"MABC" (space) message & send to 7575

برادر مسلم ممالک کے نام

بھارت کی وزیر خزانہ نرملا سدرامن سے 29 نومبر 2019 کو بھارتی معیشت میں بڑھنے والی کساد بازاری اور گراوٹ کی خبروں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ''سلو ڈائون‘‘ کا مطلب کساد بازاری نہیں بلکہ اب تو بھارت کی معیشت بہتری کی جانب جا رہی ہے‘ کساد بازاری اس وقت ہوتی ہے جب متواتر دو سال تک معیشت نیچے کی جانب کھسک رہی ہو۔ بھارت کی وزیر خزانہ کے برعکس بھارتی حکومت کے معیشت سے متعلق تھنک ٹینک نیتی آیوگ کے سربراہ نے وزیر اعظم مودی کو بھیجی گئی اپنی رپورٹ میں نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس وقت بھارت کی معیشت جس تیزی سے ''Slow down'' ہو رہی ہے اس کی مثال گزشتہ 70 برسوں میں نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنا قومی فرض ادا کرتے ہوئے وارننگ دے رہے ہیں کہ اگر کچھ مخصوص صنعتوں کی جانب دھیان نہ دیا گیا تو اس کے نتائج بھارت کیلئے خوفناک نکل سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بھارت بھر میں بے روزگاری اس حد تک بڑھ جائے کہ اس سے پیدا ہونے والی سماجی برائیوں سے نمٹنا مشکل ہو جائے گا۔ چیف اکنامک ایڈوائزر برائے نریندر مودی کے سبرامینن نے نیتی آیوگ کے اس خط پر اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ''بھارت کو ان صنعتوں کو خصوصی فنڈز اور مدد دینے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان صنعتوں کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات کرتے ہوئے زمین اور لیبر قوانین میں بہتری لائیں‘ اس طرح ہم جلد ہی حالیہ مشاہدے میں آنے والی کساد بازاری سے نکل آئیں گے۔ اس وقت نریندر مودی کے سٹاف میں بیٹھے ہوئے ماہرینِ اقتصادیات انہیں اسی قسم کی تسلیاں دینے کے علاوہ بھارتی سوشل میڈیا اور اخبارات کے مضامین اور اداریوں سے پیدا ہونے والی عوامی تشویش کو کم کرنے کی کوششوں میں مصنوعی اعداد و شمار اور تجزیے دینے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔
بیلجئم کے انٹرنیشنل واچ ڈاگ (The Committee for the Abolition of Illegitimate Debt (CADTM)) نے جون 2019 میں رپورٹ دیتے ہوئے لکھا کہ بھارت کا کارپوریٹ ڈیٹ (corporate debt)گولے کی طرح اوپر کی بڑھ رہا ہے اور حالات بتا رہے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب یہ ڈیٹ خطرناک حد تک بڑھ جائے گا۔ اس کیلئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ بھارت کی ٹائیکون قسم کی صنعتی ایمپائرز ''متل، پاور سیکٹر، اور Telecommunications کو دیکھ لیجئے جس کا ڈیٹ چالیس فیصد تک چلا گیا ہے۔ 2017-18 میں جب بھارت کے ہوا بازی اور پرائیویٹ بینکنگ سیکٹر سکڑنا شروع ہوئے تو اس پر خاموشی اختیار کئے رکھی گئی جبکہ دنیا دیکھ رہی تھی کہ ابو ظہبی کی اتحاد ایئر ویز‘ جس نے بھارت کی جیٹ ایئر ویز کے 24 فیصد شیئرز خرید رکھے تھے‘ اس وقت بھارت کے سینٹرل بینک کو واپس بیچنے کی کوشش ہو رہی تھی‘ جب جیٹ ایئر ویز دیوالیہ ہو چکی تھی اور اس کا خسارہ 1.2 ارب ڈالر ہو چکا تھا جو بھارتی کرنسی کے مطابق 72.99 ارب بنتا ہے۔
جب ہم بھارت کے کارپوریٹ سیکٹر کی بات کرتے ہیں تو فوری طور پر ہمارے سامنے جو نام آتے ہیں ان میں برلا، ٹاٹا، امبانی اور متل سب سے نمایاں ہوتے ہیں اور ان کے اندرونی اکائونٹس اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے دفاتر سے ملنے والی رپورٹس سے کوئی بھی انسان چونک سا جاتا ہے کیونکہ حالات بتا رہے ہیں کہ ان کے غبارے سے بھی جلد ہی ہوا نکلنے والی ہے۔ اس سلسلے میں انڈیا ٹوڈے میں 15 مارچ 2019 کو شائع شدہ رپورٹ اور تجزیہ جس کا عنوان ''انیل امبانی‘‘ تھا‘ پڑھنے کے بعد چونک جانا قدرتی امر ہے کیونکہ کچھ عرصہ قبل امبانی کا گھر اور اس کی بیٹی کی شادی دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے۔ امبانی کے پاس دولت کی بے تحاشا فراوانی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس اہم ترین فنانسر کی امارت اور شان و شوکت کی کہانیاں لوک داستانوں کی طرح گھر گھر بیان کی جاتی ہیں‘ لیکن اس وقت اس صنعتی اور کاروباری ٹائیکون کے حالات کھل کر بتا رہے ہیں کہ بھارت کا یہ سٹار بزنس مین جلد ہی ڈیفالٹ ہونے جا رہا ہے اور یہ کوئی گپ شپ نہیں بلکہ انڈین سپریم کورٹ میں اس کے خلاف سویڈن کی فرم‘ جو اسے ٹیلی کام میں معاونت فراہم کرتی رہی‘ نے اس کی ادائیگی کرنے کی بجائے ڈیفالٹر ہونے پر اسے جیل بھجوانے کی دھمکی دیتے ہوئے 550 کروڑ روپے ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ رقم امبانی تاحال سویڈش فرم کو ادا نہیں کر سکے ہیں۔ 
بھارت کے کارپوریٹ سیکٹر کی زبوں حالی کا ایک اور منہ بولتا ثبوت کنگ فشر ہے‘ جو بھارت کے صنعتی ٹائیون وجے ملایا کی ملکیت تھا۔ یہ کاروبار اس وقت زمین بوس ہو گیا جب اس کا مالک بینکوں، سٹاف، ایئر پورٹ انتظامیہ اور اپنے حصہ داروں کو ادائیگیاں کرنے کے قابل بھی نہ رہا۔ ایک وقت تھا کہ کنگ فشر بھارت کی کرکٹ ٹیم کے یونیفارم کا لوگو بنا ہوا تھا۔ کوئی ایسا منصوبہ جس میں آپ کا بھائی یا قریبی دوست سرمایہ کاری کر رہا ہو یا اس سرمایہ کاری میں اپنا سرمایہ اور حصہ مزید بڑھانے کی جانب توجہ دے رہا ہو اور آپ کو یہ پتہ چل جائے کہ اس کاروبار اور سرمایہ کاری کا گراف انتہائی نیچے کی جانب جا رہا ہے تو اپنے دوست کو سمجھانا یا با خبر کرنا فرض ہو جاتا ہے اور یہی کچھ دیکھتے اور سنتے ہوئے اپنے برادر مسلم ممالک‘ جن میں مسقط، کویت اور خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے انتہائی قریبی اور مہربان دوست شامل ہیں‘ کو خبردار کرنا فرض بن جاتا ہے کہ جب دنیا بھر کے ماہرینِ معاشیات مشورے دے رہے ہیں کہ بھارت کی بہت سی بڑی صنعتیں زوال پذیر ہونے جا رہی ہیں‘ تو وہ ان میں کی جانے والی اپنی سرمایہ کاری سے ہاتھ روک لیں۔ ہمارے برادر مسلم ممالک سعودیہ اور امارات کو اگر کسی اور کی بات پر اعتبار نہیں تو پھر بھارتی وزارت خزانہ اور اکنامک ڈویژن کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں جو بتا رہا ہے کہ جولائی سے ستمبر تک کی سہ ماہی میں بھارت کی جی ڈی پی گروتھ 4.5 فیصد گر گئی ہے۔ یہ کسی کی ذاتی رائے نہیں بلکہ اکنامک ٹائمز کی 29 نومبر 2019 کی رپورٹ سب کچھ بتا رہی ہے۔
اگر بھارت کے بینکنگ سیکٹر کو دیکھیں تو سب اپنی اپنی جگہ بیٹھے رو رہے کیونکہ مودی سرکار ان بینکوں کو مجبور کرتی رہی کہ وہ ان کے منظورِ نظر صنعتی ٹائیکونز کو کھلے دل سے قرضے دیتے جائیں اور ان قرضوں میں سے زیادہ تر میں مودی کے نام نہاد سیاسی ترقیاتی منصوبے شامل تھے۔ بغیر دیکھے اور تحقیق کئے گئے سیاسی پروجیکٹس کو بے تحاشا قرضے دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ''Non performing assets‘‘ کی شکل میں 150 ارب ڈالر بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے صنعت کاروں کے پیٹوں میں چلے گئے اور بھارتی بینک خالی ہاتھ ان کے منہ تکتے رہ گئے۔ اندازہ کیا جا رہا ہے کہ 2020 تک یہ ''NPA Black Hole'' 200 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سیاست دانوں، بیوروکریسی اور سرمایہ داروں کا ٹرائیکا‘ جو بینکوں کو کنٹرول کرتاہے‘ نریندر مودی کے دور حکومت میں اب تک بینکوں کے سرمائے کا پانچ سے چھ فیصد ''رائٹ آف‘‘ کروا چکا ہے۔ لیکن ان بینکوں کو باپ کا مال سمجھ کر لوٹنے والوں کو قابو کرنے کی بجائے بھارتی عوام کے فنڈز اور سرمائے سے ان بینکوں کو ایک بار پھر بھرنے اور ان کی ساکھ بحال کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بھارت اور دنیا بھر کے اخبارات اور معیشت سے منسلک جرائد میں جو بین الاقوامی ماہرین کل تک شائننگ انڈیا کی باتیں کرتے نہ تھکتے تھے‘ وہ اب انتہائی افسوس اور حیرت سے بھارت کی کساد بازاری پر رپورٹیں لکھ رہے ہیں۔ ان کے پیش کردہ تجزیوں کو سامنے رکھتے ہوئے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ بھارت میں ہمارے مسلم برادر ممالک کی سرمایہ کاری بھی ڈوب سکتی ہے اس لئے ایک مسلم بھائی کی حیثیت سے ان کو محتاط رہنے کا مشورہ ہی دیا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں