دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں ‘ تعلیمی ا داروں اور فوجی تربیت گاہوں کے مضامین میں پاکستان کو کیس سٹڈی کے طور پر شامل کر لیا گیا ہے کہ کس طرح اس ملک نے ‘جسے دنیا کی پانچ خطرناک دہشت گرد تنظیموں اور تین سے زائد دشمن خفیہ ایجنسیوں نے پندرہ برسوں سے اندرونی اور بیرونی دہشت گردی کا نشانہ بنا رکھا تھا‘ ان سب پر قابو پایا۔کراچی میں امن مشقوں سے متعلق ایک سیمینار میں شریک ایک غیر ملکی دفاعی تجزیہ کار سے پوچھا کہ دہشت گردوں اور گوریلا جنگ کے ماہر گروہوں کے خلاف لڑنے والی کسی فوج کو‘ ان عناصر پر قابو پاتے ہوئے کس قدر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ؟تو ان کا جواب تھا کہ ایک دہشت گرد کے مقابلے میں سکیورٹی فورسز کے چھ لوگ کام آتے ہیں‘ لیکن حیرت انگیز طور پر اس سکہ بند فوجی اصول کا تنا سب پاکستان میں بالکل اُلٹ رہا۔ ان کا کہنا تھا ''Pakistan has defeated terrorism in kinetic domain‘‘ اور یہ کسی بھی فوج کی اہلیت تسلیم کرنے کیلئے استعمال کئے گئے بہترین الفاظ سمجھے جاسکتے ہیں ۔
نائن الیون کے فوری بعد پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت نے چاروں جانب سے اس طرح حصار میں لے رکھا تھا کہ اس کی سالمیت اور وحدت خطرے کے نشان تک جا پہنچی تھی ‘یہاں تک ہوا کہ پاکستان میں بریکنگ نیوز یہ نہیں ہوتی تھی کہ آج فلاں جگہ بم دھماکہ ہو گیا ‘فلاں جگہ ریاستی املاک پر حملہ کیا گیا بلکہ بریکنگ نیوز اسے کہا جانے لگا کہ آج کوئی خود کش حملہ‘ بم دھماکہ یافائرنگ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ دہشت گردوں کو استعمال کرنے والوں نے صرف سکیورٹی فورسز ہی کو نہیں بلکہ زبان‘ نسل‘ مرد عورت اور بچوں سمیت کسی تمیز کے بغیر تمام پاکستانیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ بلوچستان میں بھارت‘ افغانستان اور امریکہ کے سدھائے ہوئے دہشت گرد تھے تو خیبر پختونخوا اور سندھ‘ کراچی میں راء‘ این ڈی ایس اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں سر گرم تھیں اور پنجاب میں بھارت کی لے پالک فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والی انتہا پسند تنظیموں نے اودھم مچارکھا تھا۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دشمن نے پاکستان بھر کی پولیس کو نشانے پر رکھ لیا ۔مقصد یہ تھا کہ اس فورس کو اس قدر خوف زدہ کر دیا جائے کہ یہ اپنی بیرکوںا ور گھروں ہی سے نکلنا چھوڑ دیں یا اگر کسی جگہ سکیورٹی کیلئے موجود ہوں تو بجائے کسی کو روکنے یا چیک کرنے کے ادھر ادھر دبک کر چھپے رہیں ۔کراچی‘ بلوچستان‘ لاہور ‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ مردان‘ بنوں‘ کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میںپولیس اہلکاروں پر کہیں خود کش حملے ہوئے تو کہیں دہشت گردوں نے سنیپ فائرنگ کے واقعات کا آغاز کر دیا ۔یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس نے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اور امن و امان بحال کرنے والے اداروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ۔
بات یہیں تک محدود نہ رہی بلکہ دشمن نے مذہبی منافرت کا سہارا لیتے ہوئے ان پڑھ اورفرقہ واریت کی سوچ سے آلودہ ‘جنونی تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کوافغانستان میں اپنے ٹریننگ کیمپوں میں کمانڈو ٹریننگ دینا شروع کر دی اور اپنے ڈالروں سے فیض یافتہ ان دہشت گردوں کو پاکستان کے دفاعی اداروں کے مرکزی دفاتر اور ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا ٹاسک دے دیا‘ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آرمی کے جوانوں کے تربیتی سینٹر مردان ‘ مہران بیس کراچی‘ ڈاک شپ یارڈ کراچی‘جی ایچ کیو اورکامرہ ائیر بیس پر یکے بعد دیگرے اور پھر کوئٹہ ‘ بیدیاں پولیس ٹریننگ سینٹر اورایف آئی اے آفس لاہورپر بار بار خود کش ایکشن کرانے شروع کر دیئے ۔ ساتھ ہی امریکہ اور مغربی دنیا میں پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے گرجا گھروں اور مسیحی بستیوں اور مذہبی تہوارمنانے کیلئے کسی پارک میں گئی ہوئی فیملیوں پر خود کش حملے شروع کرا دیئے۔ شاید بھارت اپنے ان الفاظ کو حقیقت کا روپ دے رہا تھا کہ'' ہم دشمن کے اندر گھس کر اسے ماریں گے‘‘ ۔ دہشت گردی اس حد تک جا پہنچی کہ پاکستان کو دنیا کے چند ایک خطرناک ترین ممالک کی صف میں شامل کردیا گیا تو ساتھ ہی اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری جامد ہو کر رہ گئی‘ یہاں تک ہوا کہ ملکی صنعت کاروں نے بھی کراچی ‘ حب‘ فیصل آباد‘ گوجرانوالہ‘ گجرات اور گدون کی بجائے بنگلہ دیش‘ چین اور ملائیشیا میں صنعتیں لگانا شروع کر دیں‘ جس سے ایک جانب ملکی بر آمدات کو نقصان پہنچا تو ساتھ ہی بے روز گاری کا طوفان امنڈنا شروع ہو گیا۔
پاکستان دشمنوں کے ٹرائیکا نے صرف معاشی اور عسکری دہشت گردی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ آج کے دور کا جدید ترین ا ور انتہائی خطرناک ہتھیار سوشل میڈیا کو بھی پوری قوت اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال میں لانا شروع کر دیا۔سوشل میڈیا ایک ایسا ہتھیار تھا جس کے ذریعے فوج اور اس سے متعلقہ اداروں کوہدفِ تنقید بنائے رکھنے کا مشن دیا گیا۔ ان کا سب سے پہلا اور اہم مقصد یہ تھا کہ پاکستانی فوج اور عوام میں بد گمانیاں پیدا کی جائیں۔ با قاعدہ پڑھائے اور رٹائے گئے اعداد و شمار کی گردان کراتے ہوئے ذہنوں کو مسخر کر نا شروع کر دیا گیا کہ یہ فوج ہی ہے جو پاکستان کاسارا بجٹ کھا جاتی ہے‘ یہی ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جنگ ستمبر ‘ کارگل کی فتح کو شکست میں بدلنا شروع کر دیا گیا۔ یہ کہا جانے لگا کہ یہ جو ہسپتالوں میں علاج نہیں ‘ تعلیم ‘ پانی ‘ بجلی اور گیس مہنگی ہے یہ سب اسی کی وجہ سے ہی ہے۔ آٹا چینی‘ گھی‘ سبزیاں اور دالیں ان سب کے مہنگے ہونے کی وجہ بھی یہی ہے ‘کیونکہ ہمارا سارا پیسہ تو اس پر خرچ ہو جاتا ہے اور جھوٹ بول بول کر کان پکا دیے کہ پاکستان کے کل بجٹ کا70 فیصد یہ کھا جاتی ہے۔ اور پھر ماہرینِ معاشیات نے اس جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کے لیے سامنے آ کر قوم کو سچ بتانا شروع کیا کہ فوج کو صرف18 فیصد بجٹ دیا جاتا ہے اور اس برس اس میں بھی وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی باہمی رضامندی سے مزید دس فیصد کمی کر دی گئی ہے۔فوج کے کردار پر بے جا تنقید کرنے والوںکا مقصد تھا کہ فوج اور عوام میں بد اعتمادی پیدا کر کے بیس کروڑ پاکستانیوں کا بھی وہی حال کر دیا جائے جو اس وقت بھارت کے مسلمانوں کا ہو رہاہے۔
دشمن نے جب دیکھا کہ آپریشن راہِ حق سے ضربِ مومن اور پھر ردالفساد کے ذریعے ٹی ٹی پی اور اس کی پانچ سے زائد ذیلی تنظیموں کو وزیرستان سے ختم کیا جا رہا ہے تو دشمن کے اس ٹرائیکا نے القاعدہ اور ٹی ٹی پی کی جگہ پشتون تحفظ موومنٹ اور داعش کو میدان میں اتار دیا‘ جس نے کراچی اور بلوچستان سمیت کے پی کے میں اپنے قدم جمانے شروع کر دیئے‘ لیکن افواجِ پاکستان نے ان کے خلاف ایک طویل اور پیچیدہ جنگ لڑتے ہوئے انہیں دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا ۔دہشت گردی کی جنگ تو پاک فوج نے اپنے ہزاروں جوانوں اور افسروں کی شہادتیں دیتے ہوئے جیت لی ہے‘ لیکن اب پاکستانیوں کو ایک او رجنگ کا سامنا ہے اور اس کے لیے سب کو مل کر دشمن کے میڈیا نیٹ ورک اور ان کے اندرونی اور بیرونی ایجنٹوں کے سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف پروپیگنڈا کو ناکام بنانا ہے۔