"MABC" (space) message & send to 7575

بھارت کی نئی انڈو پیسفک سٹرٹیجی

کرہ ٔارض پر ہر قوم ا ور ملک کورونا وایئرس کیخلاف جنگ میں مصروف ہے‘ جبکہ ایسے میں نئی دہلی کی راشٹریہ سیوک سنگھ سرکار ‘سری لنکا اور بھارت کی انٹر نیشنل میری ٹائم بائونڈری معاہدے کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے امریکا کی شہ پر چین کیخلاف جارحانہ اقدام کرتے ہوئے‘ سری لنکن میری ٹائم بائونڈری سے صرف65 میل دور انڈین ایئر فورس کے MKI 6xSU30 کی تنصیب کر دی ہے ۔ بحر ہند کی اس حدود میں جب انڈین ایئر فورس کی جانب سے 6XSU30 MKI کی تنصیب کی اطلاعات آئیں تو صرف چین ہی نہیں ‘بلکہ دنیا بھر کیلئے یہ ایک الارمنگ نیوزبن گئی۔ادھر سری لنکن حکومت اور اس کے عسکری قیادت کو بھی سخت دھچکا لگا کہ انہیں بے خبر رکھ کر بھارتی سرکار‘ امریکا کی شہ پر چین کیخلاف اپنے اقدام میں سری لنکن عوام کو کیوں شامل کرنے پر تلی ہوئی ہے ؟کیونکہ چین جو ایک عرصے سے سری لنکا میں ترقیاتی کاموں میں مصروف ہے اور سری لنکن انفراسٹرکچر کیلئے اہم کردار ادا کر رہا ہے‘ وہ بھارت کے ایسے اقدامات اٹھانے سے سے کیا تاثر لے گا؟ سری لنکا نے اس پر جب احتجاج کیا تو بھارتی سرکارنے عذر تراشتے ہوئے کہا کہ چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے سری لنکن میری ٹائم بائونڈری پر انڈین ایئر فورس کی موجودگی ناگزیرہے ۔
بھارت کو شاید غلط فہمی ہے کہ اس کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے حالیہ دورۂ سری لنکا میں‘ جو انہوں نے سر ی لنکن صدر کے سامنے مشترکہ دفاعی تعاون کی تجویز رکھی ہے‘ نیز صدارتی الیکشن میں ان کی کامیابی کیلئے مودی سرکار کی جانب سے سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع سے بھر پور مدد کا یقین دلایا ہے‘ لہٰذا سری لنکن صدر کی اجیت ڈوول کی اس پیش کش پر خاموشی کو بھارت سرکار نیم رضا مندی سمجھ بیٹھی ہے۔ امسال بیس جنوری کو انڈیا نے سری لنکن حکومت سے بار بار رابطہ کیا کہ چین کی اپنے ارد گرد اور سی پیک سمیت ون روڈ ون بیلٹ( سلک روٹ) کیلئے سمندری حدود میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پیش نظر اپنی میری ٹائم حدود میں اضافہ کرنے کی اجازت دے ۔ اس سلسلے میں '' الجزیرہ‘‘ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطا بق ‘بھارت کے سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول نے سری لنکن صدر سے ملاقات میں اتفاق کیا کہ '' بھارت اور سری لنکا کا مشترکہ ''میری ٹائم ریسرچ کوارڈی نیشن سینٹر‘‘ قائم کیا جائے‘ جس کی سری لنکن صدر نے منظوری دے دی‘ جس پر بھارت نے خود سے سمجھ لیا کہ ہماری میری ٹائم بائونڈری والی پیش کش پر بھی سری لنکا نے رضامندی کا اشارہ دے دیا ہے۔ ''الجزیرہ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق‘ بھارت‘ سر ی لنکن حکومت کو یہ جھانسا دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ میری ٹائم ریسرچ سینٹر قائم ہونے کے بعد ‘اگر سری لنکن حکومت کسی وقت بھی مناسب سمجھے تو کچھ ہمسایہ ممالک کو بطور مبصر اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
چین کیخلاف بھارت کو استعمال کرنے کے امریکی جنون نے اسے بھارت کی نئی انڈو پیسفک سٹرٹیجی کے ساتھ نتھی کر دیا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے ‘جب ا مریکہ اور روس دونوں چین کے مشترکہ دشمن تھے۔ بھارت کو امریکی شہ اور گزشتہ دہائی سے اپنے اور اتحادی ممالک کے اسلحہ خانوں سے ‘جنہیں چین کی عالمی طاقت کا ہوا دکھا کر اس کے سامنے بیٹھے ہوئے دشمن بھارت کی طاقت بڑھانے کیلئے ہر طرح کے اسلحے سے بھرا جا رہا ہے اور اسی شہ کے نشے نے بھارتی سرکار کو آسمانوں پر چڑھا رکھا ہے؛ حالانکہ اس کے تھنک ٹینک اپنی تمام رپورٹس میں مودی سرکار کو کب کا باور کروا چکے کہ بھارت‘ چین کی معیشت اور اس کی بری‘ بحری اور فضائی قوت کا کسی صورت بھی مقابلہ نہیں کر سکتا ہے‘ اس لئے بہتر ہو گا کہ وہ اپنی توانائیاں چین کو تباہ کرنے کی بجائے صرف اپنی جغرافیائی حدود اور محل وقوع کا فائدہ اٹھائے اور عالمی طاقتوں سے معاشی‘ سیا سی اور عسکری فوائد اکٹھے کرنے کی جانب توجہ دے ۔
سری لنکا کا بے ساختہ بھارت کی طرف جھکنا معمول کی خارجہ پالیسی نہیں ‘بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ سری لنکا کا بیرونی اور اندرونی ادائیگیوں اور گمبھیرمعاشی صورت حال کا سامنا ہوناہے‘ اس لئے بھارت کے تھنک ٹینک نے اسے مشورہ دیا ہے کہ ان حالات میں سری لنکن صدر کے متوقع دورۂ بھارت کے دوران اس کی مجبوریوں اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے بھارت ‘اگر کسی بڑی امداد کی پیشکش کرے تو کوئی شک نہیں کہ یہ ریلیف ملنے کے بعد بھارتی قیا دت چین کے اثر و رسوخ کو سری لنکا میں کم کر سکتی ہے اور اگر بھارت نے اسے معاشی بدحالی سے نکلنے میں کوئی بڑی مدد دے دی تو ممکن ہے کہ کل کو سری لنکا چین کے سرکل سے باہر نکل آئے‘ لہٰذابھارت نے سری لنکا کی میری ٹائم سکیورٹی حدود میں 6xSU30 MKIکی تنصیب تو کر دی ہے‘ لیکن اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا لنکن عسکری قیادت اسے خوش دلی سے قبول کر لے گی؟ کیونکہ سری لنکا کے عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ8 جولائی1974ء کوسری لنکن '' آدم برج‘‘ اور بھارت کےPalik Strait میری ٹائم حدود کے معاہدے اور پھر23 مارچ1976 ء کو گلف آف مانار اور خلیج بنگال کے معاہدے کے باوجود Thanjavur تامل ناڈو میں6xSU30 MKI کی تنصیب ظاہر کرتی ہے کہ بھارت اپنے سے کمزور ممالک کو آگاہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتا ‘ بجائے مذکورہ معاہدوں کا احترام کرتا‘ بلکہ گزشتہ ایک ڈیڑھ برس میں ایک جانب‘ اگر بھارت سارک ممالک پر اپنا دبائو بڑھا تاچلا آرہا ہے ‘تو ساتھ ہی امریکا‘ جاپان اور آسٹریلیا‘چین کیخلاف بھارت کو لگام ڈالے ہوئے ہیں۔
نصف دہائی سے جغرافیائی اور علا قائی تعلقات بدلتے نہج پر رخ پھیرتے گھومتے اور پھر ساتھ چھوڑتے دکھائی دے رہے ہیں‘ جس طرح انفرادی اجتماعی ‘سیا سی دوستیاں اور تعلقات یک دم انگڑائیاں لیتے ہوئے رخ بدل لیتے ہیں‘ وہ دیکھنے والوں کو حیران کر جاتے ہیں ‘جس کا جمہوریہ چین کو سب سے زیا دہ احساس ہونا قدرتی امر ہے۔ چین کی دوستی کی جانب اس لئے بھی ہاتھ اور قدم بڑھتے ہوئے کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے‘کیونکہ اس کے رویے نے اپنے ارد گرد کے پڑوس کو کبھی بھی بھوکی نظروں سے نہیں دیکھا اور نہ ہی ان کے بخیے ادھیڑنے کی کوشش کی‘ بلکہ ہمیشہ انہیں سنوارنے کے اقدامات کیے ۔یہ وہ رویہ ہے‘ جس نے بھارت کو چین کی طرف سے تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے اور جب سے چین نے سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ( سلک روٹ) کا دامن ہر ایک کیلئے وا کر رکھا ہے‘ تب سے مالدیپ ‘بنگلہ دیش‘ میانمار‘ پاکستان اور سری لنکا چین کے نزدیک تر ہوتے جا رہے ہیں اور یہی بھارت کا وہ درد سر ہے‘ جس نے اسے چکرا کر رکھ دیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ چین اور امریکا کی دشمنی نے بھارت کو جیسے یقین دلا دیا ہے کہ ادھر اس نے چین پر جھپٹا مارنا ہے۔ ادھر امریکا نے چین کو گھیرے میں لے لینا ہے۔ اس وقت بظاہر بحیرۂ ہند پر سکون دکھائی دیتا ہے‘ لیکن امریکی اتحادیوں اور بھارت کے چین کیخلاف طے شدہ جنگی صورتِ حال کے محاذ وں کی طرف دیکھیں تو بغیر کسی شک و شبہ کے کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں کشمکش بڑھ جائے گی‘ یعنی بھارت نئی انڈو پیسفک سٹرٹیجی کے تحت ‘ ان سمندری راستوں کی جانب گامزن ہے‘ تاکہ وہ خطے کا غنڈہ بن سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں