے آنے جانے کی اجا زت تھی۔