"MABC" (space) message & send to 7575

افغانستان میں امن کا راستہ اور پاکستان

افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں اور اس کیلئے افغانستان میں امریکیوں کو بھارت کے ہاتھ گرم کرنے کی بجائے نرم کرنا ہوں گے؛ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو پھر سب کچھ رائیگاں تو جائے گا‘ ساتھ ہی سمجھ لیں کہ امریکا پاکستان کیخلاف 1988ء جیسا کھیل پھر کھیل سکتا ہے۔
پاکستان کو امریکا کا اتحادی بننے کی سزا کے طور پر اس قدر زیا دہ قیمت چکانا پڑی کہ دہشت گردی کے باعث اسے اپنی سلامتی کے لالے پڑگئے‘ لیکن اب کی بار ایک تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ القاعدہ اور طالبان کی صورت میں اپنی کی گئی غلطیوں کی سزا پاکستان کے ساتھ امریکا اور اس کے اتحادی تمام مغربی ممالک کو بھی برابر بھگتنا پڑ ی اور کوئی دن ایسا نہیں گیا‘ جب ان ممالک میں دہشت گردانہ کارروائی نہ ہوئی ہو ۔
اکتوبر2001 ء میں شروع ہونے والی افغان جنگ میں اب تک2440 امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں اور اس کے اتحادیوں کے 20320 سکیورٹی اہلکار زخمی ہو چکے‘ جبکہ1720 امریکی کنٹریکٹر کی ہلاکتیں ان کے علاوہ ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق‘مجموعی طور پرموجودہ افغان جنگ میں157,000 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے‘ اگست2018 ء تک کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق‘3459 نیٹو اور ایساف فورسز کے افسر اور جوان بھی افغان جنگ میں کام آئے ۔اس سے اندازہ کیجئے کہ صرف 2009ء کے ایک سال میں افغانستان میں 700 سے زائد بم دھماکے ہوئے۔اکتوبر2001ء سے اب تک اگر افغانستان میں امریکی کامیابیوں کی فہرست دیکھی جائے تو سوائے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے والے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے علا وہ افغانستان میں اپنے دوست بھارت کے قدم جمانے کے امریکیوں کا اور کوئی قابل ِذکر کارنامہ نظر نہیں آتا ہے ۔ 
روس کی افغانستان میں شکست ِ فاش کے بعد امریکا نے بھی افغان جنگ میں یکے بعد دیگرے جو فاش غلطیاں کیں‘ ان میں سے اوّل‘ روسی قبضے کے خلاف جنگ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی اعانت اور ذہانت سے لڑی گئی‘ لیکن روسی فوجوں کے واپسی پلان تیار کرتے ہوئے ‘ان کی اس رائے کو کوئی اہمیت نہ دی کہ افغانستان میں سیا سی عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے اس وقت تک جنیوا معاہدہ پر دستخط نہ کئے جائیں‘ جب تک افغان مجاہدین کو با قاعدہ ایک پارٹی کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے افغانستان میں عبوری حکومت کی تجویز منظور نہیں کی جاتی۔ دوم‘جب افغانستان کی پانچ سو اراکین کی مجلس شوریٰ نے متفقہ طور پر ایک عبوری حکومت قائم کرکے حالات کو سنبھالا دینے کی کوشش کی تو اس وقت کچھ ممالک نے اس عبوری حکومت کو تسلیم کر لیا اور ساتھ ہی بہت سے مسلم ممالک اس انتظار میں رہے کہ جونہی پاکستان اسے تسلیم کرلے گا‘ تو وہ بھی اس حکومت کو تسلیم کر لیں گے ۔اس عبوری افغان حکومت کے وزیر خارجہ گلبدین حکمت یار اپنی سرکاری حیثیت سے دورۂ امریکا بھی کر آئے تھے‘ لیکن اس وقت امریکا نے پاکستان پر اس قدر دبائو ڈالا کہ وہ اسے تسلیم کرتا کرتا رہ گیا۔سوم‘جب نجیب حکومت آخری دم پر تھی تو اس وقت کا معاہدۂ پشاور‘ افغانستان کے حالات کو سنبھالا دے سکتا تھا ‘لیکن پشاور کے اس معاہدے میں امریکی دبائو پر ایک طاقتور گروپ کو کو باہر رکھا گیا‘ جس کا نتیجہ ساری دنیا نے اس طرح بھگتا کہ سب کی چیخیں نکل گئیں۔چہارم‘ او آئی سی سے بھی ایک غلطی ہوئی کہ معاہدہ اسلام آباد کے مطابق ‘جس کے ضامن پاکستان‘ ایران اور سعودی عرب تھے؛ افغانستان میں جاری آپس کی جنگ بندی کیلئے کمیشن تشکیل دینے کی کوئی ایک بھی کوشش نہیں کی‘ جس سے حالات مزید بگڑ گئے۔پنجم‘امریکا اچھی طرح جانتا تھا کہ افغان مہاجرین کی اولادیں اور اس جنگ میں دنیا بھر سے آنے والوں کی اکثریت مدرسوں کی فارغ التحصیل ہیں‘ ان کی حاصل کردہ تعلیم اور تربیت میں انہیں ایک ہی بات بتائی گئی تھی کہ روسی کمیونسٹ اور سیکو لر قابل قتل ہیں تو پھر امریکا نے ان مجاہدین کو نظر انداز کرتے ہوئے افغانستان میں روس ہی کی پروردہ نجیب حکومت قائم کرنے کی سنگین غلطی کیوں کی؟الغرض سانحہ ٔنائن الیون جیسی بھاری قیمت چکانے کے بعد بھی امریکی فیصلہ ساز بھٹک کر رہ گئے اور ظاہر شاہ کی پیرانہ سالی اور معذوری کی وجہ سے حامد کرزئی کو رات کی تاریکی میں کابل لا کر لوئی جرگہ کے ذریعے تخت نشین کر وادیا‘ بالکل اسی طرح جیسے 1840 ء میں برطانیہ نے دس ہزار برطانوی فوجیوں کے سائے میں شاہ شجاع کو کوئٹہ سے کابل لا کر تخت نشین کروایا تھا۔ یہ درست ہے کہ افغانستان میں لوئی جرگہ کی ایک روایت ہے‘ لیکن آج کے حالات میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ۔آج افغانستان میں طاقت کا توازن لوئی جرگہ والوں کے پاس نہیں‘ بلکہ کسی اور کے پاس ہے ‘جس سے امریکا امن مذاکرات کرتا رہا اور یہی وہ امریکی غلطی تھی ‘جس نے افغانستان ‘ پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک میں دہشت گردی کو پروان چڑھایا۔
افغانستان میں امریکا اپنی مرضی کی حکومت بنوا نے کے بعد ابھی تک اسے طول دیئے جا رہا تھا‘ جو اس کی ایک اور غلطی تھی‘ کیونکہ بیساکھیوں پر کھڑی ہوئی حکومت اس وقت کیا کرے گی‘ جب امریکا یہاں سے مکمل طور پر نکل جائے گا؟ امریکیوں نے شمالی علاقوں کی خاموشی کو اپنی فتح قرار دینے کی کوشش کی اور یہی اس کی خود فریبی اور غلطی تھی اس وقت تک شمالی حصوں میں عسکری طاقت تین گروپوں میں بٹی ہوئی تھی ‘جس میں دوستم کی ملیشیا‘ عطا محمد نور کی جمعیت اسلامی اورہزارہ پولیٹیکل پارٹی کے سربراہ محمد محقق قابل ذکر تھیں‘ نیز جب2014-15 ء میں امریکی افغانستان سے اپنے قدم نکالنے کی بات کر رہے تھے۔ اس وقت پاکستان کے عسکری ادارے نے انہیں خبردار کر دیا تھا کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کیے بغیر وہاں قیا مت کا سماں ہو گا‘ کیونکہ جونہی امریکی افواج اور نیٹو نکلنا شروع ہوں گے تو ساتھ ہی افغانستان کا بجٹ 80 فیصد تک کم ہو جائے گا ‘کیونکہ امریکی اور مغربی ممالک افغانستان سے ہاتھ کھینچنا شروع ہو جائیں گے اور ایک محتاط اندازے کے مطا بق‘ اس سے کم از کم تیس ہزار کے قریب لوگوں کے بے روزگار ہو نے کا امکان ہے‘ کیونکہ جب امریکا اور اس کے اتحادیوں کے جانے سے افغانستان کے وار لارڈز کو گزشتہ دس برس سے ملنے والے ان کی جگہوں اور زمینوں کے کرائے بند ہو جائیں گے‘ توافغانستان کی کرپٹ ترین حکومت اپنا کنٹرول کھو بیٹھے گی‘ تو کیا اس وقت بھارت‘ کابل میں اپنے سفارخانے تک محدود رہے گا یا اپنی سکیورٹی فورسز جو مختلف منصوبوں اور افغان فوج کی تربیت کے نام پر وہاں موجود ہیں‘ میدان ِعمل میں اتارے گا؛ اگر ایسا ہوا تو دنیا دیکھے کی امریکا کا ساتھ دینے والی قوتوں کیلئے افغانستان مقتل گاہ بن کر رہ جائے گا ۔
دوحہ‘ قطر میں امن مذاکرات کامیابی کی جانب بڑھتے ہوئے عبوری دستخط تو ہو گئے‘ لیکن حسب ِعادت اشرف غنی نے گھر پہنچتے ہی بھارت کی تیار کی گئی پریس کانفرنس میڈیا کے سامنے پڑھتے ہوئے ان تاریخی امن مذاکرات کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے شک کی فضا پیدا کر دی‘ اگرافغان صدر اشرف غنی کے بیانات کے ریکارڈز غور سے ملاحظہ کریں تو افغانستان سے باہر وہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستی اور بھائی چارے کا سبق دیتے سنائی دیئے ‘لیکن جیسے ہی وہ بھارت کی سر زمین پہنچے یاکابل اترے ‘جہاں ان کے ارد گرد بھارت کی تیار کی گئی سکیورٹی فورسز کا گھیرا تھا‘ تو وہ بھارت کی زبان بولنا شروع ہو گئے۔عرض کرنے کا مطلب ہے کہ افغانستان سے امریکا کے امن مذاکرات کامیاب تو ہو گئے ‘جس پر دنیا بھر کے قائدین اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں‘ لیکن کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ افغانستان میں روسی مداخلت سے لے کر امریکی مداخلت تک پاکستان نے کتنے زخم کھائے اور نقصان اٹھایا ہے۔ بقول شاعر؎ 
تمہیں خبر ہی نہیں کیسے سَر بچایا ہے 
عذاب جاں پہ سہا ہے تو گھر بچایا ہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں