"MABC" (space) message & send to 7575

شاباش ’’حسب ِ حال ‘‘اور فیاض الحسن چوہان!

معروف فنکار امان اللہ خان گزشتہ دنوں رحلت فرما گئے۔ وہ پھیپھڑوں ‘ گردوں اور دل کے عارضہ کے باعث ہسپتال میں زیر علاج تھے ‘ تاہم وہ جانبر نہ ہو سکے۔تمام عمر لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والا یہ فنکار جب انتقال کر گیا‘ تو لاہور شہر کے مضافات میں واقع ایک نجی سوسائٹی نے ان کی قبر بنانے پر تنازع کھڑا کر دیا اورسوسائٹی کے قبرستان میں دفنانے کیلئے دو گز زمین دینے سے انکار کر دیا گیا۔ ایک جانب اس شہرۂ آفاق فنکار کے دوست اور لواحقین اسے قبر میں اتارنے کیلئے سوسائٹی کے کرتا دھرتاؤں کی منتیں کر رہے تھے ‘تو دوسری جانب پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہائوس'' دنیا ‘‘ کا سب سے زیا دہ دیکھا جانے والا پروگرام''حسب ِحال ‘‘امان اﷲ خان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس پیش کرتے ہوئے انہیں خراج ِتحسین پیش کر رہا تھا۔
''حسب ِحال ‘‘کے عزیزی( سہیل احمد ) اور اینکر جنید سلیم نے ناظرین کو بتایا کہ امان اللہ صاحب نے 860سٹیج ڈراموںمیں کام کیا‘ جو ایک ریکارڈ ہے۔انہوں نے طویل عرصہ فن کی خدمت کی اور دنیا ٹی وی کے ایک ہردلعزیز پروگرام ''مذاق رات‘‘ کے ذریعے بھی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے رہے۔ قدرت نے انہیں جن صلاحیتوں سے نوازا تھا‘ وہ بہت کم انسانوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ ان کے فن کی سب سے بڑی خوبی طنز اور بے ساختگی تھی‘ وہ اپنے مشاہدے کی بدولت ایسا مزاح تخلیق کرتے کہ ناظرین حیرت زدہ رہ جاتے۔دنیا ٹی وی کے پروگرام ''حسب ِحال ‘‘کے میزبان جنید سلیم اور عزیزی( سہیل احمد) جب اس دنیا سے رخصت ہونے والے امان اﷲ خان صاحب کی فن کارانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے ان کی زندگی کے مہ وسال کے واقعات سنا رہے تھے‘ تو شاید ان تک یہ اطلاع نہیں پہنچی ہو گی کہ جس عظیم فنکار کو وہ خراج تحسین پیش کر رہے ہیں‘ وہ لاہور کی ایک مضافاتی سوسائٹی میں اپنی تدفین کیلئے بے یارو مدد گار پڑا ہوا ہے ۔
لواحقین کی جانب سے اطلاع دی گئی کہ امان اﷲ خان صاحب کی نماز ِ جنازہ شام چار بجے ادا کی جائے گی‘ جس کی ادائی کیلئے ان کے دوست و احباب ‘ پرستاراور شو بز سے تعلق رکھنے والی بہت سی شخصیات چار بجے کے قریب وہاں پہنچنا شروع ہو گئیں‘ لیکن دوسری جانب مذکورہ قبرستان کی انتظامیہ ان کی قبر کی کھدائی کی اجا زت دینے سے لیت ولعل سے کام لے رہی تھی‘ بہت سے لوگ جو اپنے کام کاج چھوڑ کر نمازہ جنازہ کی ادائی کیلئے آئے ہوئے تھے‘ بد دل ہو کر کوئی ایک گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد واپس جا نا شروع ہو گئے‘ جس پر امان اﷲ کے بیٹے اور ووستوں نے نماز جنازہ کیلئے چھ بجے کا وقت دیتے ہوئے دوبارہ میڈیا کو اطلاع کر دی اور جب چھ بج گئے تو ا س وقت بھی دور دور تک نماز جنازہ کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے‘ کیونکہ ساتھی فنکار اور امان اﷲخان کے لواحقین قبر کی کھدائی کی اجا زت لینے کیلئے منت سماجت میں لگے ہوئے تھے ‘جس پر ایک ایک کرتے ہوئے سب لوگ ایک بار پھر وہاں سے واپس جانا شروع ہو گئے۔
دریں اثناء وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹر پر اس عظیم فنکار کی موت پر اپنے دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی خدمات کو خراج ِعقیدت پیش کیا۔ادھردنیا ٹی وی پر جنید سلیم اور عزیزی( سہیل احمد) اپنے ساتھیوں امانت چن‘ نوازانجم‘ دل نواز کے ہمراہ امان اﷲ صاحب کے ساتھ اپنی فن کارانہ زندگی کے لمحات کو بیان کرتے ہوئے‘ ان کی خوبیاں اور وطن سے محبت کی داستانیں سنا رہے تھے۔اس دوران شوبز کے ایک رپورٹر ٹھاکر لاہوری اور امان اﷲ خان کے بیٹے نے پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کو اطلاع دی کہ اس ملک کے پرائیڈ آف پرفارمنس جیسے اعزاز کے حامل عوامی فنکار امان اﷲ خان کی میت ‘ اس کے لواحقین اور ساتھی فن کارقبرستان کے نگرانوں کے تنا زع کی بنا‘ کسی درد مند کی راہ تک رہے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں یہاں دفنانے کی ا جا زت کیوں نہیں دی جا رہی تو ان کا کہنا تھا کہ سوسائٹی کے کچھ لوگ اعتراض کر رہے ہیں ‘ کچھ لوگوں نے کچھ اور وجوہ بھی بیان کیں۔ واللہ اعلم۔
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان یہ فون کال سنتے ہی ایک نہایت ہی اہم سرکاری میٹنگ کو چھوڑ کر لاہو رکی اس مشہور مضافاتی سوسائٹی کے قبرستان پہنچے‘ جہاں کچھ بارعب لوگوں نے انہیں‘ امان اﷲ صاحب کو یہاں دفن نہ کرنے کیلئے ہر طرح قائل کرنے کی کوشش کی‘ لیکن انسانیت اور فن کاروں کیلئے محبت اور احترام کا جذبہ رکھنے والے اس عوامی وزیر نے انہیں انسانیت کا حوالہ دیتے ہوئے ملک کے اس عظیم فن کار کی میت کا احترام کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اپیل کی کہ آپ کو اپنے دل وسیع کرتے ہوئے امان اللہ خان کو دو گز زمین دے دینی چاہیے‘ اس کیلئے جو بھی اخراجات ہوں گے‘ وہ میں اپنی جیب سے ادا کر دیتا ہوں‘ لیکن نہ جانے کیا وجہ تھی کہ اس سوسائٹی کی انتظامیہ نے امان اﷲخان کیلئے اپنے دل وَا نہ کئے‘ جس پر وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے ان سے کہا کہ آپ کی اس حرکت سے ہمارے ملک کی دنیا بھر میں بد نامی ہو سکتی ہے‘ اس لئے وہ اپنی نگرا نی میں اس فنکار کی قبر کھدائی اور انہیں دفن کرنے کیلئے یہاں موجود رہیں گے‘ اگر آپ کو اس جگہ کی قیمت چاہیے‘ تو وہ اس کی دگنی قیمت ابھی اور اسی وقت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اس وقت شام کے اندھیرے پھیل رہے تھے اور قبرستان میں کہیں بھی روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ البیلا مرحوم کے فرزند ہنی البیلا سمیت کچھ دوسرے فنکاروں نے جب فیاض الحسن چوہان کو دیکھا تو انہوں نے ان سے ہاتھ جوڑتے ہوئے درخواست کی آج ‘اگر ان کے ایک سینئر ساتھی فنکار کو یہاں دفن کرنے کی اجا زت نہ ملی تو ہم سمجھیں گے کہ ہمارا اس ملک میں کوئی مقام نہیں اور یہ سنتے ہی وزیر اطلاعات پنجاب فیا ض الحسن چوہان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور انہوں نے امان اﷲخان کے بیٹے کو سینے سے لگاتے ہوئے دلا سہ دیاا ور پھر پھائوڑا پکڑ کر خود قبرکھودنا شروع کر دی۔ رات کا اندھیرا پھیلنا شروع ہوا تو قبر کی کھدائی میں مشکلات پیش آنا شروع ہو گئیں ‘جس پر صوبائی وزیر نے سوسائٹی کے کچھ لوگوں کی مدد سے قبرستان کے اس حصے میں جو اصلی قبرستان سے کچھ فاصلے پر تھا‘ روشنی کا بندوبست کروایا‘ جس کے بعد امان اﷲ کی نمازہ جنازہ ادا کی گئی اور صو بائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے اپنے ہاتھ سے اس عظیم مزاحیہ فنکار کو قبر میں اتارا۔ مقام ِ افسوس یہ ہے کہ خود کو فن کاروں کی سب سے زیا دہ حمایتی اور قدر کرنے کا نعرہ لگانے والی کسی ایک بھی سیا سی جماعت کی وہاں نمائندگی نہیں تھی ۔
مجھے تب ہنی البیلا کے یہ الفاظ یا آنے لگے: ''جب بھی کسی فنکار کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی جانب سے کسی بھی تمغے یا اعزاز کا اعلان ہوا تو یہ ایوارڈ اور تمغہ وصول کرنے کی بجائے ایک ہی درخواست کریں گے کہ ہمیں تمغہ نہیں ‘کسی قبرستان میں دفن ہونے کا اجا زت نامہ دیا جائے‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں